ماں ایک گولی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی مجھے مارنے کے لیے دشمن کو توپ کا گولا چاہیے ہوگا، کیپٹن بلال ظفر شہید کا یہ قول کیسے پورا ہوا جانیں

image
 
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے پاک وطن پر جو اپنی جان نچھاور کر دیتے ہیں وہ مردہ نہیں ہوتے بلکہ ان کا ذکر ہماری محفلوں میں ہمارے خیالوں میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور ان کے قصے ہماری حیات کو ایک مقصد فراہم کرتے ہیں- ایسے ہی ایک شہید کیپٹن بلال ظفر بھی تھے جن کی شہادت بہادری کی ایک ایسی داستان ہے جس نے ہمارے سر کو نہ صرف فخر سے بلند کر دیا بلکہ بے ساختہ ہاتھ سیلوٹ کے لیے اٹھ جاتا ہے-
 
بلال ظفر 2 فروری 1982 کو راولپنڈی میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جو کہ آرمی میں خدمت کی ایک تاریخ کا حامل تھا- ان کے والد ظفر تجمل آرمی سے بطور کیپٹین ریٹائر ہوئے جب کہ ان کے دادا دوسری جنگ عظیم لڑ چکے تھے اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان آرمی کا حصہ بنے اور کشمیر کی جنگ میں رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات انجام دیں جس کے بدلے میں انہیں فخر کشمیر کے میڈل سے بھی نوازا گیا-
 
بلال ظفر نے 2001 میں آرمی میں شمولیت کی اور 42 بلوچ رجمنٹ کا حصہ بنے جس کے بعد انہوں نے ایس ایس جی کمانڈو کی ٹریننگ حاصل کی اور کچھ عرصہ اقوام متحدہ کی امن فوج میں بھی شامل رہے -اس کے بعد 2009 میں جب آپریشن راہ راست سوات میں شروع کیا گیا جو کہ دہشت گردوں کے خلاف تھا- اس میں ایس ایس جی کمانڈوز کی جانب سے آپریشن جانباز میں وادی سوات کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے اس آپریشن میں کیپٹن بلال ظفر نے شرکت کی-
 
 
کیپٹن بلال ظفر دو بھائی اور ایک بہن تھے ان کے والدین نے اس آپریشن سے قبل ہی ان کی منگنی کی تھی اور ان کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ ان کو اس آپریشن میں شرکت کے لیے جانا پڑا ۔ بہادر خاندان کے اس جری بیٹے کا اپنی ماں سے اکثر یہ کہنا ہوتا تھا کہ دشمن کی گولی ان کو نہیں مار سکتی ہے بلکہ دشمن کو ان کو مارنے کے لیے گولا لے کر آنا پڑے گا-
 
ان کی یہ کہی ہوئی بات حقیقت کا روپ دھار کر سامنے آگئی 17 مئي 2009 کو سوات کی وادی کے علاقے پیوچار میں جب ان کو دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا-
 
دشمن بھی مکمل ہتھیاروں کے ساتھ اپنے کیمپ کی حفاظت کے لیے تیار تھا پاک فوج کے کمانڈو اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر آگے بڑھ رہے تھے مگر اس موقع پر دشمن نے بھاری ہتھیاروں اور مارٹو گنوں سے ان کا راستہ روک رکھا تھا- ایسے موقع پر بلال ظفر اپنی جان کی پروا کیے بغیر آگے بڑھے تو دشمن کی گولی نے ان کے بازو کو چیر کر رکھ دیا-
 
جس پر ان کے ساتھیوں نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ پیچھے آجائیں لیکن بلال ظفر کا کہنا تھا کہ ایک گولی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے اور انہوں نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی جس کے نتیجے میں انہوں نے دشمن کے کئی مورچے اور وہاں چھپے بزدل دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا-
 
 
مگر اس موقع پر ایک مارٹر گولے نے ان کی لاش کے پرخچے اڑا دیے اور انہوں نے بہادری سے اپنی جان خالق حقیقی کے روبرو پیش کر دی شہادت کے بعد ان کی وردی اور اس کی حالت اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے کس طرح بہادری سے اپنی جان دی-
 
شہید کے گھر والوں کے لیۓ ان کی شہادت ایک بہت مشکل مرحلہ تھا مگر بلال ظفر کی والدہ کا یہ کہنا تھا کہ اگر ان کو اپنے دوسرے بیٹے کی بھی قربانی دینی پڑی تو وہ اس پر بھی ایک آنسو نہیں بہائيں گی بے شک شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
YOU MAY ALSO LIKE: