سیرت امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم ( حصہ 8)*

غزوہ احد

احد پہاڑ کے دامن میں غزوہ احد لڑی گئی
تاریخ ...7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء)
مقام ...احد
نتیجہ.... نہ فتح نہ شکست
متحارب
مسلمانانِ مدینہ اور قریشِ مکہ
قائدین اسلام
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
قائدین کفار
ابو سفیان
خالد بن ولید

قوت اور طاقت مسلمانوں کی
1000 سے کم
قوت اور طاقت کنقصانات
3200 کے قریب
نقصانات اسلام
70 شہادتیں
نقصانات کفار
27 اموات

جنگ احد 7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت سرکار کائنات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔

پس منظر

غزوہ بدر میں مسلمانوں کو شاندار فتح ہوئی تھی۔ اس کے بعد علاقے کی قوتوں بشمول قریشِ مکہ اور یہودیوں کو اندازہ ہوا کہ اب مسلمان ایک معمولی قوت نہیں رہے۔ شکست کھانے کے بعد مشرکینِ مکہ نہایت غصے میں تھے اور نہ صرف اپنی بے عزتی کا بدلہ لینا چاہتے تھے بلکہ ان تجارتی راستوں پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہتے تھے جن کی ناکہ بندی مسلمانوں نے غزوہ بدر کے بعد کر دی تھی۔ جنگ کے شعلے بھڑکانے میں ابوسفیان ، اس کی بیوی ہندہ اور ایک یہودی کعب الاشرف کے نام نمایاں ہیں۔ ہندہ نے اپنے گھر محفلیں شروع کر دیں جس میں اشعار کی صورت میں جنگ کی ترغیب دی جاتی تھی۔ ابو سفیان نے غزوہ احد سے کچھ پہلے مدینہ کے قریب ایک یہودی قبیلہ کے سردار کے پاس کچھ دن رہائش رکھی تاکہ مدینہ کے حالات سے مکمل آگاہی ہو سکے۔ ابوجہل غزوہ بدر میں مارا گیا تھا جس کے بعد قریش کی سرداری ابوسفیان کے پاس تھی جس کی قیادت میں مکہ کے دارالندوہ میں ایک اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ جنگ کی تیاری کی جائے۔ اس مقصد کے لیے مال و دولت بھی اکٹھاکی گئی۔ جنگ کی بھر پور تیاری کی گئی۔ 3000 سے کچھ زائد سپاہی جن میں سے سات سو زرہ پوش تھے تیار ہو گئے۔ ان کے ساتھ 200 گھوڑے اور 300 اونٹ بھی تیار کیے گئے۔ کچھ عورتیں بھی ساتھ گئیں جو اشعار پڑھ پڑھ کر مشرکین کو جوش دلاتی تھیں۔
ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے یہ ارادہ کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجا چبائے گی چنانچہ اس مقصد کے لیے اس نے حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کے لیے اپنے ایک غلام کو خصوصی طور پر تیار کیا۔ بالآخر مارچ 625ء میں یہ فوج مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے روانہ ہو گئی۔
سرکار کائنات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ تعالی نے ، جو مکہ ہی میں رہتے تھے، انہیں مشرکین کی اس سازش سے آگاہ کر دیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انصار و مہاجرین سے مشورہ کیا کہ شہر میں رہ کر دفاع کیا جائے یا باہر جا کر جنگ لڑی جائے۔ فیصلہ دوسری صورت میں ہوا یعنی باہر نکل کر جنگ لڑی جائے چنانچہ 6 شوال کو نمازِ جمعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ تعالی کو استقامت کی تلقین کی اور 1000 کی فوج کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہو گئے۔
اشواط کے مقام پر ایک منافق عبداللہ بن ابی 300 سواروں کے ساتھ جنگ سے علیحدہ ہو گیا اور بہانہ یہ بنایا کہ جنگ شہر کے اندر رہ کر لڑنے کا اس کا مشورہ نہیں مانا گیا۔ ہفتہ 7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) کو دونوں فوجیں احد کے دامن میں آمنے سامنے آ گئیں۔ احد کا پہاڑ مسلمانوں کی پشت پر تھا۔ وہاں ایک درہ پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عبداللہ بن جبیر رضی اللہ تعالی کی قیادت میں پچاس تیر اندازوں کو مقرر کیا تاکہ دشمن اس راستے سے میدانِ جنگ میں نہ آ سکے۔

