بنو نضیر کی شکست
قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں وضاحت
بنو نضیر ، یہود کا بہت بڑا قبیلہ تھا جو مسجد قباکے قریب عوالی کی طرف
آباد تھا ۔ غزوہ احد کے بعد یہ لوگ علی الاعلان مسلمانوں کی مخالفت کرنے
لگے تھے اور انہوں نے آنحضرت سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
کیا ہوا وہ معاہدہ توڑ دیا ، جو آنحضرت سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ہجرت کے بعد ان سے کیا تھا یہود کے دو قبائل بنو نضیر اور بنو
قریظہ مدینہ سے دو میل باہر نسبتاً کم درجے کی زمین پر رہائش پذیر تھے۔
لیکن وہاں انھوں نے باغات بھی بسا لیے تھے اور اپنے لیے نہایت محفوظ قلعے
اور گڑھیاں بھی بنا لی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ حجاز کے غلے کی درآمد اور
چھوہاروں کی برآمد اپنے قبضے میں لے لی تھی۔ مرغ بانی اور ماہی گیری پر بھی
زیادہ تر انھیں کا قبضہ تھا۔ قبیلہ بنو نضیر نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم معاہدے کی کچھ شرائط پر عمل کرانے کے لئے ان کے پاس تشریف لے گئے
تو ان لوگوں نے یہ سازش کی کہ جب آنحضرت سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم بات چیت کرنے کے لئے بیٹھیں تو ایک شخص اوپر سے آنحضرت سرور
کائنات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک چٹان گرادے، اللہ تعالیٰ نے
وحی کے ذریعے آنحضرت سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی اس
سازش سے باخبر فرمادیا، اور آنحضرت سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم وہاں سے اٹھ کر چلے آئے، اس واقعے کے بعد آنحضرت سرور کائنات محمد صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو نضیر کے پاس پیغام بھیجا کہ اب آپ لوگوں کے
ساتھ ہمارا معاہدہ ختم ہوگیا ہے، اور ہم آپ کے لئے ایک مدت مقرر کرتے ہیں
کہ اس مدت کے اندر اندر آپ مدینہ منورہ چھوڑ کر کہیں چلے جائیں، ورنہ
مسلمان آپ پر حملہ کرنے کے لئے آزاد ہوں گے، کچھ منافقین نے بنو نضیر کو
جاکر یقین دلایا کہ آپ لوگ ڈٹے رہیں، اگر مسلمانوں نے حملہ کیا تو ہم آپ کا
ساتھ دیں گے ؛ چنانچہ بنو نضیر مقررہ مدت میں مدینہ منورہ سے نہیں گئے،
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدت گزرنے کے بعد ان کے قلعے کا محاصرہ کرلیا
اور منافقین نے ان کی کوئی مدد نہیں کی، آخر کار ان لوگوں نے ہتھیا ڈال
دئیے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مدینہ منورہ سے جلاوطن
کرنے کا حکم دیا، البتہ یہ اجازت دی کہ ہتھیاروں کے سوا وہ اپنا سارا مال
ودولت اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں۔
محاصرہ کے دوران ان کے باغات وکھیتوں کو کاٹا اور جلایا بھی گیا اس طرح اس
قوم بنو نضیر کو پہلی مرتبہ جلاوطن کیا گیا اور اریحاء وتیما شام کے علاقوں
میں جا کر بسے اور کچھ یہودی جیسے ابو الحقیق اور حی بن اخطب خیبر چلے گئے
اور یہ زمین وباغات ومہاجرین وانصار کو تقسیم کیے گئے.
