دلوں کا سکون: ذکر الٰہی

(شبیر ابن عادل)
عام طور پر ہم سب کا روزمرہ کا تجربہ ہے کہ انتظار کے لمحات بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں، چاہے وہ ڈاکٹر کے کلینک میں ہوں یا یوٹیلٹی بل جمع کرنے یاکسی اور کام کے لئے قطار میں کھڑے ہونے میں یا کسی کے انتظار میں۔ اسی طرح ٹرین، بس یا ہوائی جہاز کے طویل سفر میں یا اپنے گھر میں کوئی کام نہ ہونے کی صورت میں ہم بہت بور ہوجاتے ہیں اور وقت کاٹنے کو دوڑنے لگتا ہے۔ ایسے میں لوگ اپنی بوریت دور کرنے کے لئے موسیقی، ٹیلی ویژن پر ڈراموں، میوزیکل پروگراموں، ٹاک شوز یا فلموں سے دل بہلاتے ہیں۔ خاص طورپر نوجوان بائیک یا کار ڈرائیو کرتے ہوئے اپنے کانوں میں ہینڈ فری لگا کر گانے سنتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ سو کر وقت گزارتے ہیں۔
زیادہ تر بھائی بہنوں کا خیال ہے کہ وہ ٹائم پاس کرنے،دل بہلانے اور اپنی بوریت دور کرنے کے لئے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ مگر کیا ایسا ہوتا ہے، یعنی وہ واقعی یہ سب کچھ کرکے تازہ دم، ہشاش بشاش اور خوشی حاصل کرلیتے ہیں؟ کیا اُن کے دلوں کو سکون مل جاتا ہے۔ اس حوالے سے میری بہت سے لوگوں سے بات ہوئی، جن میں سے اکثریت کا جواب نفی میں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ دلوں کو سکون تو نہیں ملتا، ہاں البتہ ٹائم پاس ہوجاتا ہے۔
ان کی بات بالکل درست ہے، ان فضول مشاغل سے دلوں کو سکون کیسے مل سکتا ہے؟ دلوں کو سکون تو اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے ملتا ہے، ایسا سکون کہ جس کو محسوس کیا جاسکتا ہے، اس کا اظہار لفظوں میں ممکن ہی نہیں۔ روح کو سکون ملتا ہے، ایسی خوشی ملتی ہے، جس کے سوتے اندر سے پھوٹتے محسوس ہوتے ہیں۔
ویسے تو ذکر اللہ اپنے وسیع معنٰی اور مفہوم کے لحاظ سے نماز، تلاوتِ قرآن اور دعا واستغفار وغیرہ سب ہی شامل ہیں۔ لیکن علمائے کرام کے بقول مخصوص اصطلاح میں اللہ رب العزت کی تسبیح و تقدیس، توحید وتمجید، اور اس کی صفاتِ کمال کے بیان کو "ذکر اللہ"کہا جاتا ہے۔ قرآنِ حکیم میں اس حوالے سے متعدد آیات موجود ہیں:
٭ (ترجمہ) اے ایمان والو! اللہ کو بہت زیادہ یا د کیا کرو، اور صبح وشام اس کی پاکی بیان کرو۔ (سورہئ الاحزاب۔ ۱۴، ۲۴)
٭ (ترجمہ) اے ایمان والو! تمہاری دولت اور تمہاری اولاد تم کو اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے، اور جولوگ اس غفلت میں مبتلا ہوں گے وہ بڑے گھاٹے اور نقصان میں رہیں گے۔ (المنافقون۔ ۹)
٭ (ترجمہ) جب تم نماز ادا کرلو تو اللہ کا ذکر کرو(ہرحال میں) کھڑے بیٹھے اور اپنے پہلوؤں کے بل لیٹے۔ (النساء۔ ۳۰۱)
اللہ کے ذکر کرنے والوں کے مرتبہ کا اندازہ اس آیت مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے:
(ترجمہ) میرے بندو!! تم مجھے یاد کرو، میں تم کو یاد رکھوں گا۔ (بقرہ۔ ۲۵۱)
ذکر اللہ ہی وہ راستہ اور دروازہ ہے، جو حق جل جلالہ اور اس کے بندے کے درمیان کھلا ہوا ہے اور اس سے بندہ اس کی بارگاہِ عالی تک پہنچ سکتا ہے اور جب بندہ اللہ کے ذکر سے غافل ہوتا ہے تو یہ دروازہ بند ہوجاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب بھی اور جہاں بھی بیٹھ کر کچھ لوگ اللہ عزوجل کا ذکرکرتے ہیں تو لازمی طور پر فرشتے ہر طرف سے ان کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور ان کو گھیر لیتے ہیں اور رحمت الٰہی ان پر چھاجاتی ہے اور ان کو اپنے سائے میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینت کی کیفیت نازل ہوتی ہے اور اللہ اپنے ملائکہ مقربین میں ان کا ذکر فرماتا ہے۔ (صحیح مسلم)