جنگ

جنگ کا آغاز مشرکین کی طرف سے ہوا جب ابوعامر نے تیر اندازی کی۔ اس مرحلہ پر نو افراد مشرکین کی طرف سے آئے جو سب قتل ہوئے۔ دوسرے مرحلے میں مشرکینِ مکہ نے اکٹھا بھر پور حملہ کر دیا۔ اس دوران ان کی کچھ عورتیں ان کو اشعار سے اشتعال دلا رہی تھیں تاکہ وہ غزوہ بدر کی عبرتناک شکست کا داغ دھو سکیں۔ ابتداء کی زبردست جنگ میں مسلمانوں نے مشرکین کے کئی لوگوں کو قتل کیا جس پر مشرکین فرار ہونے لگے۔ مسلمان یہ سمجھے کہ وہ جنگ جیت گئے ہیں چنانچہ درہ عینین پر تعینات اصحاب نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ ہدائت فراموش کر دی کہ درہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا اور درہ چھوڑ کر میدان میں مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ صرف دس افراد درہ پر رہ گئے۔ خالد بن ولید (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کوہِ احد کا چکر لگا کر درہ پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں پر یکدم پیچھے سے وار کر دیا۔
اسی اثناء میں یہ افواہ گرم ہوئی کہ سرکار کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہید کر دئیے گئے ہیں۔ یہ سن کر اکثر اصحاب نے ہمت ہار دی اور راہِ فرار اختیار کی۔ کچھ لوگ میدان جنگ سے فرار ہو گئے اور تیسرے دن واپس آئے۔ کچھ ارد گرد کی پہاڑیوں پر چڑھ گئے اور افسوس کیا کہ وہ عبد اللہ بن ابی کے ساتھ کیوں نہ چلے گئے۔ کچھ لوگوں نے یہ سوچا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد زندگی کسی کام کی نہیں کچھ لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہ گئے اور ان کی بھر پور حفاظت کی۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی کرم اللہ وجہہ کو ایک تلوار بھی عنایت کی جو 'ذوالفقار' کے نام سے مشہور ہے۔ اس دوران حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دانت شہید ہوئے۔ حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو گئے۔
اس بارے میں اللہ نے قران میں فرمایا۔

جب تم (افراتفری کی حالت میں) بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جماعت میں (کھڑے) جو تمہارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمہیں پکار رہے تھے پھر اس نے تمہیں غم پر غم دیا (یہ نصیحت و تربیت تھی) تاکہ تم اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس مصیبت پر جو تم پر آن پڑی رنج نہ کرو، اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔
سورۃ آل عمران آیت 153

کچھ وقفے بعد اصحاب میدان میں واپس آنا شروع ہو گئے۔ چونکہ مشرکین اپنے بھاری سامانِ جنگ مثلاً زرہ بکتر کی وجہ سے احد کے پہاڑ پر چڑھ نہ سکے اس لیے کئی مسلمانوں کی جان بچ گئی۔ ابو سفیان کی بیوی ہندہ اور اس کے ساتھ کچھ لوگوں نے مسلمان شہداء کے ناک اور کان کاٹے اور ہندہ نے حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجا نکال کر چبایا جس کا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بے حد رنج رہا۔ کچھ مسلمانوں کے واپس آنے اور یہ معلوم ہونے کے بعد کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہید نہیں ہوئے، مشرکین نے جنگ سے مکہ کی طرف واپسی اختیار کی۔

