چرّم پُوش سرکار پر حاضری

9 0جنوری2021 کی صبح رُوحانی شخصیات سے فیوض و برکات کی نیت سے راولپنڈی سے روانہ ہوئے۔ اس پروگرام کے محّرک اور میزبان انجینئر ملک محمد عثمان ایڈوکیٹ تھے۔اِن سے میری رفاقت انیس سو ننانوے سے ہے جب راقم غازی بروتھا ہائیڈوپروجیکٹ پر کام کرنے والی چائنیز کمپنی ڈانگ فانگ کے پلاننگ آفس میں کام کرتا تھا جبکہ انجینئر ملک محؐمد عثمان ایڈوکیٹ کنٹرکٹ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے تھے۔ دوران ملازمت ہم نے اکھٹے لاء شروع کیا اور وہیں سے ہماری رفاقت عزیز دوستی میں بدلتی گئی۔ وقت تیزی سے گزرنے لگا، ملک محمد عثمان بعدازاں دیارغیر نکل گئے جبکہ میں پاکستان میں ہی پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے مشن پر لگ گیا البتہ ہمارے باہمی روابط اور علمی و روحانی مباحث جاری رہے۔ ملک محمد عثمان جب بھی دیار غیر سے واپس آتے تو میرے اور مشترکہ دوست اقبال زرقاش سے رابطے میں رہتے ۔ہم اکھٹے اولیاء اللہ، پیروں اورفقیروں کو کھوجنے کے مشن پر نکل جاتے ۔اسی دوران ملک محمد عثمان صوفی شاعرو عالم مولا نا جلال الدین رُومی کے دلدادہ ہو گئے اور اُن کے کلام اور رُوحانیت کے اتنے قائل ہوئے کہ عشق کی معراج پانے کُونیہ (ترکی) کا سفر کرکے مولانا رُومی کے مقبرے پر حاضری دے کر فیض حاصل کیا اور مجھے بتایا کہ میری حاضری مقبولیت پا گئی۔

بات رُوحانی شخصیات سے ملاقات کی ہو رہی تھی لیکن بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ یہ جنوری کا خوبصورت چمچماتا دن تھا۔سردی کی ٹھنڈک بھی اپنے وجود کے ہونے کا پتا دے رہی تھی۔ ہم نے اٹک میں سینئر صحافی و ادیب اقبال زرقاش کو موبائل پر خبر دے دی تھی کہ وہ ہماری آمد پر تیار رہیں۔اٹک سے اقبال زرقاش کو لے کر ہم تینوں کی اگلی منزل پیر حمید خان آف کنڈی عمر خانہ ،غازی تھی۔ راستے میں فروٹر مالٹے کے باغات سے گزرتے اور روحانی مباحث کے ساتھ ہم بارہ بجے لب ِ سٹرک پیر حمید خان کے ڈیرے پر پہنچے۔پیر حمید خان سے ہماری پرانی نیازمندی ہے۔ بیس سال سے ہم اکثر و بیشر وقت ملنے پر حاضری دیتے رہتے ہیں۔ یہاں ہماری ملاقات اکثر سیاست دانوں ، صحافیوں، وکیلوں اور اعلیٰ سرکاری افسران سے ہوتی رہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُن میں سے اکثر کے ساتھ اچھی خاصی شناسائی بھی ہو گئی ہے۔پیر حمیدخان حسب توقع اپنے نیازمندوں سے ملاقات کے لیے دھوپ میں چارپائی ڈالےبُراجمان تھے۔ ہفتے کا دن ہونے کی وجہ سے ملاقاتیوں کی حاضری کم تھی یا ہماری خو ش قسمتی تھی کہ پیر حمید خان سے ہماری ملاقات اچھی رہی ۔ انہوں نے فرداً فرداً ہم تینوں سے بات چیت کی ۔

