طلاق ثلاثہ،لو جہاد، گائو کشی، بنے نہیں بنانے کا موقع دیا گیا ہے

ملک میں جدید طرز پر بنائے گئے طلاق ثلاثہ، لوجہاد، گائوکشی کے قوانین بھلے ہی سنگھ پریوارکی جانب سے عمل میں لائے گئے ہیں اوران قوانین کو اقلیتوں پر جبراً نافذ کئے جارہے ہیں،یہ شروعات پچھلے سات آٹھ سالوں سے تیز ہوچکی ہے، لیکن ان قوانین کوعمل میں لانے کا موقع خود مسلمانوں نے ہی دیاہے۔قرآن کریم میں مختلف آیتوں میں باربار الگ الگ قوموں کو اس بات کی تنبیہ دی گئی ہےکہ اگر تم اپنے اعمال واوصاف کو بہتر نہیں بناتے اور اپنے آپ کو راہ حق پر نہیں لے جاتے ہو تو تم پر عذاب نازل کیاجائیگا اور ایسی قوموں کو تم پر مسلط کردیاجائیگا کہ وہ تم پر نہ صرف حکومتیں کرینگے بلکہ تمہارے لئے عذاب بن کر آئینگے۔حالانکہ یہ آیتیں اور اسکے مفہوم طویل ہیں، لیکن ہم نے مختصر اس کا حوالہ لیاہے۔یقیناً اللہ نے قرآن پاک کو تاقیامت تک ہدایت اور رہنمائی کیلئے کائنات پر نازل کیا ہے،مگر ہم نے اس کتاب کے مفہومات کو عارضی طور پرمحدود معاملات پر ہی استعمال کیا ہے۔طلاق ثلاثہ کی بات لیں تو قرآن کریم اور شریعت کے مطابق طلاق ایک ایسا عمل ہے جو اللہ کو سخت ناپسندیدہ ہے اورتمام حدود کوپارکرنے کے بعد اگر زوجین کا معاملہ حل نہیں ہوتا تو ایسے میں طلاق دینےیا لینے کا معاملہ سامنے آتاہے۔مگر پچھلے دو تین عشروں کا جائزہ لیں تو کس طرح سے طلاق وخلع کے معاملات کو لیکر کس طرح سے امت مسلمہ الجھی رہی،طلاق کے معاملات پر خود مسلمانوں میں اختلافات رہے،طریقہ کار کو ثابت کرنے کیلئے سمینار وجلسہ اور مباحثے چلتے رہے،بعض مقامات پر طلاق اور خلع کے فیصلے کرنے کیلئے کچھ دلال نماشخصیات پیدا ہونے لگے،100 دئیے تو اِدھر200 دئیے تو اُدھر کافیصلہ ہونے لگا،دارالقضاء براہ نام رہنے لگے تھے،بیشتر فیصلے مسجدکی کمیٹیوں یا محلوں کے غنڈوں کے ذریعے ہورہے تھے،دین کا مذاق اڑ رہاتھا،عدت کی معیادکو من چاہے طریقے سے نافذ کیاجانے لگاتھا،عدت کے ایام میں کچھ لوگ خواتین کا استحصال کررہے تھے،طلاق وخلع کے فیصلوں کے نام پر کمیشن لئے جارہے ہیں،جتنا زیادہ معاوضہ خاتون کو دلوایاجاتاہے اُس کا کچھ حصہ دلالوں کو پہنچ رہا تھا،ایسے میں اللہ نے جو طلاق کا حکم اور طریقہ بتایاہےاُس پر عمل نہیں ہوتا ہے تو اللہ ناراض ہوگایانہیں اور اُس قانون کو سنجیدگی سے لینے کیلئے ظالم حکمرانوں کے ذریعے سے سزا دلوائیگا یا نہیں بتائیں؟۔