نتائج

بعض لوگ اس جنگ کو مسلمانوں کی شکست خیال کرتے ہیں اور بعض کے خیال کے مطابق اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا۔ بہرحال یہ واضح ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہدایات کو فراموش کرنے یا عسکری نظم و ضبط کو ترک کرنے کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ اگر درہ عینین پر تعینات لوگ درہ نہ چھوڑتے تو مسلمان فتحیاب ہو چکے تھے۔ اس جنگ میں ستر مسلمان شہید ہوئے جبکہ ستائیس مشرکین ہلاک ہوئے۔ مسلمانوں نے اپنے شہداء کو وہیں پر دفن کیا۔

پیش منظر

اس غزوہ میں کسی حد تک شکست ایک تعمیری شکست ثابت ہوئی کیونکہ مسلمانوں کو کچھ سبق ملے جو اگلی جنگوں میں کام آئے۔ مسلمانوں کو اپنی غلطیوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ خدا نے قرآن میں یقین دلایا کہ حزن و ملال نہ کرو کیونکہ بالآخر مومنین ہی غالب آئیں گے۔

حوالہ جات

↑ شوقی ابو خلیل (2004). غزوہ احد. لاہور: دارالسلام. pp.245. ISBN 9960-899-06-3.
↑ المغازی جلد اول صفحہ 213۔214
^ 3.0 3.1 السیرۃ النبویۃ از ابن ہشام
↑ تاریخِ طبری جلد دوم
^ 5.0 5.1 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 514
↑ السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام
↑ السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام جلد 2صفحہ 129

غزوہ احد اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جاں نثاری

2 ہجری 17 رمضان المبارک میں غزور بدر ہوا اور 3ھ شوال کے مہینے میں آٹھ یا تیرہ یا پندرہ تین روایتیں موجود ہیں میں ایک سال بعد غزوہ احد ہوا۔ یاد رکھنا کہ غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں امام الانبیاء حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجاہدین کو لے کر باطل کی چٹانوں سے ٹکرانے کے لئے عظمت اسلام کی خاطر خود شریک ہوں۔

غزوہ احد میں مشرکین کی تعداد تین ہزار تھی اور لشکر اسلام کی تعداد ایک ہزار تھی جن میں تین سو منافقین شامل تھے۔

رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بظاہر مسلمان ہوگیا تھا لیکن دل و نگاہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ مشرکین مکہ سے اس کے روابط قائم تھے یہ دوسرے منافقین مدینہ کے ساتھ سازشوں میں مصروف رہا۔ مدینہ سے نکلتے وقت یہ اسلامی لشکر میں موجود تھا لیکن طلوع فجر سے کچھ دیر پہلے اسلامی لشکر نے مارچ کیا۔ نماز فجر شوط میں ادا کی جہاں سے دشمن کا لشکر صاف نظر آ رہا تھا تو عبداللہ بن ابی نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت صدائے احتجاج بلند کی کہ جنگ کے بارے میں ہماری بات نہیں مانی گئی کہ ہم مدینہ میں محصور ہو کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے لیکن چند نوجوانوں کے کہنے پر کھلے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہم اپنے آپ کو کیوں ہلاکت میں ڈالیں۔ پس عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ اسلامی لشکر سے علیحدہ ہوگیا۔
(ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، سیرۃ الرسول، 8 : 362)

