ازقلم..... بابرالیاس
غزوہ خیبر( حصہ دوم) آخری
نوٹ.
اردو مجلس علمی و تعلیمی فورم سے بھاہی محمد نعیم صاحب ( رکن مکتبہ
اسلامیہ) کے قلم سے غزوہ خیبر اور اسکے ساتھ مزید دوسرے واقعات کا ﺫکر
تاریخ اور سال کے ساتھ آپکی نظر کر رہا ھوں دعا ھے کہ
اللہ پاک کمی معاف فرماۓ.آمین
وہ لکھتے ہیں کہ
خیبر، مدینہ کے شام میں تقریباً ایک سو میل کے فاصلے پر ایک بڑا شہر تھا۔
یہاں قلعے بھی تھے اور کھیتیاں بھی ۔ اب یہ ایک بستی رہ گئی ہے ۔ اس کی آب
و ہوا قدرے غیر صحت مند ہے ۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں جنگِ احزاب کے
تین بازوؤں میں سے سب سے مضبوط بازو (قریش) کی طرف سے پوری طرح مطمئن اور
مامون ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ بقیہ دو بازوؤں ۔۔
یہود اور قبائل نجد سے بھی حساب کتاب چکالیں تاکہ ہر جانب سے مکمل امن و
سلامتی حاصل ہو جائے اور پورے علاقے میں سکون کا دور دورہ ہو اور مسلمان
ایک پیہم خونریز کشمکش سے نجات پا کر اللہ کی پیغام رسانی اور اس کی دعوت
کے لیے فارغ ہو جائیں ۔
چونکہ خیبر سازشوں اور دسیسہ کاریوں کا گڑھ، فوجی انگیخت کا مرکز اور لڑانے
بھڑانے اور جنگ کی آگ بھڑکانے کی کان تھا اس لئے سب سے پہلے یہی مقام
مسلمانوں کی نگہِ التفات کا مستحق تھا ۔
رہا یہ سوال کہ خیبر واقعتہً ایسا تھا یا نہیں تو اس سلسلے میں ہمیں یہ
نہیں بھولنا چاہیئے کہ وہ اہل خیبر ہی تھے جو جنگ خندق میں مشرکین کے تمام
گروہوں کو مسلمانوں پر چڑھا لائے تھے ۔ پھر یہی تھے جنہوں نے بنو قریظہ کو
غدرو خیانت پر آمادہ کیا تھا ۔ نیز یہی تھے جنہوں نے اسلامی معاشرے کے
پانچویں کالم ، منافقین سے اور جنگ احزاب کے تیسرے بازو ۔۔۔۔ بنو غطفان اور
بدوؤں ۔۔۔۔۔ سے رابطہ پیہم قائم کر رکھا تھا اور خود بھی جنگ کی تیاریاں کر
رہے تھے ۔ اور اپنی ان کاروائیوں کے ذریعے مسلمانوں کو آزمائشوں میں ڈال
رکھا تھا یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شہید کرنے کا پروگرام
بنا لیا تھا ۔ ان حالات سے مجبور ہو کر مسلمانوں کو بار بار فوجی مہمیں
بھیجنی پڑی تھیں اور ان دسیسہ کاروں اور سازشیوں کے سربراہوں مثلاً سلام بن
ابی الحقیق اور اسیر بن زارم کا صفایا کرنا پڑا تھا ۔ لیکن ان یہود کے
متعلق مسلمانوں کا فرض درحقیقت اس سے بھی کہیں بڑا تھا۔ البتہ مسلمانوں نے
اس فرض کی ادائیگی میں قدرے تاخیر سے اس لئے کام کیا تھا کہ ابھی ایک قوت
۔۔۔۔ یعنی قریش ۔۔۔۔ جو اِن یہود سے زیادہ بڑی طاقتور ، جنگجو اور سرکش تھی
مسلمانوں کے مدمقابل تھی؛ اس لیے مسلمان اسے نظرانداز کرکے یہود کا رُخ
نہیں کر سکتے تھے ۔ لیکن جونہی قریش کے ساتھ اس محاذ آرائی کا خاتمہ ہوا ان
مجرم یہودیوں کے محاسبہ کے لیے فضا صاف ہو گئی اور ان کا یوم الحساب قریب
آگیا ۔
خیبر کو روانگی:
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ سے واپس
آکر ذی الحجۃ کا پورا مہینہ اور محرم کے چند دن مدینے میں قیام فرمایا ۔
پھر محرم کے باقی ماندہ ایام میں خیبر کے لیے روانہ ہوگئے ۔
مفسرین کا بیان ہے کہ خیبر اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا جو اس نے اپنے ارشاد کے
ذریعہ فرمایا تھا :
وَعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِیرَۃً تَاْخُذُونَہَا فَعَجَّلَ لَکُمْ
ہٰذِہ (20:48)
" اللہ نے تم سے بہت سے اموال غنیمت کا وعدہ کیا ہے جسے تم حاصل کرو گے تو
اس کو تمہارے لیے فوری طور پر عطا کردیا"
" جس کو فوری طور پر عطا کردیا " اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے اور " بہت سے
