مہر جمالی کا شعری سفر’محبت کا سفر‘

تقریظ:
مہر جمالی کا شعری سفر’محبت کا سفر‘
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
شہر کراچی میں شاعرات تعداد اور معیاری شاعری کے حوالے سے بڑی تعداد موجود ہے۔ عالمی وبا کورونا کے باوجود آن لائن مشاعرے بڑی تعدادمیں منقعد ہورہے ہیں۔ اس سے قبل متعدد ادبی تنظیموں کی جانب سے مشاعروں کے انعقاد کا سلسلہ جاری تھا۔ امید ہے جیسے ہی اس وبا سے نجات ملے گی، شعر و شاعری کے محفلیں ویسے ہی سجا کریں گی۔ مہر جمالی لمحہ عصر حاضر کی ایک ایسی شاعرہ ہے جو کراچی کے ادبی افق پر جگ مگ کرتے ستارے کی مانند شاعر ی کے جوہر دکھارہی ہیں۔ وہ کراچی کی ادبی تقریبات میں موجود رہتے ہوے اپنے خوبصورت کلام سے سامعین کو محظوظ بھی کرتی ہیں۔مہر ایک شاعرہ اور ایک نفیس خاتون کے طور پر ادبی حلقوں میں پسند کی جاتی ہیں۔ان کی شاعری اخبارات اور رسائل و جرائد کے علاوہ فیس بک اور دیگر ویب سائٹس پر زیادہ پڑھنے کو ملتی ہے۔’محبت کا سفر‘ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے اس لیے بھی یہ بات قابل قدر ہے۔ مہر جمالی کا شعری سفر شعری مجموعہ کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ گویا وہ اس شعری مجموعے کی اشاعت کے بعد صاحب دیوان شاعرہ کہلانے کی بجا طور پر مستحق ہونگی۔
مہر جمالی نے شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ انہوں نے حمد کہی، خاتم الانبیا حضرت محمد ﷺ کی شان میں نعت کہی، منقبت، غزل، نظم اور قطعات بھی کہیے۔حمد باری تعالیٰ کا ایک شعر۔
جن کی سمجھ میں آنہ سکی تیری پاک ذات
ان کے لبو ں پہ آج بھی کتنے سوال ہیں
نعت ِ رسول مقبول ﷺ بھی کہیں۔ ان کی کہی ہوی ایک نعت کا شعر کچھ اس طرح ہے۔
کرلے قبول میری دعا ئیں بھی اب خدا
لے جا مجھ کو اشک بہانے نبی ﷺ کے پاس
شعری مجموعے ”،،محبت کا سفر“ کی شاعری سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ تخلیقی شاعرانہ مزاج کی مالک ہیں۔ شاعری میں تخلیقی اظہار لازمی امر ہے اور مہر جمالی کی شاعری تخلیقی بیانیہ پایا جاتاہے۔ اشعار میں خوبصورت الفاظ کا استعمال ہے۔وہ غزل کی شاعرہ ہیں، غزل کے بارے میں ان کا ایک شعر دیکھئے۔
غزل کا شوق ہے اور بے حساب کہتی ہوں
یہ میرا عشق ہے اور کچھ حساب تھوڑی ہے
مہر جمالی کے شعری مجموعہ میں شامل ان کی غزلیں، نظمیں اور قطعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ شعر کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں، ایک غزل’سنو لوٹ جاؤ‘ کے چند اشعار۔
بہت دور تک ساتھ دینا پرے گا
اگر چل سکو تو میرا ہاتھ تھامو
یہ رستہ کٹھن ہے بہت سوچ لو تم
یہاں سب انا کے بچاری ہیں دیکھو
شاعری کی اساس سچائی اور سہل پسندی ہے، مہر کی شاعری اس کی سچا ئی کی گواہی دیتی ہے۔دیکھئے مہر کی اس غزل میں سہل پسندی کا انداز۔
بھیگی ہوئی یہ خاک بھی سفاک چاہیے
گوزہ گرو اُدھار ذرا چاک چاہیے
یہ کار عشق ہے ترے بس کا نہیں ہے یہ
اس کام کے لیے کوئی چالاک چاہیے
ایسا لکھو کہ روح میں اترے ہر ایک لفظ
مضمون ِ زندگی ذرا بے باک چاہیے
کیا آپ کو بھی دشت میں رہنا ہے عمر بھر
کیا آپ کو بھی قیس کی املاک چاہیے
مہر کی شاعری میں خوشی و مسرت کے جذبات کا بخوبی احساس کیا جاسکتا ہے۔ وہ وطن سے محبت کا اظہار اس طرح کرتی ہیں۔
واردوں تجھ پہ یہ زندگانی وطن
تیری مٹی ہے کتنی سہانی وطن
تیری عظمت پہ قرباں ہو جاؤں میں
جان ویسے بھی اک دن ہے جانی وطن
تیرے بیٹوں نے تیری محبت لیے
سرحدوں پر گزاردی جوانی وطن
پاکستان میری جان‘ کو موضوع بناتے ہوئے ایک نظم کے دو شعر جن سے وطن سے محبت اور عقیدت کا اظہار نمایاں ہے۔
تجھی پہ جان لٹانے کا کچھ ملال نہ ہو
رکھے نظر بُری دشمن کی یہ مجال نہ ہو
مرے وطن تو سلامت رہے ہمیشہ یوں ہی
ترا عروج رہے ا ور کبھی زوال نہ ہو
مہرجمالی بہت ہی سنجیدگی، اعتماد، خلوص اور محنت سے اپنی غزلوں اور نظموں میں مختلف موضوعات پر قلم شعر کہتی نظر آتی ہیں۔
دل میں جو محبت کی روشنی نہیں ہوتی
اتنی خوب صورت یہ زندگی نہیں ہوتی
مہر جمالی کے کلام میں سادگی، خلوص اور صداقت کا عنصر نمایاں ہے، شاعر ہ نے فنی رموز کو سچائی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔
ہم کو مشکل میں آزمانا تم
پھر کسی اور سے ملانا تم
اور ایک شعر دیکھئے۔
اس سال اور کتنے بہانے لگاؤ گے
ملنے میں اور کتنے زمانے لگاؤ گے
زندگی شاعروں کا اہم موضوع ہے، مہر نے بھی زندگی کو اپنا موضوع بنایا اور خوبصورتی سے اپنے اشعار میں پیش کیا۔
زندگی سے آج تک اک دشمنی مری رہی
زندگی کو آج تک دشوار میں کرتی رہی
مٹی بھی ان کی شاعری کا موضوع رہا۔ ایک غزل کا مطلع کچھ اس طرح سے ہے
مجھ سے اور نہ دیکھی جائے حالت مٹی کی
مٹی میں ہی مل جاتی ہے قسمت مٹی کی
مہر جمالی اشاروں کنایوں میں بات نہیں کرتیں بلکہ جو بات کہنی ہوتی ہے اسے صاف صاف کہہ ڈالتی ہیں۔ یہی ادا ان کی شاعری کو منفرد بناتی ہے۔
بے وفا تُجھ سے کیا گِلا کرنا
ہم نے سیکھا ہے بس وفا کرنا
محبوب سے اپنی محبت کا اظہار صاف گوئی سے اس طرح کرتی نظر آتی ہیں ؎
دل میں اس کی محبت بسا کر مہر
اپنی آنکھوں میں روشن دیا کر لیا
اداس فضا کے حوالے سے شہر کی غم ناک صورت حال کا اظہار مہر جمالی نے کیا خوب کیا ہے۔
بین کرتی ہے اداسی کی فضا چاروں طرف
اب مرے شہر میں تہوار کہاں ہوتے ہیں
آخر میں مہر جمالی کے شعری مجموعے پر اپنے اس قطعہ پر اختتام کرتا ہوں
شاعروں میں ایک شاعرہ مہر ہے بے مثال
’محبت کا سفر‘ ایک شعری مجموعہ ہے بے مثال
سخن وروں میں خاص مقام ہے مہر جمالی کا
شاعری میں ہے سلاست و حلاوت بے مثال
پہلے شعری مجموعے پر دلی مبارک باد۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
پروفیسر آف ایمریٹس(منہاج یونیورسٹی،لاہور)
21اگست2020ء
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277954 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More