اسی طرح سے لوجہاد کا معاملہ لیں،جب معاشرے میں نکاح مشکل ہوجائے،زنا آسان ہو اور طلاق اُس سے بھی آسان ہو اورمسلمانوں میں نکاح کاطریقہ ہی بدل گیا۔مسلک ،قبیلے،خاندان کی بات کرنے والے مسلمانوں کے گھروں میں آج غیر مسلم لڑکیاں بیاہ کرآرہی ہیں، جبکہ مسلمانوں میں ہی ایک بڑا حصہ بےسہارا، غریب،کنواری،بیوہ،مطلقہ خواتین کا بھی ہے،جنہیں رشتے درکارہیں۔لیکن خاندان کی عزت و عظمت کا حوالہ دینے والے گھرانوں میں بے دین،ناپاک اور بدکردار لڑکیوں کی آمد ہورہی ہےاور اسے سماج میں جہاں انکارا جاتاتھا اب وہی فیشن بن چکاہے۔بھلا بتائیے کہ امت کی غیر شادی شدہ لڑکیوں کی آہ کیا بےکار نہیں جائیگی؟۔جب شریعت نے وصالحین وصالحات کا حوالہ دیکر پاک مردوں کیلئے پاک عورتوں کو نکاح کے قابل بنایاہے،تو کیونکر مسلمان نوجوان باہرکی طرف منہ ڈال رہے ہیں۔آج اُؐمت مسلمہ میں شادی بیاہ کے موقع پر جو بے راہ روی ہورہی ہے،رسم ورواج کو غیروں سے زیادہ ترجیح دی جارہی ہے،کافروں ومشرکوں کے طریقوں کو مسلمان اپنا رہے ہیں،رزق کوبے تحاشہ ضائع کررہے ہیں،ڈی جے وی جےکے نام پر ایک نکاح کی سُنت کو انجام دیتے ہوئے ہزاروں حرام وممنوع کام کررہے ہیں،روشنی کے قمقموں کو لگا کر اپنی مالداری کا ثبوت پیش کررہے ہیں تو کیامحبت کوختم کرنے کیلئے فرقہ پرست طاقتیں زور نہیں لگائینگے،جہاد جیسے فریضہ کو ہوس کے ساتھ نہیں جوڑینگے؟۔یہ سب سوچنے والی بات ہے۔

اسی طرح سے گائوکشی کے قانون کو نافذ کرنے پر ہم باوال مچارہے ہیں کہ ہمارے حق کو چھینا جارہا ہے،ہم گائے کے گوشت کو کھا نہیں پارہے ہیں،غریبوں کو گوشت کھانے کا موقع نہیں ملیگا۔اس میں بھی ہم نے کونسی ایمانداری کا مظاہرہ کیاہے،ملک کے کئی علاقوں سے چوری کئےگئے جانوروں کو ذبح کرنے کی وارداتیں عام تھیں،دودھ دینے والی گائیوں کوذبحہ کیا جارہا تھا،حاملہ گائیوں کو لا کر ذبح کرنے میں کبھی عیب نہیں سمجھاگیاتھا،دودھ پینے والے بچھڑوں کو ذبح کرتے ہوئے بکرے کا گوشت کہہ کر فروخت کرنے والے دھوکے باز قصائی تھے۔عید قرباں کے موقع پر بڑے جانوروں کی نمائش کو فخر سمجھاجاتاتھا،باقاعدہ گلی محلوں میں مقابلہ آرائی کی جاتی تھی کہ کس کاجانور بڑا،کون کتنی قیمت کا جانور لے گا۔بڑے بڑے اور اچھے اچھے کی دوڑمیں چھوٹے،غریب وضرورت مندوں کی ضرورتوں کو نظر انداز کیاگیاتھا،باربارشرپسندوں کی جانب سے دھمکیاں دینے کے باوجود بھی احتیاط نہیں برتی گئی تھی،کئی مقامات پر مندر کی مقدس گائیوں کو ہی چُرا کرذبح کرنے کی وارداتیں بھی سننے کوملی ہیں۔کچھ جگہوں پر تو چوری کے بعد جانوروں کو ذبح طریقے سے ذبح بھی نہیں کیاگیاہے تو یہ گوشت ہمارے لئے کیسے حلال ہوسکتا ہے۔گلے پر صرف بسم اللہ کہہ کر یا ذبح کی دعا پڑھ کر چھُری پھرانے سے ذبح نہیں ہوتا یا جانور حلال نہیں ہوتا،بلکہ جانور کو کن پیسوں سے یا کس طریقے سے حاصل کیاگیاہے، یہ بھی اہم سوال ہے اور اسی کی بنیاد پر حرام یا حلال کی بات واضح ہوتی ہے۔تو بتائیں کہ ان تمام برائیوں کے بعد بھی کیا ہم پر ظالم حکمران مسلط نہیں ہونگے؟کیاہم پر پریشان کرنے والے قوانین نافذ نہیں کئے جائینگے؟جب اللہ نے کہہ دیاہے کہ اگر تم اپنے اعمال کو صحیح نہیں کرلیتے ہوتو ہم اس کیلئے متبادل قومیں و طریقے جاری کرینگے۔تو اللہ کی بات کبھی جھوٹی نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے انکارکیاجاسکتاہے۔یقیناً ان میں سے کچھ باتیں کچھ لوگوں کو ہضم نہیں ہونگی، پھر بھی ہم لکھ رہے ہیں، کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197807 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.