اموال غنیمت " سے مراد خیبر ہے ۔
اسلامی لشکر کی تعداد :
چونکہ منافقین اور کمزور ایمان کے لوگ سفر حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی رفاقت اختیار کرنے کے بجائے اپنے گھروں میں بیٹھ رہے تھے اس
لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے بارے میں حکم
دیتے ہوئے فرمایا:
سَیَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَی مَغَانِمَ
لِتَأْخُذُوہَا ذَرُونَا نَتَّبِعْکُمْ یُرِیْدُونَ أَن یُبَدِّلُوا
کَلَامَ اللَّہِ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا کَذَلِکُمْ قَالَ اللَّہُ مِن
قَبْلُ فَسَیَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا بَلْ کَانُوا لَا یَفْقَہُونَ
إِلَّا قَلِیْلاً (15:48)
"جب تم اموال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے گئے
لوگ کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو ۔ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی بات
بدل دیں ۔ ان سے کہہ دینا کہ تم ہر گز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے ۔ اللہ نے
پہلے ہی سے یہ بات کہہ دی ہے ۔ ( اس پر ) یہ لوگ کہیں گے کہ (نہیں ) بلکہ
تم لوگ ہم سے حسد کرتے ہو ۔ (حالانکہ حقیقت یہ ہے ) کہ یہ لوگ کم ہی سمجھتے
ہیں" ۔
چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی روانگی کا ارادہ فرمایا
تو اعلان فرمادیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف وہی آدمی روانہ ہو
سکتا ہے جسے واقعتاً جہاد کی رغبت اور خواہش ہے ۔ اس اعلان کے نتیجہ میں آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف وہی لوگ جا سکے جنہوں نے حدیبیہ میں درخت
کے نیچے بیعت رضوان کی تھی اور ان کی تعداد صرف چودہ سو (1400) تھی ۔
اس غزوے کے دوران مدینہ کا انتظام حضرت سباع بن عرفطہ غفاری رضی اللہ عنہ
کو ۔۔۔۔۔ اور ابن اسحاق کے بقول ۔۔۔۔۔ نُمَیلہ بن عبداللہ لیثی رضی اللہ
عنہ کو سونپا گیا تھا ۔ محققین کے نزدیک پہلی بات زیادہ صحیح ہے ۔
اسی موقع پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی مسلمان ہو کر مدینہ تشریف
لائے تھے ۔ اس وقت حضرت سباع بن عرفطہ رضی اللہ عنہ فجر کی نماز پڑھا رہے
تھے ۔ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ان کی خدمت میں
پہنچے انہوں نے توشہ فراہم کردیا اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ خدمت
نبوی میں حاضری کے لیے خیبر کی جانب چل پڑے ۔ جب خدمت نبوی میں پہنچے تو
(خیبر فتح ہو چکا تھا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے گفتگو
کرکے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کو بھی مال غنیمت میں
شریک کرلیا۔
یہود کے لیے منافقین کی سر گرمیاں :
اس موقع پر یہود کی حمایت میں منافقین نے بھی خاصی تگ و دو کی۔ چنانچہ راس
المنافقین عبداللہ بن ابی نے یہود خیبر کو یہ پیغام بھیجا کہ اب محمد صلی
اللہ علیہ وسلم نے تمہاری طرف رخ کیا ہے لہٰذا چوکنا ہو جاؤ ، تیاری کرلو
اور دیکھو ڈرنا نہیں کیونکہ تمہاری تعداد اور تمہارا ساز و سامان زیادہ ہے
اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء بہت تھوڑے اور تہی دست ہیں اور ان کے
پاس ہتھیار بھی بس تھوڑے ہی سے ہیں ۔
جب اہل خیبر کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے کنانہ بن ابی الحقیق اور ہوذہ بن
قیس کو حصول مدد کے لیے بنو غطفان کے پاس روانہ کیا ، کیونکہ وہ خیبر کے
