شان دختر رسالت مآب صلی اللہ علیہ بیان کرنی ہو تو پہلے
قلم و قرطاس وضو کر کے آئیں۔ مدحت فاطمۃ الزہراء کرنے اور پڑھنے لے لیے
پاکیزگی و حیا شرط اول ہے۔ ان کی جناب میں ھدیہ عقیدت پیش کرنے کو میری کیا
اوقات جس کو رحمة للعالمین نے بحکم رب العالمین "خیر نساء العالمین" قرار
دیا اور سیدة نساء امتی جس کا مقام ہے۔ سیرت اتنی اکمل واجمل ہے کہ نبی پاک
صلی اللہ علیہ نے انہیں ام ابیھا( اپنے باپ کے لیے ماں جیسی شفقت والی) کا
لقب دیا۔ منقبت زہراء اتنا اعلیٰ و ارفع ہے کہ قیامت کے روز اعلان کیا جائے
گا 'یا ایھا الجمع غضوا ابصارکم حتی تمر فاطمہ' اے جمع ہوئے بنی آدم اپنی
نگاہیں جھکا لو (ادب کا ایسا مقام آیا ہے) کہ نبی مقام محمود کی کامل حیا
والی بیٹی فاطمہ نے گزرنا ہے۔
فضیلت فاطمہ کو بیان کرنے کو یہ حدیث لعل و یاقوت کی طرج جگمگا رہی ہے کہ
فاطمہ پوری کائنات کی چار کامل و اکمل عورتوں میں سے ایک ہیں ۔
حسبک من نساء العالمین مریم و آسیة و خدیجة و فاطمة'
اور ارشاد فرمایا " یا فاطمة الا ترضین ان تکون سیدة نساء العالمین و سیدة
نساء ھذہ امة و سیدة نساء المومنین " ۔
فاطمہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہوتی کہ تم سارے جہاں کی عورتوں کی سردار
ہو ، اس امت کی عورتوں کی سردار ہو اور مؤمن عورتوں کی سردار ہو۔
جب جب اسوائیت اور علوم سیرت پر لکھا جائے گا دفتر کے دفتر شان زہراء بیان
کریں گے مگر حق ادا نا ہو گا۔ اور کیسے ہو جب کہ وہ جگر گوشہ امام المرسلین
ہیں انہیں پوری کائنات میں سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ فضیلت ومنقبت کی انتہاء
یہ کہ سارے جہانوں کا سردار کھڑے ہو کر ہاتھ چوم کر اپنی نشست پر بٹھاتے۔
اقبال کہتے ہیں ۔
مریم از یک نسبت عیسیٰ عزیز
از سہ نسبت زھراء عزیز
مریم کی فضیلت ایک ہے عیسیٰ علیہ سلام کی جبکہ فاطمة الزھراء کی تین نسبتیں
انہیں فضیلت دیتی ہیں۔ وہ کمالات نفسی و نسبی کا مجموعہ ہیں۔ انسان کی
فضیلت یا کمال نفسی کی وجہ سے ہے یا کمال نسبی یا دونوں کا مجموعہ ۔ اور
سیدة الکائنات فضائل نسبی میں وہ طرہ امتیاز رکھتی ہیں جو قیامت تک کسی کو
حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہ کہ وہ خاتم النبین ، صاحب شفاعت کی بیٹی ہیں، شیر
خدا ولی اللہ علی المرتضی کی بیوی ہیں اور تیسری یہ کہ امامین المعصومین
سرداران جوانان جنت کی والدہ ہیں۔
مادرآن مرکز پرکار عشق
مادرآن کاروان سالار عشق
وہ جو عشق کے پرکار کے مرکز کی ماں ہیں وہ جو کاروان عشق کے سالار کی ماں
ہیں۔
فضائل نفسی دیکھیں تو عفت کا دوسرا نام ہیں فاطمہ! حیا کا بشری مجسمہ ہیں
فاطمہ ! جو ازدحام مردآں کے اختلاط سے بچنے اپنے والد کا خطبہ بھی سننے
باہر تشریف نا لائیں اور بیٹوں سے پوچھ لیتی کہ نانا آج کیا فرما رہے تھے۔
جو اپنے ہی والد سے ملاقات کیے بغیر آگئیں کہ بابا کے گرد غیر مردوں کا جم
غفیر ہے اس میں ان سے ملاقات مناسب نہیں۔
صبر و قناعت نے بھی اتنا ضبط کہیں اور نا دیکھا ہو گا جتنا ھادئ کائنات کی
کچی عمر کی بیٹی میں سما گیا تھا۔ شہزادی رسول خود گھر کے سارے کام کرتیں
صفائی آٹا گوندنا کھانا بنانا چکی پیسنا یہاں تک کہ ہاتھوں پر چھالے پڑ
گئے۔ والد سے غلام لینے گئیں تو وہ بھی نا ملا اور تسبیحات فاطمہ کا ہدیہ
لے کر رہتی دنیا کی بیٹیوں کو قناعت اور اطاعت کا درس دیا۔ اس کمال سعادت
کے عروج کو پہنچی ہوئی مقدس ہستی بلا شبہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں عمدہ مثال
ہیں ۔آج کی عورت کے لے حضرت فاطمة الزہراء ہمہ گیر اسوہ آور کامل سیرت ہیں۔
مگر افسوس کہ آج کی نوجوان لڑکیاں فلمی ہیروئن اور ماڈلز جیسے کھوکلے اور
فرسودہ آئیڈیلز بنائے پھرتی ہیں۔ جیسے ہیرے کو چھوڑ کر کوئلے کی تقلید پر
راضی ہیں اور سیرت فاطمہ صرف کتابوں اور نعتوں تک محدود ہے۔ آج وہ لڑکی جو
چند لائکس اور کمنٹس کی خاطر ٹک ٹاک سٹار بننے کو سر کرداں ہے اور اپنی زیب
و زینت سر عام نیلام کر کے بے مول ہو رہی ہے سوچ لے کہ اگر قیامت کے دن
سیدة العالمین نے منہ پھیر لیا کہ تم نے دنیا کی لایعنی خوشی کی خاطر اپنی
چادر اتار دی حیا بیچ ڈالی تمہیں مجھ سے کوئی نسبت نہیں تو کہاں جائیں گی؟
مہنگے جہیز اور زیور کی خاطر شادی کرنے والے یا۔اس کو شادی کآ لازمی جزو
سمجھنے والے اگر سیرت فاطمہ اپنا لیں تو زندگیاں آسان ہو جائیں؟ خدا کے لیے
فاطمہ رضی اللہ عنھا کی قناعت کو عملی طور پر اپناؤ دنیا بھی سنور جائے گی
آخرت بھی بن جائے گی۔ آج لڑکیاں تارک قرآن ہیں موسیقی کی شیداں ہیں۔ مرد
خلوت میں بے ہودہ ویڈیو اور فحش مواد دیکھنے کے شوقین ہیں۔ میں پوچھتی ہوں
قیامت کے دن کس منہ سے سیدہ کے والد کے امتی ہونے کا صلہ لو گے؟ کیسے کہو
گے کہ تمہیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے عقیدت ہے۔
پیغام ہے امت کی بیٹیوں کو کہ سیدہ نے قرآن کو اپنا وطیرہ بنایا وظیفہ
بنایا ، کام کرتے ہوئے بھی تلاوة لبوں پر جاری رہتی۔ فرماتی ہیں "احب الی
من دنیاھم تلاوة القرآن " مجھے اس دنیا سے زیآدہ محبوب ہے قرآن کی تلاوت
کرنا ۔
کمال صبر کے عروج پر پہنچنے کے لیے جائے نماز کو اپنا مقام گرویہ بنایا۔ رب
کے سامنے روتیں تھیں لوگوں کے سامنے مضبوط رہتیں تھیں۔ ہر مشکل سے مسکرا کر
گزرتیں یہاں تک کہ جان سے گزر گئیں۔باپ کی خدمت شوہر کی نصرت اور اولاد کی
تربیت میں وہ پختہ کردارنبھایا جو رہتی دنیا کے لیے قابل تقلید بے نظیر
مثال ہے۔آج کی ماؤں کو پیغام ہے سیرت سیدہ کائنات کا کہ اولاد کے وصف ماں
کی تربیت کے مرہون منت ہے۔ ماں فاطمہ جیسی بنے گی تو اولاد حسنین جیسی
قائدین حریت و استعارئے جرات بنیں گے۔ جیسے اقبال نے کہا تھا۔
سیرت فرزندھا از امھات
جوہر صدق و صفا از امھات
وہ کمالات صداقت و سعادت کی ملکہ، معلم حریت کی ماں بنی۔ شمع شبستان حرم کی
ماں نے اپنی اولاد کو عشق حقیقی کی گھٹی پلائی۔ یہ اس ماں کے دودھ کی تاثیر
تھی کہ امام حسین کاروان عشق کے سالار بن کر سر پر کفن باندھ کر کربلا نکلے
لیکن اللہ کی وفا کا سودا نا کیا۔ یہ ماں سے لیا صدق و صفا کا درس تھا کر
بیٹیوں نے وقت آنے پر یزیدیت کےایوانوں میں کلمۂ حق بلند کیا اور تخت طاغوت
کی بنیادیں ہلادیں۔ اور دوسری طرف آج کی ماں ہے جس نے اسوہ بتول کو عملا
اپنانے کی زحمت نا کی۔ آج کی بیٹیاں چادرِ زینب کا وقار چھوڑ کر
یونیورسٹیوں ، دفتروں میں لوگوں کی تفریح کا سامان بنیں ہوئی ہیں۔ یاد
رکھیں جب تک فاطمیت زندگی کا حصہ نہیں بنے گی حق زہراء ادا نا ہو گا اور نا
ہی شریعت محمدی کسی قریہ و دولة میں نافذ ہو سکے گی۔
ہمیں چاہئیے کہ حضرت فاطمہ سے عقیدت مرثیوں قصیدوں اور مجلسوں تک محدود نا
رکھیں اور مدح سرائی سے آگے بڑھ کر اطاعت میں لائیں۔
سلام یا اسوہ کامل بتول
سلام یا دختر کامل رسول
سلام یا زوجہ علی المرتضی
سلام یا ام شہدائے کربلا!
تحریر حفصہ اکبر ساقی
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی
|