ہے جرم ضعیفی کی سزا

کراچی سے سرفراز شاہ کا بھائی بات کر رہا تھا ۔وہی سرفراز شاہ جسے رینجر کے اہلکاروں نے بےنظیر پارک کے باہر قتل کر دیا۔ جس کے ہاتھ میں اس وقت کسی قسم کا اسلحہ نہ تھا۔جو نہتا تھا۔جو ہاتھ جوڑ کر زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا ۔جس سے اس وقت رینجر کے ان اہلکاروں کو ئی خطرہ نہ تھا ۔جوقانون نافذ کرنے والے محافظوں سے کسی قسم کا مقابلہ نہ کر رہا تھا ۔ اسی سرفراز شاہ کا بھائی اس سانحہ کے بعد اپنے اور اپنے گھر والوں کے جذبات سے آگاہ کر رہا تھا ۔ سرفراز شاہ کا بھائی سالک ایک نجی چینل کا رپورٹر ہے ۔اس کا کہنا تھا کہ ہمیں انصاف چاہیے۔اس کے والد کو آکسیجن لگی ہوئی ہے ، فون کال کے وقت والدہ ایک مرتبہ پھرغم کی شدت سے بے ہوش ہو چکی تھیں ۔جب ان سے پوچھا کہ والدہ کی طبیعت کیسی ہے تو ان کے الفاظ تھے ”ابھی زندہ ہیں “ ۔اس ابھی زندہ ہیں کے پیچھے جو دکھ، درد اور بے بسی کی داستان چھپی تھی اسے محسوس کر کے میری آنکھیں نم ہو گئیں ۔سرفراز کے بھائی سالک کا کہنا تھا کہ ہم انصاف کی تلاش میں ہیں لیکن ہمارے ساتھ یہ انصاف ہو رہا ہے کہ میرے بھائی کے خلاف ابھی بھی تھانے میں پولیس مقابلہ اور ڈکیتی کی رپورٹ درج ہے ۔کیا یہ انصاف ہے ؟اگر یہ انصاف نہیں تو پھر میرے بھائی کے خلاف ابھی تک یہ مقدمے کیوں درج ہیں ؟ سرفراز کے بارے میں سالک نے کہا کہ وہ ابو سے بہت اٹیچ تھا ابھی بھی اکثر ابو کے پاس لیٹ جاتا تھا کہ میں نے ابو کے پاس سونا ہے ۔سالک یہ بھی کہہ رہا تھا کہ مجھے نہیں معلوم ہمیں انصاف ملے گا بھی یا نہیں ؟ اور ملے گا تو پھر کون دے گا؟ اسے یہ بھی خوف تھا کہ اس کے بھائی کے قاتلوں کو بچا لیا جائے گا ۔

یہ خاندان جس اذیت سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔چینلز ہر روز سرفراز کے آخری لمحات کی ویڈیو چلا رہے ہیں ۔اس ماں کے غم کا اندازہ کریں جس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس کے بیٹے کو کس طرح گولیاں ماری گئیں ؟اس بھائی کی اذیت کا اندازہ لگائیں جس نے دیکھا کہ اس کا بھائی کس طرح گڑگڑا کر زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا ، سن سکیں تو اس بہن کی چیخوں کو سنیں جس نے دیکھا کہ کس طرح اس کا جوان بھائی گولیاں کھانے کے بعد تڑپ رہا تھا ، ذرا سوچیں کہ اس باپ کی حالت کیا ہو گی جس کے بیٹے کا لہو پانی کی طرح سڑک پر بہہ رہا تھا اور کوئی اسے اٹھانے والا نہ تھا ۔ یہ سب اس گھر کے پاس ہوا جہاں یہ رہتے تھے ۔ سالک کا کہنا تھا کہ اگر کوئی نارمل موت ہو تو شایدلواحقین کو قرار آجاتا ہو لیکن جس طرح میرے بھائی کو مارا گیا اس کا سوچ کر اور ان لمحات کا سوچ کر کیسے قرار آ سکتا ہے میرے خیال میں ہو سکتا ہے سالک کا بھائی چور ہو ، ہو سکتا ہے وہ ڈاکو ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ وہ واقعی پارک میں کسی سے کچھ چھینتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہو ، ہو سکتا ہے اسے یہ مان ہو کہ اس کے بھائی کاتعلق میڈیا سے ہے اس لیے کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ، یہ سب ممکن ہے لیکن پھر بھی کیا اسے اس طرح مار دینا درست تھا؟ کیا وہ رینجر یا پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کر رہا تھا؟ جب اسے پکڑ کر لایا گیا تو کیا اس کے ہاتھ میں اسلحہ تھا؟ کیا اس نے کسی پر گولی چلائی؟ کیا اسے سرنڈر کرنے کا کہا گیا اور اس نے انکار کردیا؟جو شواہد سامنے ہیں اور جو ویڈیو سامنے آئی اس میں وہ نہتا تھا ، اپنی زندگی کے بھیک مانگ رہا تھا ۔ویڈیو کے مطابق جب اسے رینجر کے اہلکاروں کے سامنے پھینکا گیا تب رینجر کے ان اہلکاروں کو بھی اصل صورت حال کا علم نہیں تھا وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے اور کچھ اہلکار تھوڑی دور سے بھاگتے ہوئے آئے اور آتے ہی اس پر گن تان لی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب وردی اور بغیر وردی کا فرق ختم ہو گیا ۔ وہی اسلحہ دہشت گرد بھی استعمال کرتے ہیں اور وہی اسلحہ محافظوں کے پاس بھی ہوتا ہے ۔فرق صرف وردی کا ہوتا ہے ۔ فرق لائن آف ایکشن کا ہوتا ہے ، ۔فرق اصول کا ہوتا ہے ، اور فرق دائرہ کار کا ہوتا ہے ۔یہی فرق ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ اسلحہ سے لیس دو افراد میں دہشت گرد کون ہے اور محافظ کون ہے لیکن جب یہ فرق ہی مٹا دیا جائے تو کیا ہو؟ پہلے کہا جاتا تھا کہ کسی مجرم کے بارے میں کوئی اطلاع ملے یا کوئی مجرم پکڑیں تواسے قانون کے محافظوں کے حوالے کر دیں ۔اب ہم مجرم پکڑیں تو کس کے حوالے کریں ؟ اب کوئی اطلاع دینی ہو تو کسے دیں ؟ کس کا ضمیر گوارا کرے گا کہ وہ ماورائے عدالت کسی قتل میں حصہ دار بنے؟ سول سوسائٹی ایک عرصہ عدلیہ کی بحالی کے لیے ماریں کھاتی رہی؟ کیا وہ تحریک کسی فرد واحد کی بحالی کی تحریک تھی؟اس کا جواب بہت جلد سامنے آجائے گا اسی وقت جب عوام کو یہ علم ہو گا کہ سرفراز کے بھائی کو انصاف ملا یا نہیں ؟

ہم ایک خطرناک صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں ۔پاک فوج ، رینجراور پولیس کے اہلکار گذشتہ کئی سالوں سے پاک وطن کے لیے قربانیاں دیتے آرہے ہیں ۔سکیورٹی فورسسز کے ہزاروں شہدا ہمارے سامنے ہیں ۔پاک فوج اور سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف کچھ عرصہ سے منفی پروپگنڈا چل رہا ہے جسے اس سانحہ سے تقویت ملے گی ۔جرم چند بھیڑیوں کا ہے جنہیں اہلکار کہنا شاید پاک آرمی اور سکیورٹی فورسسز کی توہین ہو کیونکہ ”اہلکار “ بھیڑیا نہیں ہو سکتا ۔پاک آرمی پاکستانیوں کی قاتل ہرگز نہیں ہو سکتی ۔ پاک فوج اور رینجر نے ہر موقع پر اس وطن کے لیے قربانیاں دیں ہیں ۔مجھے امید ہے کہ اب بھی آرمی چیف اور ڈی جی رینجر ان قاتلوں کے خلاف محکمانہ کارروائی عمل میں لاتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف ہونے والی کاروائی کو عوام کے سامنے لائیں گے تاکہ پاک آرمی اور رینجر کا مورال بلند ہو سکے ۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ان قاتلوں کو عدالتی کاروائی میں پاک آرمی اور رینجر سمیت کسی بھی سرکاری ادارے کی سرپرستی حاصل نہیں ہو گی ۔