یہودیوں کے حلیف اور مسلمانوں کے خلاف ان کے مددگار تھے ۔ یہود نے یہ بھی
پیشکش کی کہ اگر انہیں مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہو گیا تو خیبر کی نصف
پیداوار انہیں دی جائے گی ۔
خیبر کا راستہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو جاتے ہوئےجبل عِصر کو عبور کیا ۔
عِصر کے عین کو زیر ہے اور ص ساکن ہے ۔ اور کہا جاتا ہے کہ دونوں پر زبر ہے
۔ پھر وادی صہباء سے گزرے ۔ اس کے بعد ایک اور وادی میں پہنچے جس کا نام
رجیع ہے ( مگر یہ وہ رجیع نہیں ہے جہاں عضل و قارہ کی غداری سے بنو لحیان
کے ہاتھوں آٹھ صحابہ کرام کی شہادت اور حضرت زید و خبیب رضی اللہ عنہم کی
گرفتاری اور پھر مکہ میں شہادت کا واقعہ پیش آیا تھا ) ۔
رجیع سے بنو غطفان کی آبادی صرف ایک دن اور ایک رات کی دوری پر واقع تھی
اور بنو غطفان نے تیار ہو کر یہود کی امداد کے لیے خیبر کی راہ لے لی تھی۔
لیکن اثناء راہ میں انہیں اپنے پیچھے کچھ شور و شغب سنائی پڑا تو انہوں نے
سمجھا کہ مسلمانوں نے ان کے بال بچوں اور مویشیوں پر حملہ کر دیا ہے اس لیے
وہ واپس پلٹ گئے اور خیبر کو مسلمانوں کے لیے آزاد چھوڑ دیا ۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں ماہرینِ راہ کو بلایا
جو لشکر کو راستہ بتانے پر مامور تھے ۔ ان میں سے ایک کا نام حسیل تھا ۔ ان
دونوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا مناسب ترین راستہ معلوم کرنا چاہا
جسے اختیار کرکے خیبر میں شمال کی جانب سے یعنی مدینہ کے بجائے شام کی جانب
سے داخل ہو سکیں تاکہ اس حکمت عملی کے ذریعے ایک طرف تو یہود کے شام بھاگنے
کا راستہ بند کردیں اور دوسری طرف بنو غطفان اور یہود کے درمیان حائل ہوکر
ان کی طرف سے کسی مدد کی رسائی کے امکانات ختم کر دیں ۔
ایک راہنما نے کہا : " اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کو
ایسے راستہ سے لے چلوں گا" ۔ چنانچہ وہ آگے آگے چلا ۔ ایک مقام پر پہنچ کر
جہاں متعدد راستے پھوٹتے تھے عرض کیا : " یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
ان سب راستوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں" ۔ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ہر ایک کا نام بتائے ۔ اس نے بتایا کہ
ایک نام حزَن (سخت اور کھردرا ) ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر چلنا
منظور نہ کیا ۔ اس نے بتایا ، دوسرے کا نام شاش (تفرق و اضطراب والا ) ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی منظور نہ کیا۔ اس نے بتایا تیسرے کا نام
حاطب ( لکڑہارا ) ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی چلنے سے انکار
کر دیا ۔ حُسَیل نے کہا ، اب ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے ۔ حضرت عمر رضی
اللہ عنہ نے فرمایا : اس کا نام کیا ہے ؟ حُسَیل نے کہا ، مرحب ( کشادگی )
۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پر چلنا پسند فرمایا ۔
راستے کے بعض واقعات:
1۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کے ہمراہ خیبر روانہ ہوئے ۔ رات میں سفر طے ہو رہا تھا ۔ ایک آدمی نے
عامر رضی اللہ عنہ سے کہا : اے عامر ! کیوں نہ ہمیں اپنے کچھ نوادرات سناؤ؟
۔۔۔۔۔ عامر رضی اللہ عنہ شاعر تھے ۔۔۔۔ سواری سے اترے اورقوم کی حدی خوانی
کرنے لگے ۔ اشعار یہ تھے :
اَللّٰھُمَّ لَو لَا اَنتَ مَا اھتَدَینَا
وَلَا تَصَدَّقنَا وَلَا صَلَّینَا
فَا غفِر فِدَاءً لَکَ مَا اتَّقَینَا
وَ ثَبِّتِ الْاَ قدَامَ اِنْ لاَّ قَینَا
