سیرت امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم ( حصہ 11)

سیرت امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم ( حصہ 9)
ازقلم..... بابرالیاس
بنو قینقاع کی شکست

غزوہ بنی قَینُقاع، [عربی میں: غزوة بني قينقاع]
یہودیوں کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پہلا غزوہ ہے۔ یہ جنگ یہودی قبیلے بنو قینقاع کے ساتھ لڑی گئی جنہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ عہد شکنی کی تھی اور مذکورہ غزوے کے دوران ان کا محاصرہ کیا گیا اور آخر کار ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئے اور جلا وطن کئے گئے۔

قبیلہ بنی قَینُقاع کا تعارف

بنو قَینُقاع، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں مدینہ کے یہودی قبائل میں سے ایک تھا۔ بعض مؤرخین نے اس قبیلے کے یہودی نژاد ہونے میں شک و شبہہے کا اظہار کیا ہے اور انہیں "عیسو" (ادوم) کی نسل میں قرار دیا ہے، جو یعقوب کا بھائی تھا۔
بنو قینقاع کے نام اور ان کی بہت سی رسموں کی عربوں سے مشابہت کے باوجود، ان کے یہودی نژاد ہونے میں شک و تردد کے لئے کوئی معتبر دلیل نہیں ہے۔ اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ وہ کس وقت مدینہ سے ہجرت کرچکے ہیں۔

مدینہ پر یہودی قبائل کے تسلط کے بعد، ان کی طاقت بنو قیلہ کے عربوں کو منتقل ہوئی چنانچہ یہودیوں کو دوسرے عرب قبائل کے ساتھ معاہدے منعقد کرنا پڑے اور بنی قینقاع نے دوسرے دو یہودی قبائل کے برعکس ـ
جنہوں نے اوس کے ساتھ معاہدے منعقد کئے تھے ـ خزرج کے ساتھ اہم معاہدہ کیا۔ کچھ اہل قلم انہیں اوس کے حلیف سمجھتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ واضح ہے کہ بنو قینقاع اور دوسرے یہودی قبائل (بنو قریظہ اور بنو نضیر) کے درمیان رقابت اور مخالفت پائی جاتی تھی اور ان کے درمیان کئی مرتبہ جنگیں بھی ہوئی تھیں۔

بنو قینقاع مدینہ کے جنوب مغربی حصے میں سکونت پذیر تھے اور ان قلعہ نیز بازار مشہور تھا۔اور یہ بات کہ وہ مدینہ کے مرکز میں مجتمع تھے درست نہیں ہے۔ دوسرے یہودی قبائل کے برعکس، مدینہ میں وہ باغات، نخلستانوں اور زرعی زمینوں کے مالک نہ تھے بلکہ لوہاری، سناری اہم پیشوں میں شمار ہوتی تھی۔

جنگ کے اسباب

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے بعد یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ منعقد کیا اور انہیں اجازت دی کہ مدینہ میں رہیں بشرطیکہ وہ مسلمانوں کے خلاف کسی کی مدد نہ کریں۔ بنو قینقاع پہلا قبیلہ تھا جس نے عہدشکنی کی اور مسلمانوں کے خلاف جنگ و پیکار کا راستہ اپنایا۔

