|
|
میں انتقام پر یقین نہیں رکھتا لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ دنیا کو پتہ
چلنا چاہیے کہ میرے ساتھ کیا ظلم ہوا ہے اور اس کو چھپانے کے بجائے سب
کے سامنے لانا ضروری ہے ۔یہ الفاظ گزشتہ اٹھارہ سال سے امریکہ کی جیل
گوانتاناموبے میں قید احمد غلام ربانی کے ہیں ۔ جن پر دہشت گردی کا
چھوٹا الزام لگا کر ان کو سی آئی اے کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا تھا- |
|
احمد غلام ربانی نے اپنے ایک خط کے ذریعے امریکی نو منتخب صدر جو بائیڈن سے
اپیل کرتے ہوئے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ آپ نے بھی اپنی زںدگی میں بہت غم
اٹھائے ہیں ۔1972 میں پہلے کار ایکسیڈنٹ میں نے اپنی بیوی اور بیٹی کو کھو
دینے کا دکھ اس کے بعد برین ٹیومر کے ہاتھوں اپنے جوان بیٹے کو کھو دینے کا
دکھ ، اسی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ آپ ایک درد مند دل رکھتے ہیں اور وہ
مجھ سے اور اس خوفناک جیل میں قید لوگوں سے نہ صرف ہمدردی کریں گے بلکہ ان
کے درد کو بھی سمجھیں گے- |
|
احمد غلام ربانی کو 2002 میں کراچی سے اغوا کیا گیا تھا ، وہ کراچی میں ایک
ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر کام کرتے تھے ۔ ان کا تعلق پاکستان میں موجود
روہنگیا برادری سے تھا ۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ ان کو گل حسن نامی شخص کے
طور پر گرفتار کیا گیا جب کہ اس بندے کو بعد میں گرفتار کر کے چھوڑ دیا گیا
۔ |
|
احمد غلام ربانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ جوبائڈن کے زیر نگرانی ہی 2014 میں
سی آئی اے کی جانب سے قیدیوں پر تشدد کی ایک رپورٹ تیار کی گئی جس میں احمد
شاہ کا بھی ذکر ہے اس رپورٹ کے مطابق 540 دن تک بغیر کسی رپورٹ کے احمد شاہ
کو افغانستان میں سی آئی اے کی قید میں رکھا گیا اور ان کو بدترین تشدد کا
نشانہ بنایا گیا- |
|
احمد کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس تشدد میں جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ ذہنی
اذیت دینے کا عمل بھی بد ترین ہوتا تھا ۔ جس میں یہ بتایا جاتا تھا کہ
برابر والے کمرے میں چیختی ہوئی عورت آپ کی بیوی ہے جس کو فوجی نہ صرف
زيادتی کا نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ اس کو اس کے بعد قتل بھی کر دیں گے- |
|
|
|
احمد کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ گونتاناموبے میں ان اور ان جیسے لوگوں کو
قید میں رکھ کر امریکہ ہر سال ایک لاکھ چالیس ہزار ڈالر خرچ کر رہی ہے جس
کو بچایا جا سکتا ہے ۔ |
|
امریکی صدر جلد ہی حلف اٹھانے کے بعد وائٹ ہاؤس منتقل ہو جائيں گۓ یہ ان کی
جدوجہد کا انعام ہو گا جب کہ اگر احمد شاہ آزاد ہوتے تو وہ بھی اٹھارہ
سالوں میں کسی نہ کسی مقام پر پہنچ سکے لیکن وہ تو اپنے اغوا کے چار مہینوں
کے بعد پیدا ہونے والے اپنے بیٹے جواد کو چھو بھی نہ سکے- |
|
وہ گزشتہ سات سالوں سے بھوک ہڑتال پر ہیں ۔ جس وجہ سے ان کا وزن بہت کم ہو
گیا ہے اور حکام ان کی جان بچانے کے لیے ہر روز ایک بار نالی کے ذریعے
زبردستی ان کے معدے میں ناک کے راستے غذا اتار دیتے ہیں ۔ یہ غذا بعض اوقات
کھانے کے نالی کے بجائے سانس کی نالی میں چلی جائے تو شدید تکلیف کا سبب بن
جاتی ہے اور اس کی وجہ سے مستقل طور پر ان کے سر میں درد رہنے لگا ہے- |
|
اس موقع پر احمد غلام ربانی نے امریکی صدر سے اپیل کی کہ وہ بہت کمزور ہو
گئے ہیں اور تابوت پر اپنے گھر نہیں جانا چاہتے بلکہ مرنے سے قبل پہلی بار
اپنے اٹھارہ سالہ بیٹے کو چھونا چاہتے ہیں- |
|
احمد غلام ربانی کا یہ خط سوشل میڈيا پر تیزی سے وائرل ہو رہا ہے اور امید
ہے کہ امریکی صدر تک بھی پہنچے گا اور امید ہے کہ وہ اس حوالے سے کوئی مثبت
فیصلہ کريں گے- |