پیر حمید خان وہ درویش صفت انسان ہیں جنہیں اللہ پاک نے آگاہی کی بے پناہ قوت سے نواز رکھا ہے۔ ملکی حالات پر آپ کی گہری نظر ہوتی ہے۔ آپ کو ملک گیر شہرت سابق نگران وزیراعظم غلام مصطفے جتوئی کو وزیراعظم بننے کی پیشنگوئی سے ملی اس کے بعد راجہ پرویز اشرف کو بھی آپ نے وزیراعظم بننے کی بشارت بہت پہلے دے دی تھی۔ ملک کے تقریبا تمام صف اوّل کے سیاست دان آپ کے عقیدت مندوں میں شامل ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو بھی زمانہ عروج میں آپ کے ڈھیرے پر گاہے بگاہےتشریف لاتے رہے ہیں۔ آپ بلکل سادہ طبعیت درویش ہیں، کنڈی عمرخانہ تربیلا غازی کے مشوانی پٹھان قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں پشتو کے علاوہ پنجابی بہت روانی سے بولتے ہیں ۔زیادہ تر گفتگو پنجابی میں ہی کرتے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں آپ کے مریدین ملک کے طول و ارض میں پھیلے ہوۓہیںجنمیںنامورصحافی , وکلاءججزاورہرطبقہکےلوگشاملہیںآپکیبہتسی کرامات زبان زدعام ہیں۔ سب سے بڑھ کر کہ آپ روایتی پیروں سے ہٹ کر تربیلا سری کوٹ ہری پور روڈ کے کنارے چارپائی پر بیٹھ کر ہر خاص و عام کو ایک ہی نظر سے نہایت گرمجوشی سے ملتے ہیں انسانی مساوات آپ کے ڈھیرے کا خاصا ہے۔ایک ہی لنگر عام و خواص کے لیے مختص ہے۔ مسور کی دال آپ کے لنگر کی خاص سوغات ہے، تین چار ماہ بعد آپ بڑے لنگر کا اہتمام کرتے ہیں جس میں ہزاروں مریدین، عقیدت مند مدعو کیے جاتے ہیں اور آپ سات آٹھ بیل ذبح کروا کر کٹوے گوشت سے ان کی میزبانی کرتے ہیں۔ اس لنگر میں سابق وزیراعظم سے لے کر مزدور تک سب شامل ہوتے ہیں آپ تعویڈ گنڈوں کی بجاۓ عقیدت مندوں سے ان کے مسائل سن کر دُعا دیتے ہیں البتہ بیمار مریضوں کو عام روزمرہ کی سبزیاں اور فروٹ کھانے کا بتاتے ہیں شوگر کے مریضوں کو چینی دم کر کے دیتے ہیں آپ کا ذریعہ معاش زمینداری اور مال مویشی ہیں اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرتے ہیں۔ یہ تو تھا کچھ سرسری سا تعارف پیر حمید خان صاحب کا، تو بات ہورہی تھی روحانی دورے کی تو پیر حمید خان کے بعد ہمارا اگلا پڑائو سنجوال کینٹ کی ایک معروف رُوحانی شخصیت پیر سید فدا شاہ شیرازی کے پاس حاضری اور اُن کے ساتھ سات سو سال پرانی روحانی شخصیت سید جمال شاہ المعروف چرم پوش سرکار کے دربار اٹک خورد،ملائی ٹولہ ۔چنانچہ ہم پیر سید فدا حسین شاہ صاحب کو سنجوال سے ہمسفر کرکے اٹک خورد دریا پہنچے اور وہاں مقامی ہوٹل میں کھانا کھایا اور اٹک قلعہ کی انتظامیہ سے اجازت لے کر اٹک قلعہ سے ملحقہ گاوں ملاہی ٹولہ میں سید جمال شاہ عرف چرم پوش سرکار کے دربار پر حاضری دی ۔سید جمال شاہ چرم پوش سرکار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ لعل شھباز قلندر کے روحانی اساتذہ میں سے ہیں اور قلندر پاک آپ کے پاس حاضری دیا کرتے تھے ۔علاقے کے لوگوں نے مختلف کہاوتیں بھی چرم پوش سرکار سے منسوب کر رکھی ہیں اس میں کیا صداقت ہےاللہ بہتر جانتا ہے۔ بہرحال سید جمال شاہ چرم پوش سرکار کے بارے مشہور ہے کہ وہ چمڑے کا لباس زیب تن کرتے تھے جس کی بنا پر آپ چرم پوش کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں دربار پر فاتحہ خوانی کے بعد ایک خادم دربار نے ہماری تواضع انڈوں واے سوپ سے کی اور پھر ہم نے اپنے اپنے گھر کی طرف رخت سفر باندھا اور اسطرح یہ روحانی دورہ حسین یادوں اور دوستوں کے ساتھ یادگاری عکس بندی پر اختتام پذیر ہوا۔ یار زندہ صحبت باقی
 

Shahzad Hussain Bhatti
About the Author: Shahzad Hussain Bhatti Read More Articles by Shahzad Hussain Bhatti: 180 Articles with 168085 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.