حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ہیں
اور پیارے آقا سرکا ر مدینہ کے مزاج شناس ہیں اور غار و مزار کے ساتھی ہیں
اور پیارے پیغمبر ؐکے ابتدائی و مخلص ساتھیوں میں سے ہیں مشرکین مکہ کے
مظالم جب حد سے بڑھ گئے تونبی کریمﷺکو ہجرت کرنے کا حکم ملا تو آ نحضرت ﷺ
نے اپنی رفاقت کیلئے حضرت ابوبکر صدیقؓکو منتخب فرمایا،سفر ہجرت میں صرف
ابوبکرؓ ہی نہیں بلکہ ان کے گھرانے ،حتیٰ کہ غلاموں تک کی وفاداریاں تاریخ
اسلام کا حسین باب ہیں ۔حضرت اسماء ؓہوں یا حضرت عائشہ ؓ، آپ۳ کے صاحبزادے
حضرت عبداﷲؓ ہوں یا آپ کے غلام حضرت عامربن فہیرہؓ،انہوں نے سفر ہجرت میں
بے مثال قربانیاں پیش کیں حتیٰ کہ آپ کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن بن ابی
بکر(جوابھی تک اسلام نہ لائے تھے ) انہوں نے بھی اس راز کو فاش نہ کیا ،جب
حضور ﷺ اورحضرت ابوبکرصدیقؓروانہ ہوئے تو راستہ میں روایات کے مطابق حضرت
ابوبکرؓ نے آنحضرتﷺ کو اپنے کندھے پر اٹھایا ،حتیٰ کہ غارثور کے دھانے پر
پہنچ گئے ،حضرت ابوبکر۳کو اپنی جان کا کوئی غم نہ تھا ،غم تھا تو نبی کریمﷺ
کی جان کا غم تھا ۔اس لئے نبی کریمﷺکو آپ نے تھوڑی دیر باہر روکا اور خود
غار کے اندر تشریف لے گئے اور اندر سے غار کو صاف کرنے لگے اورجو غار کے
اندر سوراخ تھے ،جہاں سے زہریلے جانوروں کے کاٹنے کا خطرہ تھا اپنی چادر
مبارک پھاڑپھاڑ کر ان سوراخوں کو بند کرنے لگے ،سوائے ایک سوراخ کے باقی
سوراخوں کو بند کردیا۔ پھرآنحضرتﷺکوآوازدی،حضورﷺ اندر تشریف لے گئے ،تین
چار میل کا دشوار گزارسفر اور پہا ڑی راستے ،ذہنی اورجسمانی تھکانیں ،صاحب
غار اور رفیق غار دونوں کو مگر حضرت ابوبکرؓنے آقا کیلئے زانو پھیلا دیئے ،سردار
دوجہاںﷺ آپ کے زانومبارک پر سر مبارک رکھ کر سوگئے ،کتنی مبارک وہ گود جس
میں امام الانبیاءﷺ نے سراقدس رکھا ،ادھرغار کاایک سوراخ بند نہ ہوسکا،حضرت
ابوبکرؓنے اپنا پاؤں مبارک رکھ دیا ،زہریلے سانپ نے ڈس لیا ،تکلیف کی شدت
بڑھتی رہی اورآپؓضبط کرتے رہے مگربے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اوررخ
انور پرگرے ،جس سے آنکھ مبارک کھل گئی ، حضرت ابوبکرؓکو پریشان دیکھ کروجہ
دریافت کی آپؓ نے آگاہ کیا ،تو آنحضرتﷺ نے اپنا لعاب مبارک ،جہاں سانپ نے
ڈسا تھا لگایا تو تمام تکلیف دور ہوگئی اورزہر کا اثر جاتا رہا ۔(سیرۃ
حلبیہ ،اردو ص 98ج3)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو غار میں اچانک پیاس لگنے لگی تو
آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ غار کے درمیان میں جاؤاورپانی پی لو،چنانچہ حضرت
ابوبکرؓغار کے اس حصے کی طرف گئے تووہ وہاں انہیں پانی ملاجو شہد سے
میٹھا،دودھ سے زیادہ سفید اور مشک سے زیادہ پاکیزہ خوشبو والاتھا ۔حضرت
ابوبکرؓ نے اس سے پیا ،اس کے بعد آنحضرت ﷺنے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا ’’اﷲ
تعالیٰ نے اس فرشتے کو جوجنت کی نہروں کا نگران ہے کو حکم فرمایا ہے کہ اس
غار کے درمیان میں جنت الفردوس سے ایک چشمہ پیدا کردیں تاکہ تم اس سے پانی
پی سکو ‘‘۔حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا ،کیا اﷲ تعالیٰ کے ہاں میرا اتنا بڑا