ایک دوسری جگہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس وقت بندہ میرا ذکر کرتا ہے اور میری یاد میں اس کے ہونٹ حرکت کرتے ہیں تو اس وقت میں اپنے اس بندے کے ساتھ ہوتا ہوں۔ (صحیح بخاری)
حضرت ابو الدردا ء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "کیا میں تم کو وہ عمل بتاؤں جو تمہارے سارے اعمال میں بہتر اور تمہارے مالک کی نگاہ میں پاکیزہ تر ہے اور تمہارے درجوں کو دوسرے تمام اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے، اور راہِ خدا میں سونا اور چاندی خرچ کرنے سے بھی زیادہ اس میں خیر ہے، اور اس جہاد سے بھی زیادہ تمہارے لئے اس میں خیر ہے جس میں تم اپنے دشمنوں اوراللہ کے دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتارو اور وہ تمہیں ذبح کریں اور شہید کریں؟" صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ "ہاں یارسول اللہ ؐ ایسا قیمتی عمل ضرور بتائیے"۔ آپؐ نے فرمایا: "وہ اللہ کا ذکر ہے"۔ (مسند احمد، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کا ذکر اتنا اور اس طرح کرو کہ لوگ کہیں کہ یہ دیوانہ ہے۔
حضور اکرم ؐ نے ذکر کی اہمیت وفضیلت کے ساتھ وہ کلمات بھی تعلیم فرمائے، جن کی بدولت بندہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اجروثواب حاصل کرسکتاہے اور فضول کاموں سے بھی بچ جاتا ہے۔ حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمام کلموں میں یہ چارکلمے ہیں: "سبحان اللہ" اور "الحمدُ للہ" اور "لا الہ الا اللہ" اور "اللہ اکبر" (صحیح مسلم)
احادیث مبارکہ میں "لا الہ الا اللہ" کو افضل الذکر قرار دیا گیا ہے۔ درودشریف کے اجروثواب کا تواندازہ ہی نہیں ہے۔علمائے کرام نے "صلی اللہ علیہ وسلم " کو مختصر ترین درود شریف قرار دیا ہے۔ استغفر اللہ، سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم، سبحا ن اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر،لاحول ولا قوۃ الا باللہ اور اسی طرح کے متعدد اذکار ہیں۔ جو احادیث کی کتب اور دعاؤں کی کتابوں خاص طور پر "حصن حصین " میں ہیں۔
ذرا غور تو کریں کہ اگر ہر وقت ہماری زبانیں ذکر الٰہی اور درود شریف سے تر ہوں گی تو نہ صرف یہ کہ ہمیں بے اندازہ ثواب ملے گا، بلکہ ہم ان بے شمار گناہوں سے بھی بچے رہیں گے، جن میں عام طور پر ہم مبتلا رہتے ہیں۔ اکثر لوگوں کی زبان سے غیبت، چغل خوری، بدگمانی، الزام تراشی، بہتان اور فحش گوئی ہوتی رہتی ہے۔ پھر اگر فارغ ہوں تو ہم اپنی بوریت دورکرنے کے لئے مختلف لغویات (فیس بک سمیت سوشل میڈیا، گانے، فلمیں، وغیرہ وغیرہ) میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
جب ہم ذکر الٰہی شروع کریں گے تو قلب کو وہ سکون ملے گا، جس کا کوئی نعم البدل نہیں اور آپ یہ بھی حیرت انگیز مشاہدہ کریں گے کہ آپ کے تمام کام بنتے چلے جائیں گے۔ چاہے امتحانا ت میں کامیابی ہو، روزگا ر کا حصول ہو، صحت یابی ہو یا کوئی بھی کام۔ تو آئیے کامیابی کی شاہراہ پر پہلا قدم بڑھاتے ہیں۔
================
shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 110974 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.