جنگ کے آغاز کے بارے میں منقولہ روایات
اس کے آغاز کے بارے میں مؤرخین کی روایات میں تین نکات دکھائی دیتے ہیں:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم غزوہ بدر کے بعد (رمضان سنہ 2 ہجری میں) مدینہ واپس آئے اور بنو قینقاع کے یہودیوں کو ان کے بازار میں اکٹھا کیا اور ان کو نصیحت کی کہ "قریش کی شکست سے عبرت لیں" اور اسلام قبول کریں؛ یہودیوں نے جواب دیا: "ہم جنگجو لوگ ہیں اور قریش کی مانند شکست قبول نہیں کریں گے"۔
ایک مسلمان خاتون دودھ بیچنے یا زیوارت خریدنے کی غرض سے بنو قینقاع کے بازار میں گئی اور ایک یہودی سنار نے اس کی بےحرمتی کی اور اس کا مذاق اڑایا۔ ایک مسلمان مرد نے اس خاتون کی حمایت کی اور سنار کو ہلاک کردیا اور وہ خود بھی اسی وقت یہودیوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ خبر رسول خدا, پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ملی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جنگ کا انتظام کیا۔
جب سورہ انفال کی آیت 58 رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اتری
( وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاء إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الخَائِنِينَ؛
ترجمہ:
اور اگر آپ کسی جماعت کی خیانت سے فکرمند ہوں تو ان کے عہد و پیمان کو ان کی طرف پھینک دیجئے کہ معاملہ برابر ہو جائے، بلاشبہ اللہ بددیانتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بنو قینقاع کی خیانت سے فکرمندی کا اظہار کرکے ان کے ساتھ جنگ کے لئے نکلے۔
ابن اسحق متذکرہ تینوں اسباب کا الگ الگ تذکرہ کرتا ہے لیکن سورہ انفال کی آیت کے بجائے سورہ آل عمران کی آیت 11 اور 12 کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
واقعی پہلے اور دوسرے نکتوں کو ایک دوسرے سے ہمآہنگ کرکے ذکر کرتا ہے اور ابن سعد صرف تیسرے نکتے کا تذکرہ کرتا ہے۔
طبری پہلے اور تیسرے نکتوں کو ملا کر لکھتا ہے کہ: "یہودیوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعوت مسترد کی تو یہ آیت کریمہ (سورہ انفال کی آیت 58) نازل ہوئی۔
بعض دیگر مآخذ میں غزوہ بدر کے بعد یہودیوں کی سرکشی اور عہدشکنی کی لیکن وہ سرکشی اور بغاوت کے لئے کسی مصداق کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔گمان یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خلاف کچھ اقدامات ہورہے تھے اور احتمال یہ تھا کہ یہودی ان اقدامات کے اصل عناصر کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

وقت جنگ

بعض مآخذ نے شنبہ 15 شوال سنہ 2 ہجری اور اسی سال یکم ذوالقعدہ کو بالترتیب جنگ کا آغاز و انجام قرار دیا ہے۔ایک روایت میں منقول ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بنو قینقاع پر غالب آئے اور مدینہ پلٹ آئے، یہ 10 ذوالحجہ اور عید الاضحی کا دن تھا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پہلی بار لوگوں کے ساتھ نماز عید ادا کی۔

طبری ایک روایت میں ابن اسحق سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غزوہ بدر کے بعد، شوال اور کے ابتدائی ایام کے سوا شوال اور ذوالقعدہ کے باقی ایام مدینہ میں گذارے۔
ایک روایت میں ہے کہ یہ غزوہ صفر المظفر سنہ 3 ہجری کے دوران انجام پایا۔یہاں تک بھی کہا گیا ہے کہ بنو قینقاع اور بنو نضیر کی جلاوطنی بیک وقت انجام کو پہنچی ہے۔ بہر حال روایات کی گوناگونی کی وجہ سے اس جنگ کی صحیح تاریخ کا تعین دشوار ہے۔

جنگ اور اس کا انجام

بنو قینقاع کے یہودی اپنے قلعے مین محصور ہوئے اور مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کیا؛ محاصرہ 15 دن تک جاری رہا اور بعدازاں یہودی ہتھیار ڈال کر باہر آئے اور جلاوطن کئے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ابتداء میں حکم دیا تھا کہ ان کے مردوں کی گردن زنی اور عورتوں اور بچوں کے غلام بنانے کا حکم دیا تھا لیکن بعد میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چشم پوشی کی اور انہیں جلا وطن کرکے شام کی حدود میں واقع "اِذْرَعات" کے علاقے میں روانہ کیا۔

ایک روایت کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بنو قینقاع کو جلاوطن کیا اور ان کے حصار کو منہدم کیا۔ بعض یہودیوں نے اسلام قبول کیا اور مدینہ میں ہی باقی رہے؛ یہاں تک کہ سنہ 9 ہجری میں جب عبداللہ بن اُبیّ کے انتقال کے موقع پر بنو قینقاع کے چند افراد بھی موجود تھے۔ یہ بات کہ عبداللہ بن ابی اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھا،نادرست ہے، کیونکہ ایک روایت کے مطابق وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہجرت مدینہ سے پہلے اور دوسری روایات کے مطابق ہجرت کے کچھ عرصہ بعد، مسلمان ہوچکے تھے۔