مقام ہے؟ تو آپﷺنے فرمایا’’ہاں بالکل اس سے بھی زیادہ ،قسم ہے اس ذات کی جس
نے مجھے حق کے پیغام کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا کہ وہ شخص جو تم سے بغض
اوردشمنی رکھتا ہے ،جنت میں داخل نہیں ہوگا،خواہ اس کے اعمال ستر نبیوں کے
برابر ہوں (سیرۃ حلیبہ ص107 ج3)قریش مکہ تلا ش کرتے کرتے جب غار کے دھانے
پر پہنچ گئے ،اگر وہ اپنے پاؤں کی طرف دیکھتے تو آنحضرتﷺاورحضرت
ابوبکرؓنظرآجاتے ، مگر اﷲ تعالیٰ نے حفاظت کے اسباب پیدا فرما رکھے تھے
لہٰذا ان کو نظر نہ آئے تھے ،علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ بعض سیرت نگاروں
نے روایت کیا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓنے رسول اﷲﷺسے عرض کیا اگرا ن لوگوں نے
اپنے پاؤں کی طرف دیکھا تو ان کی نگاہ ہم پر ضرورپڑے گی تو حضو ر ﷺنے
فرمایا :’’اگر یہ لوگ یہاں ہمارے پاس پہنچ بھی گئے توہم یہاں سے نکل کر
کہیں چلے جائیں گے ‘‘مگر غار کا صرف ایک ہی دھانہ کھلا ہواتھااس لئے حضرت
ابوبکرؓ نے دوبارہ غار پر نظر ڈالی تو انہوں نے دیکھا کہ غار میں دوسری طرف
بھی دھانہ کھلا ہوا ہے اورسمند رکاساحل اس دھانے آلگا ہے جہاں ایک کشتی بھی
کنارے سے بندھی ہوئی کھڑی ہے ،علامہ ابن کثیر ؒفرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس
لحاظ سے منکر نہیں ہے کہ حق تعالیٰ کی عظیم قدرت سے یہ بات بعید نہیں ہے ،مگر
یہ حدیث کسی مضبوط یا ضعیف سند کے ساتھ ذکر نہیں ہوئی ۔(سیرۃ حلیبہ
ص104ج3)یار غار ، خلیفہ رسول اﷲ ﷺ سیدنا صدیق اکبرؓ کی حیات مقدسہ وسیرت
مطہرہ کا امتیازی وصف اور مخصوص جو ہر حضورﷺ کی سیرت طیبہ سے کامل توافق
وتشابہ اور مکمل یک رنگی وہم آہنگی ہے ، اخلاقِ نبویﷺ وسیرت مصطفےٰﷺ سے
تخلق وتشبہ کی نعمت وسعادت سے جو بہرۂ وافر آپ کو ملاہے ، وہ اور کسی کو نہ
مل سکا اور اس اعتبار سے آپ یاران رسول اﷲﷺ کی پوری جماعت میں ماشاء اﷲ
ممتاز ومنفرد نظر آتے ہیں ۔اگر آپ حضرت ابوبکرؓ کی پوری زندگی خصوصاً زمانہ
خلافت کو بہ نگاہ تعلق دیکھیں گے توآپ کو معلوم ہوگا کہ انہوں نے وہ کام
کبھی نہیں کیا جو نبی کریمﷺ نے نہیں کیا اور جو کام رسول اﷲﷺ نے کیا وہ آپ
نے بہر حال کیا اور ہر قیمت پر کرکے چھوڑا ۔اشبہ برسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
: حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ؒ رقم فرماتے ہیں :ابوعمر نے استعباب میں
حضرت اسید بن صفوانؓکے تذکرہ میں ایک حدیث حسن حضرت علیؓ سے حضرت ابوبکر
صدیق ؓ کی تعریف میں روایت کی ہے پھر میں نے (کتاب) ’’ریاض النصرہ‘‘ میں
یہی حدیث پائی جس کے الفاظ یہ ہیں :اسید بن صفوانؓسے روایت ہے کہ انہوں نے
نبی ﷺ کو پایا تھا وہ کہتے تھے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے انتقال فرمایا تو ان
پر ایک چادر ا و ڑ ھادی گئی پھر حضرت علیؓ تشریف لائے اس حال میں کہ آپﷺ
انا ﷲ وانا الیہ راجعون پڑھتے جاتے تھے پھرفرمایا اے ابوبکرؓ! اﷲ آپ پر
رحمت فرمائے آپ رسول خداﷺ کے دوست تھے ۔اور سیرت وعادت راست روی ومہربانی
اور فضل وبزرگی میں رسول خداﷺ کے سب سے زیادہ مشابہ تھے ‘‘۔(ازالۃ الخلفاء
)