سو ایک ہزار میں سے تین سو منافق نکل گئے باقی خالص ایماندار امام الانبیاء حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےعاشق رہ گئے۔ مسلمانوں کا صرف سات سو کا لشکر ہے جبکہ دوسری طرف مشرکین کا تین ہزار کا لشکر پوری تیاری کے ساتھ آیا۔ کافروں کا سپہ سالار ابوسفیان تھا۔ اس کے ساتھ عمرو بن عاص اور خالد بن ولید بھی تھا جن کو بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے ایمان کی دولت سے سرفراز کیا تھا۔ مشرکین مکہ اپنے بڑوں کا بدلہ لینے کے لئے بڑے زور و شور سے آئے۔ ان کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ سب کی زبانوں پر یہ ہی لفظ تھا۔ انتقام، انتقام۔ یہ کہتے ہوئے مکہ سے چل کر مدینہ پہنچ گئے۔ مدینہ شریف سے ڈھائی تین میل کے فاصلے پر احد پہاڑ ہے۔ احد پہاڑ کے بارے میں آقا علیہ السلام نے فرمایا : ’’احد پہاڑ سے جنت کی خوشبو آتی ہے‘‘۔

سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احد پہاڑ پر تشریف فرما ہیں تو پہاڑ کو وجد آ گیا۔ یہ پہاڑ اپنی قسمت پر ناز کر رہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے غلاموں کو عرض کیا جانتے ہو یہ کیا کہہ رہا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا۔ اللّٰہ ورسولہ اعلم ’’اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے ہم اس سے محبت کرتے ہیں تو جس آقا علیہ السلام کو پہاڑ کی محبت کا علم ہو تو کیا غلاموں کی محبت کا علم نہ ہوگا۔

بے خبر ہو جو غلاموں سے وہ آقا کیا ہے

ادھر حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ جنگلوں میں بیٹھ کر حضور علیہ السلام امام الانبیاء حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کر رہے ہیں۔
عرض کرتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرا جی چاہتا ہے مدینے پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کروں لیکن آقا! میری ماں بوڑھی ہے۔ اس کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اویس اپنی ماں کی خدمت کرتے رہو۔ ہمیں محبت کی خوشبو آ رہی ہے۔ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ، قرن میں بیٹھ کر محبت بھری آرزو عرض کرتے ہیں تو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنتے ہیں لہذا یہ ناممکن ہے کہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرے اور حضور علیہ السلام کو اس کی محبت کا علم نہ ہو۔ فرمایا میرے صحابہ! یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ احد پہاڑ محبت سے جھوم رہا ہے۔ آقا علیہ السلام نے پاؤں سے ٹھوکر لگائی اور فرمایا : ’’پہاڑ ٹھہر جا تیرے جھومنے سے میرے صحابہ کو زخم نہ آ جائے۔ فرمایا تو بڑا خوش نصیب ہے تجھ پر اللہ کا نبی ہے جو سارے نبیوں کا سردار ہے اور تجھ پر صدیق ہے جو ساری امت کا امام ہے اور تجھ پر دو شہید ہیں، میرا فاروق رضی اللہ عنہ اور میرا عثمان رضی اللہ عنہ۔

غزوہ احد پہاڑی جنگ تھی آقا کائنات امام الانبیاء حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پچاس مجاہدوں کی ایک درّے پر ڈیوٹی لگادی کہ تم اس درّے پر کھڑے رہنا۔ دونوں پہاڑوں کے درمیان راستہ ہو تو اسے درّہ کہتے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا تم نے یہاں سے ہٹنا نہیں یہاں تک کہ میں آپ کو حکم نہ دوں کہ درّہ چھوڑ دو۔ جنگ شروع ہوئی ابتداء میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عظیم فتح ہوئی۔ مشرکین مکہ کے سارے جرنیل احد سے کئی میل کے فاصلہ پر بھاگ گئے تو درے پر جو صحابہ رضی اللہ عنہم تھے انہوں نے دیکھا کہ اب تو مشرکین مکہ کو شکست ہوگئی ہے۔ وہ بھاگ گئے ہیں اب درے سے نیچے اتر جائیں تو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ درے پہ کھڑے رہنے کا حکم اس وقت تھا جب تک کافروں کے سپاہی سامنے ہوں یہ سوچ کو وہ پچاس صحابہ رضی اللہ عنہم نیچے اتر آئے اور مال غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولید نوجوان سپاہی تھے اس وقت وہ کافروں کے لشکر میں شامل تھے۔ ایک ہی جنگ ہے جس میں وہ کافروں کے لشکر میں شامل تھے بعد میں جتنی جنگیں ہوئیں وہ اسلام کی خاطر لڑے۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ درے کا راستہ خالی ہے تو انہوں نے اپنے سپاہیوں کو کہا دوڑو موقع ہے جب وہ دوڑ کر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مال غنیمت جمع کر رہے ہیں انہوں نے درّہ خالی ہونے کی وجہ سے موقع پا کر فوراً حملہ کر دیا جس سے افراتفری پھیل گئی۔ میدان احد میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ آقا کائنات امام الانبیاء حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک اور ہونٹ مقدس زخمی ہوگئے۔
جانثار صحابہ کرام آقا علیہ السلام کے پسینے کا قطرہ بھی زمین پر نہ گرنے دیتے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زخمی ہو کر زمین پر رونق افروز ہوئے تو ایک ہیجان پیدا ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر نہیں آ رہے۔ ادھر شیطان نے آواز دی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہوگئے۔ اس آواز نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاؤں اکھیڑ دیئے۔ پاؤں ڈگمگا گئے تو کوئی ادھر دوڑا، کوئی ادھر دوڑا۔ قرآن کی آیت ہے۔