وَ اَلقِیَن سَکِینَۃً عَلَینَا
اِنَّا اِذَا صِیحَ بنا اَبِینَا
وَبِا لصِّیَاحِ عَوَّلُوْا عَلَیْنَا
" اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے ۔ نہ صدقہ کرتے نہ نماز
پڑھتے ۔ ہم تجھ پر قربان ! تو ہمیں بخش دے ، جب تک ہم تقویٰ اختیار کریں
اور اگر ہم ٹکرائیں تو ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہم پر سکینت نازل فرما ۔ جب
ہمیں للکارا جاتا ہے تو ہم اکڑ جاتے ہیں ۔ اور للکار میں ہم پر لوگوں نے
اعتماد کیا ہے " ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون حدی خوان ہے ؟ لوگوں نے
کہا : عامر بن اکوع ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ اس پر رحم
کرے ۔ قوم کے ایک آدمی نے کہا ، اب تو ( ان کی شہادت ) واجب ہو گئی ۔ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے وجود سے ہمیں بہرہ ور کیوں نہ فرمایا ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معلوم تھا کہ ( جنگ کے موقع پر ) رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کسی انسان کے لیے خصوصیت سے دعائے مغفرت کریں تووہ شہید
ہو جاتا ہے ,
اور یہی واقعہ جنگ خیبر میں (حضرت عامر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ) پیش آیا (
اسی لیے انہوں نے یہ عرض کی تھی کہ کیوں نہ ان کے لیے درازئ عمر کی دعاکی
گئی کہ ان کے وجود سے ہم مزید بہرہ ور ہوتے )۔
خیبر کے بالکل قریب وادئ صہبا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز
پڑھی ۔ پھر توشے منگوائے تو صرف ستو لائے گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
حکم سے ملائے گئے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھائے اور صحابہ رضی اللہ
عنہم نے بھی کھائے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب کے لیے
اٹھے تو صرف کلی کی ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی کلی کی ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور وضو نہیں فرمایا ,
(پچھلے ہی وضو پر اکتفا کیا۔ ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز
ادا فرمائی ۔
اسلامی لشکر خیبر کے دامن میں :
مسلمانوں نے آخری رات جس کی صبح جنگ شروع ہوئی خیبر کے قریب گزاری لیکن
یہود کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ
جب رات کے وقت کسی قوم کے پاس پہنچتے تو صبح ہوئے بغیر ان کے قریب نہ جاتے
۔ چنانچہ اس رات جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلس ( اندھیرے )
میں فجر کی نماز ادا فرمائی ۔ اس کے بعد مسلمان سوار ہو کر خیبر کی طرف
بڑھے ۔ ادھر اہلِ خیبر بے خبری میں اپنے پھاوڑے اور کھانچی وغیرہ لے کر
اپنی کھیتی باڑی کے لیے نکلے تو اچانک لشکر دیکھ کر چیختے ہوئے شہر کی طرف
بھاگے کہ خدا کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر سمیت آگئے ہیں ۔ نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے ( یہ منظر دیکھ کر ) فرمایا : " اللہ اکبر ! خیبر تباہ
ہوا ۔ اللہ اکبر خیبر تباہ ہوا ۔ جب کسی قوم کے میدان میں اتر پڑتے ہیں تو
ان ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہو جاتی ہے "۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کے پڑاؤ کے لیے ایک جگہ کا انتخاب فرمایا ۔
اس پر حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے آکر عرض کیا ، یا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم ! یہ بتلائیے کہ اس مقام پر اللہ نے آپ کو پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا
ہے یا یہ محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی تدبیر اور رائے ہے ؟ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، نہیں یہ محض ایک رائے اور تدبیر ہے ۔ انہوں نے
کہا : " اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ مقام قلعۂ نطاۃ سے بہت ہی
قریب ہے ۔ اور خیبر کے سارے جنگ جو افراد اسی قلعے میں ہیں ۔ انہیں ہمارے
حالات کا پورا پورا علم رہے گا اور ہمیں ان کے حالات کی خبر نہ ہوگی ۔ ان
کے تیر ہم تک پہنچ جائیں گے اور ہمارے تیر ان تک نہ پہنچ سکیں گے ۔ ہم ان
کے شب خون سے بھی محفوظ نہ رہیں گے ۔ پھر یہ مقام کھجوروں کے درمیان ہے ،
پستی میں واقع ہے اور یہاں کی زمیں بھی وبائی ہے ، اس لیے مناسب ہوگا کہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی جگہ پڑاؤ ڈالنے کا حکم فرمائیں جو اِن مفاسد
سے خالی ہو ۔ اور ہم اسی جگہ منتقل ہوکر پڑاؤ ڈالیں " ۔ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا ، تم نے جو رائے دی بالکل درست ہے ۔ اس کے بعد آپ صلی
اللہ علیہ وسلم دوسری جگہ منتقل ہو گئے ۔
نیز جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ شہر دکھائی
پڑنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ، ٹھہر جاؤ ۔ لشکر ٹھہر گیا ۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی ۔
اَللّٰھُمَّ رَبَّ السّٰمٰوٰتِ السَّبْعِ وَمَا اَظلَلنَ وَرَبَّ
الاَرضِینَ السَّبعِ وَمَا اَقلَلنَ وَرَبَّ الشَّیَاطِین وَمَا اَضلَلنَ
فَاِنَّا نَسئَلُکَ خَیرَ ھٰذِہِ القَریَۃِ وَخَیرَ اَھْلِھَا وَخَیرَ مَا
فِیھَا وَنَعُوذُبِکَ مِن شَرِّ ھٰذِہِ القَریَۃِ وَشَرِّ اَھلِھَا وَ
شَرِّ مَا فِیھَا
" الے اللہ ! ساتوں آسمان اور جن پر وہ سایہ فگن ہیں ، ان کے پرور دگار !
اور ساتوں زمین ، اور جن کو وہ اٹھائے ہوئے ہیں ، ان کے پروردگار ! اور
شیاطین ، اور جن کو انہوں نے گمراہ کیا ، ان کے پروردگار ! ہم تجھ سے اس
بستی کی بھلائی اس کے باشندوں کی بھلائی کا سوال کرتے ہیں ۔ اور اس بستی کے
شر سے اور اس کے باشندوں کے شر سے ، اور اس میں جو کچھ ہے اس کے شر سے تیری
پناہ مانگتے ہیں۔"
( اس کے بعد فرمایا : چلو ) اللہ کے نام سے آگے بڑھو ۔
جنگ کی تیاری اور خیبر کے قلعے:
جس رات خیبر کی حدود میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے فرمایا :"
میں کل جھنڈا ایک ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے ۔ اور جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم محبت کرتے ہیں "۔ صبح ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ہر ایک یہی آرزو باندھے اور آس لگائے
تھا کہ جھنڈا اسے مل جائے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہاں ہیں ؟ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! ان
کی تو آنکھ آئی ہوئی ہے, فرمایا انہیں بلا لاؤ۔ وہ لائے گئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور دعا
فر مائی ۔ وہ شفا یاب ہوگئے ۔ گویا انہیں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں ۔ پھر
انہیں جھنڈا عطا فرمایا ۔ انہوں نے عرض کیا : " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم ! میں ان سے اس وقت تک لڑوں کہ وہ ہمارے جیسے ہوجائیں ؟ " آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا " اطمینان سے جاؤ یہاں تک کہ ان کے میدان میں اترو ؛
پھر انہیں اسلام کی دعوت دو اور اسلام میں اللہ کے جو حقوق ان پر واجب ہوتے