احتمال یہ ہے کہ اس جنگ میں سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی کو حکم ملا تھا کہ دوسرے یہودیوں کو اس واقعے میں مداخلت سے باز رکھیں؛
رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سفید پرچم اس جنگ میں حمزہ بن‌عبد المطّلب کے دوش پر تھا۔
ابو لبابہ بن منذر رضی اللہ تعالی رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب سے مدینہ میں جانشین مقرر کئے گئے تھے,منذر بن قدامہ سلمی باغیوں کے ہاتھ باندھنے پر اور محمّد بن مَسلمہ رضی اللہ تعالی ان کے اموال اکٹھے کرنے پر مامور تھے۔

زیادہ تر مآخذ میں بنو قینقاع کے مردوں کی تعداد 700 بیان ہوئی لیکن ان سے حاصلہ مال غنیمت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعداد مبالغہ آمیز ہے لیکن احتمال یہ ہے کہ اس سلسلہ میں کتاب التبیہ والاشراف کے مؤلف کا قول حقیقت سے قریب تر ہوگا جس نے یہ تعداد 400 بتائی ہے۔

بنو قینقاع کی خواتین اور بچوں کو انہیں بخش دیا گیا لیکن ان کے اموال مسلمانوں کے ہورہے۔ واقدی کی روایت جو اس نے ربیع بن سبرہ سے نقل کی ہے، سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو قینقاع اپنے بعض اونٹ بھی خواتین اور بچوں لے جانے کے لئے، ساتھ لے گئے تھے۔ بنو قینقاع کو تین دن کی مہلت دی گئی کہ مدینہ سے نکل کر چلے جائیں اور عبادہ بن صامت انہیں شہر سے نکال باہر کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔

بنو قینقاع کے حلیفوں کا کردار

اس جنگ میں بنی قینقاع کے عرب حلیفوں کا کردار لائق توجہ ہے۔ عبادہ بن صامت اور عبداللہ بن ابی بن سلول خزرج کے اصل راہنما تھے۔ عبادہ سچے مسلمان تھے اور بنو قینقاع کی پیمان شکنی دیکھ کر انھوں نے ان کی حمایت ترک کردی اور رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر بنو قینقاع کے ساتھ اپنے حلف سے بیزاری کا اعلان کیا۔
عبداللّہ بن اُبیّ، منافقین کا سرغنہ تھا اور اس قضيئے میں اس کا کردار دوہرا تھا؛ ایک طرف سے وہ اسی نے بظاہر بنو قینقاع کو قلعہ بند ہونے اور سرکشی کرنے پر اکسایا تھا اور دوسری طرف سے اس نے ان سے جاملنے سے انکار کیا۔
ان کے قید کئے جانے کے بعد عبداللہ بن ابی نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے درخواست کی کہ اس کے حلیفوں کی جان بخشی کریں اور اپنی اس درخواست پر اس قدر اصرار کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس پر بھی اور یہودیوں پر بھی لعنت بھیجی اور ان کی جلاوطنی کا حکم جاری فرمایا۔

مال غنیمت

پیغمبر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غنائم کو اپنے اصحاب رضی اللہ تعالی کے درمیان تقسیم کیا اور پہلی بار مال غنیمت میں سے خمس اٹھایا۔نیز مال غنیمت میں سے "صَفْوُ الغنائم" کے طور پر تین کمانوں، دو زرہوں، تین تلواروں اور تین نیزوں کو منتخب کیا اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالی اور سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی کو دو زرہیں عطا کیں۔