انما استزلهم الشيطن

جب شیطان نے انہیں بہکا دیا۔

مسلمانوں کو احد میں شکست نہیں ہوئی تھی بلکہ فتح حاصل ہوئی تھی۔ اس کے متعلق بہت سی دلیلیں ہیں۔ ان میں سے ایک دلیل یہ ہے جسے شکست ہو وہ میدان چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے اور جو میدان میں کھڑا رہے اس کو شکست خوردہ نہیں کہتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو اسی میدان میں رہے تھے بھاگے تو کافر تھے۔ کوئی فرلانگ ادھر ہوگیا کوئی فرلانگ ادھر ہوگیا۔ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شیطان نعرہ لگا رہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوراً گڑھے سے اٹھے تو آفتاب نبوت کی کرنوں نے میدان کو گھیر لیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نعرے بلند کئے تو کافروں نے تیر پھینکنے شروع کر دیئے۔ تیروں کی بوچھاڑ آقا علیہ السلام امام الانبیاء حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طرف ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سامنے آ کر سینہ تان کر کھڑے ہوگئے کہ تیر مجھے لگے میرے سرکار کو نہ لگے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں سے کافروں کے تیر روکتے ہیں اور کسی تیر سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔

دراصل آقا علیہ السلام امام الانبیاء حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک نگاہ پڑی تو جو تیر آتا ہے تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں سے روک کر کافروں کی طرف پھینکتے ہیں جس سے کافروں میں کھلبلی مچ گئی۔ مشرکین مکہ واصل جہنم ہو رہے ہیں۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی اس بہادری کے منظر کو دیکھا تو زبان نبوت سے ایسا اعزاز، انعام نصیب ہوا جو سوائے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
سعد رضی اللہ عنہ ایک تیر اور پھینک تیرے تیر پھینکنے پر میرے ماں باپ قربان۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک اٹھارہ برس کی تھی خوبرو جوان صحابی ہیں، نئی نئی شادی ہوئی، شادی کی پہلی رات ہے، صبح کا وقت ہوا، غسل کی حالت میں ہیں، کان میں آواز پہنچی، الجہاد، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے کہ جہاد کے لئے تیار ہو جاؤ۔ جب حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نے سنا فوراً سوچ میں پڑ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلا رہے ہیں اب غسل کروں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل کروں۔ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نے دل سے پوچھا کیا کیا جائے غسل کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر پہنچیں۔ فیصلہ یہی کیا کہ جسم کی پلیدی کی طرف مت دیکھو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی طرف دیکھو۔ سب کچھ اللہ کے سپرد۔ وہ سب کچھ جانتا ہے اگر محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم میں تاخیر ہوگئی تو سب کچھ ختم۔ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ فوراً گھر سے نکلے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بغیر غسل کے ہی جا کر لشکر میں شامل ہوگئے۔ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نے میدان احد میں بڑے بہادری کے کارنامے سرانجام دیئے۔ بالآخر حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے۔ ادھر رب تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا میرے محبوب کا غلام آ رہا ہے اس کو دنیا کے پانی سے نہیں حوض کوثر کے پانی سے غسل دو۔