ہیں ان سے آگاہ کرو ۔ بخدا تمہارے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو بھی ہدایت
دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے " ۔
خیبر کی آبادی دو منطقوں میں بٹی ہوئی تھی ۔ ایک منطقے میں حسب ذیل پانچ
قلعے تھے ۔
1۔ حصن ناعم 2۔ حصن صعب بن معاذ 3۔ حصن زبیر 4۔ حصن ابی 5۔ حصن نزار
ان میں سے مشہور تین قلعوں پر مشتمل علاقہ نطاۃ کہلاتا تھا اوربقیہ دو
قلعوں پر مشتمل علاقہ شق کے نام سے مشہور تھا ۔
خیبر کی آبادی کا دوسرا منطقہ کتیبہ کہلاتا تھا ۔ اس میں صرف تین قلعے تھے
:
1۔ حصن قموص (یہ قلعہ بنو نضیر کے خاندان ابوالحقیق کا قلعہ تھا ) 2۔ حصن
وطیح 3۔ حصن سلالم ۔
ان آٹھ قلعوں کے علاوہ خیبر میں مزید قلعے اور گڑھیاں بھی تھیں مگر وہ
چھوٹی تھیں اور قوت و حفاظت میں ان قلعوں کے ہم پلہ نہ تھیں ۔
جہاں تک جنگ کا تعلق ہے تو وہ صرف پہلے منطقے میں ہوئی ۔ دوسرے منطقے کے
تینوں قلعے لڑنے والوں کی کثرت کے باوجود جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں کے حوالے
کر د ئیے گئے ۔
معرکے کا آغاز اور قلعہ ناعم کی فتح :
مذکورہ بالا آٹھ قلعوں میں سے سب سے پہلے قلعہ ناعم پر حملہ ہوا ۔ کیونکہ
یہ قلعہ اپنے محل وقوع کی نزاکت اور اسٹراٹجی کے لحاظ سے یہود کی پہلی
دفاعی لائن کی حیثیت رکھتا تھا اور یہی قلعہ مَرحَب نامی اس شہ زور اور
جانباز یہودی کا قلعہ تھا جسے ایک ہزار مردوں کے برابر مانا جاتا تھا ۔
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی فوج لے کر اس قلعے کے سامنے
پہنچے اور یہود کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے یہ دعوت مسترد کردی اور
اپنے بادشاہ مرحب کی کمان میں مسلمانوں کے مدمقابل آ کھڑے ہوئے ۔ میدان جنگ
میں اتر کر پہلے مرحب نے دعوت مبازرت دی جس کی کیفیت سلمہ بن اکوَع رضی
اللہ عنہ نے یوں بیان کی ہے کہ جب ہم لوگ خیبر پہنچے تو ان کا بادشاہ مرحب
اپنی تلوار لے کر نازو تکبر کے ساتھ اٹھلاتا اور یہ کہتا ہوا نمودار ہوا :
قَد عَلِمَت خَیبَرُ اَنِّی مَرْحَبُ
شَا کِی السِلَاحِ بَطَل مُجَرَّبُ
اِذَا الحُرُوبُ اَقبَلَت تَلَھَّبُ
" خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں ۔ ہتھیار پوش ، بہادر اور تجربہ کار !
جب جنگ و پیکار شعلہ زن ہو " ۔
اس کے مقابل میرے چچا عامر رضی اللہ عنہ نمودار ہوئے اور فرمایا ۔
قد علمت خیبر انی عامر
شاکی السلاح بطل معامر
" خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں ۔ ہتھیار پوش ، شہ زور اور جنگجو "
پھر دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیا ۔ مرحب کی تلوار میرے چچا عامر رضی اللہ
عنہ کی ڈھال میں جا چبھی اور عامر رضی اللہ عنہ نے اسے نیچے سے مارنا چاہا
لیکن ان کی تلوار چھوٹی تھی ۔ انہوں نے یہودی کی پنڈلی پر وار کیا تو تلوار
کا سرا پلٹ کر ان کے گھٹنے پر آ لگا اور بالآخر اسی زخم سے ان کی موت واقع
ہو گئی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیاں اکٹھی کر کے ان کے
بارے میں فرمایا کہ ان کے لیے دوہرا اجر ہے ۔ وہ بڑے جانباز مجاہد تھے ۔ کم
ہی ان جیسا کوئی عرب روئے زمین پر ہوا ہوگا "
بہر حال حضرت عامر رضی اللہ عنہ کے زخمی ہو جانے کے بعد مرحب کے مقابلے کے
لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے ۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ
کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار کہے :
اَنَا الَّذِی سَمَّتنِی اُمِّی حَیْدَرَہ
کَلَیثِ غَابَاتٍ کَرِیہِ المَنظَرَہ