حوالہ جات
↑ تفسیر فوائد القران۔ مرتب عبدالقیوم مہاجر مدنی،سورۃ الحشر
↑ تفسیر معارف القرآن ،ادریس کاندہلوی، سورۃ الحشر
(مزید وضاحت درج ﺫیل ھے)
غزوہ بنی نضیر، [عربی میں: غزوة بني نضير] مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ آنحضرت
سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوات میں سے ایک ہے۔ یہ غزوہ
غزوی بنی قینقاع کے بعد یہودیوں کے ساتھ آپ آنحضرت سرور کائنات محمد صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوسرا غزوہ ہے جو ہجرت کے چوتھے سال کو انجام
پایا۔[
بنو نضیر بنو قینقاع اور بنو قریظہ سمیت مدینہ میں رہائش پذیر دوسرے یہودی
قبائل آنحضرت سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیفوں میں شمار
ہوتے تھے اور ان تینوں قبائل نے پیمان شکنی کی۔ یہ جنگ مسلمانوں کی فتح اور
بنو نضیر کی مدینہ بدری پر منتج ہوئی۔
مدینہ میں بنونضیر کی سکونت کی تاریخ
قبیلۂ بنو نضیر نے ظہور اسلام سے قبل یثرب میں سکونت اختیار کی۔ ان کے اصل
آبائی علاقے کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ یعقوبی کا کہنا ہے کہ یہ قبیلہ،
قبیلۂ جُذام کی ایک شاخ تھا جس نے بعد میں دین یہود اختیار کیا اور کوہ
نضیر میں رہائش پذیر ہوا اور بعدازاں اسی پہاڑ کے نام سے موسوم ہوا۔
ایک روایت یہ ہے کہ وہ ہارون بن عمران کی اولاد میں سے ہیں جو موسی علیہ
السلام کی وفات اور "سیل عَرِم" نامی سیلاب کے نتیجے میں اوس اور خزرج کے
عرب نژاد لوگوں کی وہاں آمد کے بعد اس علاقے میں سکونت پذیر ہوئے تھے۔
اس قسم کی روایات کے مطابق سنہ 70 عیسوی میں یہودیوں کے ساتھ رومیوں کی جنگ
کے بعد بنو نضیر بھی دوسرے یہودی قبائل کی مانند فرار ہوکر حجاز میں مدینہ
کے نواحی علاقے بُطْحان میں آبسے تھے۔
ابن سعد کا کہنا ہے کہ ان کے مقام رہائش "الغَرْس" کا علاقہ تھا۔بنو نضیر
اور مدینہ میں رہائش پذیر دوسرے یہودیوں نے بےپناہ دولت سمیٹ لی۔
چنانچہ اوس و خزرج نے یہودیوں پر غلبہ پانے کے لئے غسانیوں سے مدد طلب کی۔
غسانی حجاز میں آئے اور یہودیوں میں سے بڑی تعداد کو قتل کیا اور اس کے بعد
اوس و خزرج یہودیوں پر مسلط ہوئے۔بعد کے زمانوں میں اوس و خزرج کے درمیان
ہونے والی کشمکش میں بنو نضیر اوس کی حمایت کرتے تھے۔
بنو نضیر کی عہد شکنی
ظہور اسلام کے قریب اور جنگ احد سے قبل، بظاہر قبیلۂ بنو نضیر کے ابو سفیان
کے ساتھ مراسم تھے۔ ہجرت کے بعد بنو نضیر نے بھی دوسرے یہودیوں کی مانند
مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلی اور عہد کیا کہ اگر مدینہ پر کسی نے حملہ کیا تو
وہ مسلمانوں کے شانہ بشانہ دفاع کریں گے؛ کفار قریش کو کسی قسم کی مالی یا
جانی مدد فراہم نہیں کریں گے اور قریش کے ساتھ تجارتی تعلقات برقرار کرنے
سے اجتناب کریں گے۔ لیکن چونکہ بنو نضیر نے اپنا عہد و پیمان پامال کرکے
رکھ دیا، ماہ ربیع الاول سنہ 4 ہجری میں غزوہ بنی نضیر انجام کو پہنچا۔
اسی سال عمرو بن امیہ نے ـ جو بئر معونہ سے لوٹ رہا تھا ـ بنو عامر نامی
قبیلے کے دو افراد کو قتل کیا۔ ان افراد کو آنحضرت سرور کائنات محمد صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امان دی تھی۔
عامر بن طفیل نے آنحضرت سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دیت
کا مطالبہ کیا, اور آنحضرت سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
دیت کی ادائیگی کے لئے بنو نضیر سے مدد مانگی جو بنو عامر کے حلیف تھے۔
بنو نضیر نے آنحضرت سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کی
حامی بھری لیکن آنحضرت سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کی
سازش بھی تیار کی اور عمر بن جحاش نامی شخص کو مامور کیا کہ دیوار قلعہ کے