جب غزوہ احد اختتام پذیر ہوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا شہیدوں کی لاشیں اکٹھی کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شہیدوں کی لاشیں اکٹھی کیں لیکن حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کی لاش نہیں ملی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر اٹھی فرمایا : حنظلہ رضی اللہ عنہ کی لاش کو زمین پر تلاش کرنے والو! فرشتے اسے حوض کوثر پر غسل دے رہے ہیں۔ جب حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہم کی لاش زمین پر آئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے دیکھا حضرت حنظلہ کے بالوں سے پانی کے قطرات موتیوں کی طرح ٹپک رہے ہیں۔ اسی واسطے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو غسیل الملائکہ کہا جاتا ہے جن کو فرشتوں نے غسل دیا ہے۔

احد کا واقعہ بڑا نازک اور دلخراش ہے۔ میدان احد میں بڑا نقصان ہوا۔ سب سے پہلا اور بڑا نقصان امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زخمی ہونا۔ دوسرا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت اور تیسرا 70 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوگئے۔ تمام محدثین اور تمام دنیا کے فاتحین نے جب غزوہ احد پر نظر ڈالی کہ یہ نقصان کیوں ہوئے تو یہ راز سامنے آیا کہ امام الانبیاء حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے خطاء اجتہادی کی وجہ سے یہ نقصان ہوا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جان بوجھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم نہیں توڑا۔ اس اجتہادی لغزش پر طعن و ملامت کی گنجائش نہیں بلکہ مجتہدین نے فرمایا اجتہادی خطاء پر بھی ایک درجہ ثواب ملتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم تھا اس درے پر کھڑے رہنا جب تک میں نہ کہوں نیچے نہ اترنا۔ ابتدائی جنگ میں جب دشمن بھاگ گئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خیال تھا کہ جنگ ختم ہو جائے تو نیچے اتر جائیں کوئی خطرہ نہیں یہ سمجھ کر وہ درے سے نیچے اترے اور دشمن نے حملہ کر دیا۔

اس سے ہمیں اطاعت امیر کا سبق ملتا ہے جس میں کامیابی و کامرانی کا راز مضمر ہے۔

پہاڑ احد کی فضیلت۔
جبل احد یہ وہ مقدس پہاڑ ہے جس کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اُحد،یہ ایک شان والا پہاڑ ہے ،جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت کرتے ہیں-صحیح بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے:
«عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّه صلی الله علیه وسلم طَلَعَ لَه أُحُدٌ فَقَالَ : هذَا جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّه»

( صحیح بخاری شریف،کتاب المغازی، باب أحد یحبنا ونحبہ . حدیث نمبر:4084)
امام الانبیاء حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ نے سوال میں احد شریف کی فضیلت سے متعلق جو سوال کیا ہے اس کا ذکر احادیث کریمہ میں موجود ہے کہ احد ایک جنتی پہاڑ ہے،جیساکہ معجم کبیر طبرانی میں حدیث مبارک ہے:
«حَدَّثَنِی کَثِیرُ بن عَبْدِ اللَّه الْمُزَنِیُّ، عَنْ أَبِیه، عَنْ جَدِّہِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّه صَلَّی اللَّه عَلَیْه وَسَلَّمَ:أَرْبَعَة أَجْبَالٍ مِنْ أَجْبَالِ الْجَنَّة،۔۔۔ قِیلَ: فَمَا الأَجْبَالُ؟ قَالَ:أُحُدٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّه، جَبَلٌ مِنْ جِبَالِ الْجَنَّة، وَالطُّورُ جَبَلٌ مِنْ جِبَالِ الْجَنَّة، وَلِبْنَانُ جَبَلٌ مِنْ جِبَالِ الْجَنَّة»