غزوہ بنی قینقاع
بدر کی زبردست لڑائی نے اس علاقہ کے جنگی توازن کو مسلمانوں کے نفع میں بدل دیا۔ اس جنگ کے بعد منافقین اور یہودی مسلمانوں کی اس فتح مبین پر رشک کرنے لگے اس لیے کہ وہ مسلمانوں کی ترقی سے سخت خائف تھے۔ انہوں نے جو معاہدے رسول خدا سے کر رکھے تھے اس کے برخلاف مسلمانوں اور اسلام کو بدگوئی اور دشنام طرازی کا نشانہ بنایا اور مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے قریش کو مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے بھڑکانے لگے۔ ان کے شعراء نے اپنے ہجویہ قصیدے میں مسلمان عورتوں کے وصف کو کفار کے لیے بیان کرکے مسلمانوں کے ناموس کی زبردست اہانت کی۔
رسول خدا, پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ”مفسدین فی الارض“ (زمین پر فساد پھیلانے والوں) کے لیے قتل کا حکم صادر فرمایا اور وہ لوگ قتل کر دیئے گئے۔
(طبقات ابن سعد ج۲ ص ۲۷،۲۸)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بخوبی جانتے تھے کہ یہودی، آئندہ انتقامی جنگ میں مدینہ سے باہر کے دشمنوں کے لیے راستہ ہموار کریں گے اور اسلام پر پس پشت سے خنجر کا وار کریں گے۔ اس لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس مشکل سے بچنے کے لیے راستہ ڈھونڈتے رہے اور سیاسی و دفاعی طاقت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی کوشش فرماتے رہے۔
مدینہ کے یہودیوں میں بنی قینقاع کے یہودیوں نے سب سے بڑھ چڑھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خلاف پروپیگنڈہ کی سرد جنگ چھیڑ رکھی تھی اور انہوں نے توہین آمیز اور ضرر رساں نعرے بلند کرکے عملی طور پر اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان پر حجت تمام کرنے کی غرض سے بازار بنی قینقاع کے بڑے مجمع میں اپنی تقریر میں ان کو نصیحت کی اور اس عمومی معاہدے پر کاربند رہنے کی تاکید فرمائی جو طرفین کے درمیان ہوا تھا اور فرمایا کہ ”قریش کی سرگذشت سے عبرت حاصل کرو اس لیے کہ مجھ کو یہ خوف ہے کہ جس سیلاب بلانے قریش کو اپنی لپیٹ میں لے یا تھا اس سے تم بھی محفوظ نہیں رہ سکو گے۔ لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نصیحتیں یہودیوں کیل یے بے اثر تھیں انہوں نے گستاخانہ انداز میں کہا کہ ”اے محمد آپ نے ہمیں قریش سمجھ رکھا ہے؟ ناتجربہ کاروں سے جنگ میں کامیابی کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم مغرور ہو گئے ہیں (معاذ اللہ) خدا کی قسم! اگر ہم جنگ کے لیے اٹھے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم مرد میدان ہیں یا کوئی اور؟
رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان تمام گستاخیوں اور جسارتوں کے باوجود اپنے غصہ کو پی گئے اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا مسلمانوں نے بھی بردباری سے کام لیا تاکہ وہ دیکھیں کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے؟
ابھی چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ فتنہ کی آگ بھڑک اٹھی۔ ایک مسلمان عورت بنی قینقاع کے بازار میں گئی، کچھ زیورات خریدنے کی غرض سے ایک سنار کی دکان کے سامنے بیٹھ گئی، یہودیوں نے چاہا کہ اس کا چہرہ کھول دیں، لیکن عورت نے انکار کیا، ایک یہودی نے اس عورت کی لاعلمی میں اس کے کپڑے کے کنارہ کو ”آہستہ سے “ اس کی پشت پر باندھ دیا، جب وہ عورت کھڑی ہوئی تو اس کا جسم عریاں ہوگیا تمام یہودی ہنسنے لگے، عورت نے فریاد شروع کی اور مسلمانوں کو مدد کے لیے پکارا ایک مسلمان نے اس یہودی کو جس نے یہ حرکت کی تھی قتل کر ڈالا، یہودیوں نے بھی حملہ کرکے اس مسلمان کو قتل کر ڈالا۔
مسلمان خون کا انتقام لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور بات بڑھ گئی بنی قینقاع کے یہودیوں نے دکانیں بند کردیں اور اپنے قلعوں میں چھپ گئے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ”ابولبابہ رضی اللہ تعالی “ کو اپنی جگہ معین فرمایا، اور انہوں نے لشکر اسلام کے ہمراہ ۱۵ شوال بروز شنبہ سنہ ۲ ہجری (بدر کے ۸ دن بعد) بنی قینقاع کے قلعہ کا محاصرہ کیا۔ یہ محاصرہ پندرہ روز تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ یہودیوں نے تنگ آکر اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالہ کر دیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے منافقین کے لیڈر ”عبداللہ بن ابی“ کے بڑے اصرار اور سماجت کی وجہ سے ان کے قتل سے درگذر کیا اور ان کو شام کے مقام ”اذراعات“ میں شہر بدر کر دیا، ان کے اموال کو مسلمانوں کے لیے مالِ غنیمت قرار دیا اور خمس نکالنے کے بعد مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیا۔
اللہ پاک کمی معاف فرماۓ....
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 465069 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More