پاس اوپر سے پتھر پھینک کر آنحضرت سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کو قتل کردے۔
منافقین کی سرگرمیاں
منافقین کے سرغنے عبداللہ بن اُبَی، نے بنو نضیر کو رسول خدا صلی اللہ علیہ
والہ وسلم کی اطاعت سے باز رکھا اور وعدہ کیا کہ وہ بنو قریظہ کو بھی ساتھ
ملائے گا اور ان کا دفاع کرے گا۔
جنگ کا آغاز
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مکتوم رضی اللہ کو مدینہ میں
اپنا جانشین قرار دیا اور حضرت علی رضی اللہ کی قیادت میں مسلمانوں کا ایک
لشکر لے کر پندرہ دن تک یا چھ راتوں تک بنو نضیر کا محاصرہ کرلیا۔ محاصرے
کے دوران غزوک نامی یہودی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قتل کی
ناکام کوشش کی جو حضرت علی رضی اللہ تعالی کے ہاتھوں مارا گیا۔ بعدازاں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حکم دیا کہ بویرہ کے علاقے میں
بنو نضیر کے کھجوروں کو کاٹ دیا جائے۔
جنگ کا انجام
آخر کار بنو نضير کے یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور آمادہ ہوئے کہ صرف ایک
اونٹ کے بوجھ کے برابر کا سازوسامان ـ جو سونے، چاندی اور ہتھیاروں پر
مشتمل نہ ہوگا ـ کو لے کر مدینہ سے چلے جائیں۔ان میں سے بعض افراد خیبر چلے
گئے جن میں حُیی بن اَخطب ـ جس کی بیٹی صفیہ سنہ 7 ہجری میں غزوہ خیبر کے
بعد آپ(ص) کی زوجیت میں آئیں ـ اور صفیہ کا پہلا شوہر "ابو الحقیق" شامل
تھے اور بعض شام چلے گئے۔
مال غنیمت کی تقسیم
اس غزوے میں چونکہ کوئی جنگ نہیں ہوئی چنانچہ بنو نضیر سے باقیماندہ اموال
پر مال غنیمت کا حکم جاری نہیں ہوتا تھا بلکہ سارے اموال رسول خدا صلی اللہ
علیہ والہ وسلم کے تصرف میں تھے۔
قرآن کریم کی درج ذیل آیات کریمہ غزوہ بنی نضیر اور اس قبیلے کی مدینہ بدری
کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں:
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمـَنِ الرَّحِيمِ
سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَهُوَ
الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (1) هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ
أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ مَا ظَنَنتُمْ أَن
يَخْرُجُوا وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّهِ
فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا وَقَذَفَ فِي
قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي
الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ (2) وَلَوْلَا أَن
كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَاء لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا
وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابُ النَّارِ (3) ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا
اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَمَن يُشَاقِّ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ
الْعِقَابِ (4) مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً
عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ (5) وَمَا
أَفَاء اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ
خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَن
يَشَاء وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (6) مَّا أَفَاء اللَّهُ
عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي
الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا
يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاء مِنكُمْ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ
فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ
اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (7) لِلْفُقَرَاء الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ
أُخْرِجُوا مِن دِيارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ
اللَّهِ وَرِضْوَاناً وَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَئِكَ هُمُ
الصَّادِقُونَ (8) وَالَّذِينَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن
قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي
صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ
وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ
هُمُ الْمُفْلِحُونَ (9) وَالَّذِينَ جَاؤُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا
بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِينَ آمَنُوا
رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ (10) أَلَمْ تَر إِلَى الَّذِينَ
نَافَقُوا يَقُولُونَ لِإِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ
الْكِتَابِ لَئِنْ أُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيعُ
فِيكُمْ أَحَداً أَبَداً وَإِن قُوتِلْتُمْ لَنَنصُرَنَّكُمْ وَاللَّهُ
يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (11) لَئِنْ أُخْرِجُوا لَا يَخْرُجُونَ
مَعَهُمْ وَلَئِن قُوتِلُوا لَا يَنصُرُونَهُمْ وَلَئِن نَّصَرُوهُمْ
لَيُوَلُّنَّ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنصَرُونَ (12) لَأَنتُمْ أَشَدُّ
رَهْبَةً فِي صُدُورِهِم مِّنَ اللَّهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا
يَفْقَهُونَ (13) لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعاً إِلَّا فِي قُرًى
مُّحَصَّنَةٍ أَوْ مِن وَرَاء جُدُرٍ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ
تَحْسَبُهُمْ جَمِيعاً وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ
لَّا يَعْقِلُونَ (14) كَمَثَلِ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَرِيباً ذَاقُوا
وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (15) كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ
إِذْ قَالَ لِلْإِنسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ
مِّنكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ (16) فَكَانَ
عَاقِبَتَهُمَا أَنَّهُمَا فِي النَّارِ خَالِدَيْنِ فِيهَا وَذَلِكَ
جَزَاء الظَّالِمِينَ (17)۔
ترجمہ:
سہارا اللہ کے نام کا جو سب کو فیض پہنچانے والا بڑا مہربان ہے
تسبیح خوان ہے اللہ کے لئے جو چیز بھی ہے آسمان میں اور جو زمین میں ہے اور
وہ غالب آنے والا، صحیح کام کرنے والا ہے (1) وہ، وہ ہے جس نے اہل کتاب میں
سے ان کو جنہوں نے کفر اختیار کیا نکالا ان کے گھروں سے پہلے حشر میں، تم
لوگوں کو تو گمان بھی نہیں تھا کہ وہ نکلیں گے اور ان کا گمان یہ تھا کہ ان
کے قلعے انہیں اللہ سے محفوظ رکھیں گے تو اللہ ان کی طرف آیا ایسی راہ سے
جہاں کا انہیں خیال نہیں تھا اور ان کے دلوں میں اس نے رعب ڈال دیا کہ وہ
اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں سے مسمار کر رہے تھے اور ایمان والوں کے ہاتھوں
سے، تو اے نگاہ والو عبرت حاصل کرو (2) اور اگر اللہ یہ جلاوطنی کا فیصلہ
ان کے لئے نہ کرتا تو یہیں اس دنیامیں انہیں سزا دیتا اور ان کے لئے آخرت
میں تو عذاب ہے ہی (3) یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے پیغمبر کی
مخالفت کی اور جو اللہ کی مخالفت کرے گا تو یقینا اللہ سخت سزا دینے والا