جرم کوئی بھی ہو ، مجرم قاتل ہی کیوں نہ ہو ، اس کی سزا کا فیصلہ عدالت کا کام ہے ، ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مائینڈ سیٹ کو بدلا جائے جس کی بنا پر لوگ قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں ۔ اسی کراچی میں لوگوں نے ڈاکوﺅں کو زندہ جلا دیا تھا، سیالکوٹ کے دو بھائیوں کو جس طرح مارا گیا اس کا ہم سب کو علم ہے ۔یہ کسی ایک صوبہ یا کسی ایک شہر کی بات نہیں یہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے ، آخر کیوں لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ مجرم کو پکڑتے ہی سزا دے دی جائے اور سزا بھی صرف ایک۔۔۔سزائے موت!!! آخر کیوں عدالتوں سے انصاف کی توقع نہیں کی جاتی ؟ آخر کیوں یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ مجرم عدالت میں گئے تو رہا ہو جائیں گے؟ آخر کیوں پولیس اہلکاروں پر اعتبار نہیں کیا جاتا؟ خود فیصلہ کرنے اور خود ہی سزا دینے کا رحجان کیوں پیدا ہوتا جا رہا ہے ؟ سوچنا یہ ہے کہ کوتاہی کہاں پر ہوئی ہے؟ سسٹم کی خرابی کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ہر بار نگاہ عدلیہ کی طرف اٹھتی ہے ؟ پولیس والے اگر با اختیار مجرم کو تھانے لیجانے کی بجائے گھر چھوڑنے چلے جاتے ہیں تو انہیں ایسی سزا کیوں نہیں مل پاتی کہ آئیندہ کوئی ایسا سوچنے کی بھی جرات نہ کر سکے؟ اگر خود سزا دینے کا یہ رحجان یوں ہی بڑھتا رہا تو کل ہر سرفراز اسی طرح بیچ چوراہے پر مار دیا جائے گا ، یہ گھڑی محشر کی گھڑی ہے ، فیصلہ کا وقت یہی ہے ۔ کوئی ایسی سزا جو اس طرف آنے والوں کا راستہ روک سکے ۔کوئی ایسا فیصلہ جو عوام کا اعتماد بحال کر سکے ۔ اگر سرفراز مجرم تھا تو اس پر وہ دفعات بھی لگائی جائیں ، اس کا جرم ثابت ہو تواس کا فیصلہ کرتے ہوئے سزا بھی سنا دی جائے ، اس کا کوئی جرم ثابت ہو جاتا ہے تو اسے علامتی سزا بھی دی جا سکتی ہے لیکن اگر اس طرح اس کا قتل جرم تھا تو پھر اس کے قاتلوں کو بھی ایسی سزا دی جائے جواداروں اور محافظوں پر عوام کا اعتماد بحال کر سکے ۔ورنہ اگر فیصلہ اسی طرح بیچ چوراہے میں کیا جانا ہے تو پھر عدالتیں بند کر دیجئے ،کیوں کہ جج اور عدلیہ کی موجودگی میں ایسا کرنا اس مقدس ادارے کی توہین ہو گی !
Syed Badar Saeed
About the Author: Syed Badar Saeed Read More Articles by Syed Badar Saeed: 49 Articles with 50036 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.