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ (ہجرت فرماکر) جب رسول اﷲﷺ قبا تشریف لائے ، دو
شنبہ کا دن تھا اور ربیع الاول کا مہینہ !انصار میں سے جس نے حضور ﷺ کو
نہیں دیکھا تھا وہ آکر پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓکو سلام کرتا تھا ۔ یہاں تک
کہ سورج کی تپش حضورﷺ کو تکلیف دینے لگی تو حضرت ابوبکرؓ اٹھے اور آپؐ پر
اپنی چادر سے سایہ کردیا ۔تب لوگوں نے رسول اﷲ ﷺ کو پہچانا (صحیح بخاری )
تو جب تک حضرت ابوبکرؓ نے آگے بڑھ کر حضرت محمدﷺ کے سر پر اپنی چادر سے
سایہ نہ کیا انصار مدینہ حضرت ابوبکرؓ ہی کو رسول اﷲ سمجھتے رہے اور جو بھی
آتا پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ہدیہ سلام پیش کرتا تھاخود نبی کریمﷺ کے ایک
ارشاد سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ صدیق اکبر۳ نے ساری عمر حضور ﷺ کی
کوئی مخالفت نہیں کی ۔طبرانیؒ حضرت سہل۳ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺجب
حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے تو منبر پر چڑھے خداتعالیٰ کی حمدوثنا بیان
کی پھر فرمایا:اے لوگو! بلا شبہ ابوبکر۳ نے کبھی مجھے رنجیدہ ومغموم نہیں
کیا ۔‘‘(تاریخ الخلفاء) یعنی اخلاق وصفات توبجائے خود افکار واعمال میں بھی
اس درجہ تشابہ وتوافق تھا کہ عمر بھر صدیق اکبرؓ نے نبی اکرمﷺ کی کبھی کوئی
مخالفت نہیں کی ۔آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ کہ حضرت سیدنا ابوبکرؓ سے کبھی
کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہوا جو حضرت محمد ﷺ کی پریشانی خاطروتکدر طبع کا
موجب ہوتا اور اس میں حضورﷺ کی مخالفت کا شائبہ بھی ہوتا ؟ محدث خطیب رحمۃ
اﷲ علیہ نے حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت کی کہ حضورﷺ نے فرمایا : میں اور
ابوبکرؓوعمرؓایک ہی (پاک)مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں اور اسی ایک ہی مٹی میں
دفن ہوں گے (کتاب المتفق والمفترق)شرح مناسک میں علامہ نوویؒ تحریر فرماتے
ہیں :’’علماء نے لکھا ہے کہ آدمی جس جگہ دفن ہوتا ہے اسی جگہ کی مٹی سے
ابتدا میں وہ پیدا کیا جاتا ہے تو گویا حضور اقدسﷺ کا بدن مبارک بھی اسی
مٹی سے بنا ہے۔‘‘(فضائل حج ص 1 7 0 از حضرت مولانا محمد زکریاؒ)
ا س حقیقت کے پیش نظر حضرات شیخین کی رفعت شان و عظمت مقام کی کوئی حدو
انتہا نہیں رہی ، کیونکہ جس مقدس مٹی سے حضورﷺ کا وجود اقدس تیار کیا گیا
ہے ۔ اسی خاکِ پا سے حضرات شیخین کا خمیراٹھا یا گیا ہے ۔تو ان کی طینت اور
رسول پاک ﷺ کی طینت میں وحدت ویگانگت پیدا ہوگئی ۔ اﷲ اپنی صناعی اور صفت
تخلیق کا بہترین مظاہرہ کرنے کیلئے چشم قدرت نے جس مقدس جگہ کا انتخاب کیا
اور دست قدرت نے جہاں سے حضور پاک ﷺ کے وجود پاک کے لیے پاک مٹی اٹھائی اس
مبارک ومقدس ومقام کا نام ہے روضہ رسول اﷲﷺ۔
اس پاک مقام کی پاک مٹی سے صانع حقیقی نے اپنی صنعت کے تین مثالی نمونے
اپنی قدرت کاملہ کے تین بے نظیر مظہر ،اپنی قوت تخلیق کے تین بے مثال
شاہکار اور حسن عمل وجمال سیرت کے تین بے مثل پیکر تیار فرمائے ان میں سے
ایک کانام نامی اسم گرامی رکھا محمدﷺ دوسرے کانام ابوبکر صدیقؓ اور تیسرے
کا عمرؓ ۔
|