- جامع الاحادیث والمراسیل، الجامع الکبیر للسیوطی اور کنز العمال میں حدیث مبارک ہے: أربعة أجبلٍ من جبالِ الجنة أحدٌ ونَجَبَة وطورٌ ولبنانُ-
ترجمہ:سیدنا عبد اللہ مزنی رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد سے اوروہ آپ کے دادا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:چار پہاڑ جنتی ہیں،عرض کیا گیا وہ کونسے ہیں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا
(1)"احد" جنت کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے ،وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔
(2) "طور"جنت کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے۔
(3) "لبنان" جنت کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے ۔اور
(4)"نَجَبَۃ" جنت کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے-
( معجم کبیر طبرانی، حدیث نمبر.13496:جامع الاحادیث والراسیل، حرف الہمزۃ، الہمزۃ مع الراء ، حدیث نمبر.3101:
الجامع الکبیر للسیوطی، حرف الہمزۃ،ج1،حدیث نمبر.3397:
کنز العمال ،فضل الحرمین والمسجد الأقصی،حدیث نمبر 35121:
۳۳۶۱۔« حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيٰی عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ السَّاعِدِيِّ عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوکَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ وَفِيهِ ثُمَّ أَقْبَلْنَا حَتّٰی قَدِمْنَا وَادِي الْقُرٰی فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي مُسْرِعٌ فَمَنْ شَاءَ مِنْکُمْ فَلْيُسْرِعْ مَعِي وَمَنْ شَاءَ فَلْيَمْکُثْ فَخَرَجْنَا حَتّٰی أَشْرَفْنَا عَلٰی الْمَدِينَةِ فَقَالَ هٰذِهٖ طَابَةُ وَهٰذَا أُحُدٌ وَهُوَ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهٗ » صحیح مسلم۔ جلد:۲/ دوسرا پارہ/ حدیث نمبر:۳۳۶۱/ حدیث مرفوع

۳۳۶۱۔ عبد اللہ بن مسلمہ، سلیمان بن بلال، عمرو بن یحیی، عباس بن سہل ساعدی، حضرت ابوحمید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزورہ تبوک میں نکلے اور باقی حدیث اسی طرح ہے جیسے گزر چکی اور اس حدیث میں ہے کہ پھر جب ہم واپس ہوئے یہاں تک کہ ہم وادی قری میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں جلدی میں ہوں اور تم میں سے جو چاہے تو وہ میرے ساتھ جلد چلے اور جو ٹھہرنا چاہتا ہے تو وہ ٹھہر جائے تو ہم نکلے یہاں تک کہ جب ہم مدینہ کے قریب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ طابہ ہے اور یہ احد ہے اور یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔
۳۳۶۲« حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ قَتَادَةَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أُحُدًا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهٗ » صحیح مسلم۔ جلد:۲/ دوسرا پارہ/ حدیث نمبر:۳۳۶۲/ حدیث متواتر مرفوع

۳۳۶۲۔ عبید اللہ بن معاذ، قرہ بن خالد، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔
۳۳۶۳« و حَدَّثَنِيهِ عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ حَدَّثَنِي حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ حَدَّثَنَا قُرَّةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ نَظَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلٰی أُحُدٍ فَقَالَ إِنَّ أُحُدًا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهٗ »

صحیح مسلم۔ جلد:۲/ دوسرا پارہ/ حدیث نمبر:۳۳۶۳/ حدیث متواتر مرفوع
۳۳۶۳۔ عبید اللہ بن عمر، عمارہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احد پہاڑ کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔
اللہ پاک ہر کمی اور غلطی معاف فرماۓ.آمین
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 459088 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More