ہے (4) طرح طرح کے کھجور کے درختوں میں سے جو تم نے قطع کیا یا جنہیں ان کی
جڑوں پر چھوڑ دیا وہ اللہ کی اجازت سے ہے اور وہ اس لئے کہ وہ ان بداعمالوں
کی رسوائی نمایاں کرے (5) اور جو (مال) اللہ نے اپنے رسول کی طرف ان سے
(نکال کر) پہنچایا تو تم لوگوں نے اس پر کوئی اونٹ گھوڑے تو دوڑائے نہیں
ہیں مگر اللہ کی قدرت ہے کہ وہ اپنے پیغمبروں کو قابو دیدیتا ہے جس پر
چاہتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے (6) تو اللہ نے اپنے پیغمبر کو
پہنچایا ان بستیوں کے باشندوں سے تو وہ بس اللہ کا ہے اور پیغمبر کا ہے اور
صاحبان قرابت اور یتیموں اور مسکینوں اور پردیسی کا ہے تا کہ وہ ایسی دولت
نہ ہو جو دست بدست گردش کرتی رہے ان لوگوں میں جو تم میں سے صاحب دولت ہیں
اور جو رسول عطا کریں اسے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز آؤ اور اللہ سے
ڈرو یقینا اللہ سخت سزا والا ہے (7) ان غریبوں کے لئے جو ہجرت کر کے آئے
ہیں، جو اپنے گھربار اور مال ودولت سے نکلنے پر مجبور ہوئے طلبگار ہوتے
ہوئے اللہ کے فضل وکرم اور خوشنودی کے اور اس کے پیغمبرکی مدد کرتے ہوئے،
یہ سچے لوگ ہیں (8) اور وہ جو پہلے سے اس دیار میں قیام کئے ہوئے تھے اور
ان کے (آنے سے) پہلے ایمان لائے تھے، وہ محبت رکھتے ہیں ان سے جو ہجرت کر
کے ان کی طرف آتے ہیں اور وہ اپنی بستیوں کے اندر رشک وحسد محسوس نہیں کرتے
اس سے جو انہیں دیا گیا ہے اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں چاہے وہ
ضرورت مند ہوں اور جو اپنی نفسانی تنگدستی سے بچا رہے تو یہی لوگ دین ودنیا
کی بہتری حاصل کرنے والے ہیں (9) اور جو ان کے بعد آئے کہتے ہیں کہ
پروردگار! اپنی مغفرت شامل حال فرما، ہمارے لئے اور ہمارے ان بھائیوں کے
جنہوں نے ایمان میں ہم پر سبقت کی اور ہمارے دل میں کینہ وعداوت نہ آنے دے
ان سے جو ایمان لائے ہیں۔ اے ہمارے مالک! یقینا تو بخشنے والا ہے، بڑا
مہربان (10) کیا تم نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو منافق ہیں کہ وہ اپنے
بھائی بندوں سے جو منکر اسلام ہیں اہل کتاب میں سے کہتے ہیں کہ اگر تم
جلاوطن کئے گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ شہر سے نکل جائیں گے اور تمہارے بارے
میں کبھی کسی دوسرے کا کہنا نہیں مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم
تمہاری مدد کریں گے اور اللہ گواہ ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں (11) اگر وہ
نکالے گئے تو یہ ان کے ساتھ نکلیں گے نہیں اور اگر ان سے جنگ کی گئی تو یہ
ان کی مدد نہیں کریں گے اور اگر مدد کریں بھی تو پیٹھ پھرائیں گے اور پھر
ان کی کوئی مدد نہیں ہو گی (12) یقینا تم لوگوں کا خوف ان کے دلوں میں اللہ
سے زیادہ ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں (13) یہ سب
مل کر کبھی تم سے جنگ نہیں کریں گے مگر ایسی بستیوں میں جو قلعہ بند ہوں یا
دیواروں کے پیچھے سے، ان کا اختلاف خود آپس میں بہت سخت ہے۔ تم انہیں سب
اکٹھا دیکھتے ہو، حالانکہ کہ دل ان کے الگ الگ ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ وہ عقل
سے کام نہیں لیتے (14) جیسے وہ جو ان کے پہلے تھے، ابھی ماضی قریب میں
انہوں نے اپنے کرتوتوں کا خمیازہ بھگتا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے (15)
جیسے شیطان ،اس نے آدمی سے کہا کہ کافر ہو جا اور جب وہ کافر ہو گیا تو کہا
میں تجھ سے بے تعلق ہوں۔ میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا
پروردگار ہے (16) تو ان دونوں کا انجام یہ ہوا کہ وہ آگ میں ہیں، ہمیشہ
ہمیشہ اس میں رہیں گے اور یہ سزا ہے ظالم لوگوں کی(17)[41].
اللہ پاک کمی معاف فرماۓ.آمین
|