🌹 اٰیات و مفہومِ اٰیات !! 🌹
🌹 الرٰ
تلک اٰیات
الکتٰب الحکیم 1
اکان للناس عجبا ان
اوحینا الٰی رجل منھم ان
انذرالناس وبشرالذین اٰمنوا
ان لھم قدم صدق عند ربھم قال
الکٰفرون ان ھٰذا لسٰحر مبین 2
علم و حکمت کی یہ کتابِ بے مثال اُسی قدیم نوشتہِ لازوال کا ایک مجموعہِ
علم و کمال ھے جس کو اللہ نے ہر ایک زمانے کے ہر ایک توشے اور ہر ایک زمین
کے ہر ایک گوشے سے اپنے رسول کے لیۓ جمع کیا ھے تاکہ وہ زمان و مکان کی اِس
کتابِ علم و حکمت کا انکار کرنے والوں کو اُِن کے انکار کے مَنفی نتائج سے
ڈراۓ اور اِس کتابِ علم و حکمت کا اقرار کرنے والوں کو اِن کے اقرار کے
مُثبت نتائج کی مُثبت خبریں سناۓ مگر کیا یہ حقیقت نہیں ھے کہ انسان اِس
کتابِ حکمت کے پیغامِ حکمت کو دیکھ کر صرف اِس بات پر ہی حیرت زدہ ہو گیا
ھے کہ ھم نے کس حکمت سے اِن نادان لوگوں کے درمیان سے ایک دانا مرد کو
مُنتخب کر کے اِس کام پر مامُور کر دیا ھے کہ وہ اِس کتابِ حیات کا انکار
کرنے والے انسانوں کے دلوں کو ارتقاۓ حیات کے آنے والے ناخوش گوار زمانوں
کے نا خوش گوار لَمحوں کی اذیت سے ڈراۓ اور اِس کتابِ حیات کا اقرار کرنے
والوں کے دلوں کو آنے والے خوش گوار زمانوں کے خوشگوار لَمحوں کی مُسرتوں
سے بہلاۓ اور اُن کو اِس اَمر کا یقین دلاۓ کہ حیات کے اِس سارے زمانے میں
جس انسان نے جو کمانا ھے اور جو کھانا ھے وہ ضرور کماۓ اور ضرور کھاۓ لیکن
اُس کے اِس کارِ جہان کا اصل معاوضہ اُس نے آنے والے ہر اُس زمانے میں پانا
ھے جس زمانے نے اُس کے سفرِ ارتقاء کے درمیان میں آنا ھے لیکن کیا یہ حقیقت
نہیں ھے کہ اِس کتاب کو ھمارے جس مُنکر نے ھمارے رسول سے سُنا ھے تو اُس نے
اِس کتابِ حکمت کو ایک جادُو اور اِس کے سُنانے والے رسول کو ایک جادُو گر
قرار دیا ھے !
🌹 مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات ! 🌹
قُرآنِ کریم کی 114 سُورتوں میں سے اللہ تعالٰی نے جن 6 سُورتوں کے نام
اپنے 6 اَنبیاۓ کرام کے نام پر رکھنے پسند کیۓ ہیں اُن سُورتوں میں سے پہلی
سُورت یہی سُورتِ یُونس ھے جس کا نام یُونس علیہ السلام کے نام پر رکھا گیا
ھے اور جو قُرآنِ کریم کی 114 سورتوں میں سے دسویں سُورت ھے ، دُوسری سُورت
جس کا نام ھُود علیہ السلام کے نام پر رکھا گیا ھے وہ سُورتِ ھُود ھے جو
قُرآنِ کریم کی 114 سورتوں میں سے گیارھویں سُورت ھے ، تیسری سُورت جس کا
نام یُوسف علیہ السلام کے نام پر رکھا گیا ھے وہ سُورہِ یُوسف ھے جو قُرآنِ
کریم کی 114 سورتوں میں سے بارھویں سُورت ھے ، چوتھی سُورت جس کا نام
ابراھیم علیہ السلام کے نام پر رکھا گیا ھے وہ سُورتِ ابراھیم ھے جو قُرآنِ
کریم کی 114 سورتوں میں سے چودھویں سُورت ھے ، پانچویں سُورت جس کا نام
سیدنا محمد علیہ السلام کے نامِ گرامی پر رکھا گیا ھے وہ سُورتِ محمد ھے جو
قُرآنِ کریم کی 114 سورتوں میں سے سینتالیسویں سُورت ھے اور چَھٹی سُورت جس
کا نام نُوح علیہ السلام کے نام پر رکھا گیا ھے وہ سُورتِ نُوح ھے جو
قُرآنِ کریم کی 114سورتوں میں سے اکھترویں سُورت ھے ، قُرآنِ کریم کی یہ
دسویں سُورت جس کا نام یُونس علیہ السلام کے نام پر رکھا گیا ھے اِس سُورت
کی اٰیت 98 میں اُن کا ذکر آۓ گا ، اِس مقام پر اتنا جان لینا ہی کافی ہو
گا کہ یُونس علیہ السلام کا زمانہ 790 قبل مسیح بیان کیا جاتا ھے جو سیدنا
محمد علیہ السلام کے زمانے سے 1360 سال پہلے کا زمانہ ھے ، سُورہِ یُونس کے
اِس مقام سے قبل یُونس علیہ السلام کا ذکر سُورةُالنساء کی اٰیت 163 ،
سُورةُ الاَنعام کی اٰیت 86 اور سُورہِ یُونس کے اِس مقام کے بعد
سُورةُالاَنبیاء کی اٰیت 87 ، سُورةُالصٰفٰت کی 139 اور سُورةُالقلم کی
اٰیت 48 میں بھی آیا ھے ، یُونس علیہ السلام فلسطین کے جنوبی علاقے گلیلی
کے شہر گاتھ ہیفر میں رہتے تھے اور اللہ تعالٰی نے اُن کو 28 سال کی عُمر
میں اسی جگہ سے اپنا نبی بنا کر نینوا جانے کاحُکم دیا تھا جو غالبا اُس
زمانے کا سب سے بڑا شہر تھا اور قُرآنِ کریم کی سُورةُالصٰفٰت کی اٰیت 147
کے مطابق اُس زمانے میں بھی اُس شہر کی آبادی ایک لاکھ سے زائد نفوس پر
مُشتمل تھی ، یُونس علیہ السلام کی اِس قوم میں یہ عجیب و غریب فکری تضاد
تھا کہ وہ یُونس علیہ السلام کو اللہ کا سَچا نبی مانتی تھی مگر یُونس علیہ
السلام پر نازل ہونے والے اُن اَحکام پر عمل کرنے میں پس و پیش کرتی رہتی
تھی جن اَحکامِ نازلہ پر عمل کرنا اُس پر لازم تھا ، یُونس علیہ السلام نے
اپنی اِس بے عمل قوم کو بار بار اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ پر عمل کر نے
کی تلقین کی مگر اُن کی قوم جو شاید اِن اَحکامِ نازلہ کو اپنی ترقی کی راہ
میں ایک رکاوٹ سمجھتی اِس لیۓ یُونس علیہ السلام کو سَچا نبی ماننے کے
باوجُود بھی اللہ کے سَچے اَحکام پر عمل کرنے سے ہمیشہ گریز کرتی رہی یہاں
تک کہ یُونس علیہ السلام نے اپنی قوم کو آگاہ کیا کہ اگر اِس قوم نے اللہ
کے قانون کے سامنے سر نہ جُھکایا تو چالیس روز کے بعد اِس پر اللہ کا عذاب
نازل ہو گا اور اِس کا شہر صفحہِ ہستی سے مٹا دیا جاۓ گا لیکن اُس سرکش قوم
نے عذاب کی اِس وعید کی بھی کوئ پروا نہ کی اور جب اللہ کا عذاب آنے میں
صرف تین دن رہ گۓ تو یُونس علیہ السلام شہر سے باہر چلے گۓ اور آپ کے شہر
چھوڑنے کے بعد اہلِ شہر پر اِس متوقع عذاب کا خوف اتنا بڑھ گیا کہ وہ قوم
اجتماعی توبہ کرنے میں مُنہمک ہو گئ اور اللہ تعالٰی نے اُس کی اجتماعی آہ
و زاری اور بیقراری پر رحم کھاتے ہوۓ اُس پر آنے والے عذاب کو روک دیا ،
انسانی تاریخ میں یہ پہلی اور آخری قوم ھے جس پر آیا ہوا عذاب آکر ٹلا ھے
اور بظاہر اِس کی اِس کے سوا کوئ وجہ نہیں ھے کہ وہ قوم کم از کم اللہ کے
نبی کو سَچا نبی سمجھتی تھی لیکن اَحکامِ نازلہ پر عمل کرنے سے عاری تھی
اور جب اُس نے اجتماعی طور پر سچی توبہ کر لی تو اللہ نے اُس قوم پر آنے
والے عذاب کو موقوف کر دیا ، کیونکہ اُس کی توبہ کا عمل بذاتِ خود اللہ سے
اِس بات کا عھد تھا کہ اَب وہ قوم اللہ کے احکام پر عمل کرے گی اور اُس کا
یہی عھد اور معاھدہ اللہ کے عذاب سے نجات کا باعث بنا تھا ، سُورت کا آغاز
جن حروفِ مقطعات " الرٰ " سے ہوا ھے اُن کا قابلِ فہم مفہوم ھم نے درج کر
دیا ھے ، مُحولہ بالا دو اٰیات میں جو دو باتیں بیان کی گئ ہیں اُن دو
باتوں میں پہلی بات اللہ کی کتابِ حکمت کی اٰیاتِ حکمت کے بارے میں ھے جس
کا مقصد انسان کو یہ باور کرانا ھے کہ اِس کتابِ حکمت سے اُن میں عقل و
دانائ گی جس کی انسان کو ضرورت ھے اور دُوسری بات مخاطبینِ وحی کی وہ بے
پناہ حیرت ھے جس کے باعث وہ اِن اٰیاتِ حکمت کو جادُو اور اِن اٰیاتِ حکمت
کے سنانے والے نبی کو جادُد گر کہنے لگے تھے ، آغازِ کلام میں وحی کی حکمت
اور وحی سے خالی ذھنوں کی حیرت کا ذکر اِس لیۓ کیا گیا ھے تاکہ جس کو حیرت
کا جتنا جھٹکا لگنا ھے وہ ابتدا ہی میں لگ جاۓ اور اِن اٰیات کے بعد جو
مزید حیرت انگیز واقعات آنے ہیں اُن کے سُننے کے لیۓ اِس کے کان تیار اور
اِس کے دل آمادہ ہو جائیں !!
|