اُو فِیھِمِ بِا لصَّاعِ کَیلَ السَّندَرَہ
" میں وہ شخص ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر ( شیر ) رکھا ہے ۔ جنگل کے
شیر کی طرح خوفناک ۔ میں انہیں صاع کے بدلے نیزے کی ناپ پوری کروں گا "۔
اس کے بعد مرحب کے سر پر ایسی تلوار ماری کہ وہیں ڈھیر ہو گیا ۔ پھر حضرت
علی رضی اللہ عنہ ہی کے ہاتھوں فتح حاصل ہوئی ۔
جنگ کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ یہود کے قلعہ کے قریب پہنچے تو قلعہ کی
چوٹی سے ایک یہودی نے جھانک کر پوچھا تم کون ہو ؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : میں علی بن ابی طالب ہوں ۔ یہود نے کہا :
اس کتاب کی قسم جو موسٰی علیہ السلام پر نازل کی گئی ! تم لوگ بلند ہوئے ۔
اس کے بعد مرحب کا بھائی یاسر یہ کہتے ہوئے نکلا کہ کون ہے جو میرا مقابلہ
کرے گا ۔ اس کے اس چیلنج پر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ میدان میں اترے ۔ اس پر
ان کی ماں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا ، یا رسول اللہ ! کیا میرا بیٹا
قتل کیا جائے گا ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ! بلکہ تمہارا بیٹا اسے قتل کرے گا
۔ چنانچہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے یاسر کو قتل کر دیا ۔
اس کے بعد حصن ناعم کے پاس زور دار جنگ ہوئی جس میں کئی سربرآوردہ یہودی
مارے گئے اور بقیہ یہود میں تابِ مقاومت نہ رہی ۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کا
حملہ نہ روک سکے ۔ بعض مآخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ کئی دن جاری رہی
اور اس میں مسلمانوں کو شدید مقاومت کا سامنا کرنا پڑا ۔ تاہم یہود ،
مسلمانوں کو زیر کرنے سے مایوس ہو چکے تھے اس لیے چپکے چپکے اس قلعے سے
منتقل ہوکر قلعہ صعب میں چلے گئے اور مسلمانوں نے قلعہ ناعم پر قبضہ کرلیا
۔
قلعہ صعب بن معاذ کی فتح :
قلعہ ناعم کے بعد ، قلعہ صعب قوت و حفاظت کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا مضبوط
قلعہ تھا ۔ مسلمانوں نے حضرت حُباب بن منذر انصاری رضی اللہ عنہ کی کمان
میں اس قلعہ پر حملہ کیا اور تین روز تک اسے گھیرے میں لیے رکھا ۔ تیسرے دن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قلعہ کی فتح کے لیے خصوصی دعا فرمائی ۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ قبیلہ اسلم کی شاخ بنو سہم کے لوگ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : ہم لوگ چور ہو چکے ہیں
۔۔۔ اور ہمارے پاس کچھ نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "
یااللہ ! تجھے ان کا حال معلوم ہے ۔ تو جانتا ہے کہ ان کے اندر قوت نہیں
اور میرے پاس بھی کچھ نہیں کہ میں انہیں دوں ۔ لہٰذا انہیں یہود کے ایسے
قلعے کی فتح سے سرفراز فرما جو سب سے زیادہ کار آمد ہو اور جہاں سب سے
زیادہ خوراک اور چربی دستیاب ہو "۔ اور جب دعا فرمانے کے بعد نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اِس قلعے پر حملے کی دعوت دی تو حملہ کرنے میں
بنو اسلم ہی پیش پیش تھے ۔ اس حملے میں بھی قلعے کے سامنے مبازرت اور مار
کاٹ ہوئی ۔ اللہ عزو جل نے سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے قلعہ صعب بن معاذ کی
فتح عطا فرمائی ۔ خیبر میں کوئی قلعہ ایسا نہ تھا جہاں اس قلعے سے ذیادہ
خوراک اور چربی موجود ہو (12) ۔ مسلمانوں نے اس قلعے میں بعض منجنیقیں اور
دبابے (13) بھی پائے ۔
ابنِ اسحاق کی اس روایت میں جس شدید بھوک کا تذکرہ کیا گیا ہے اس کا یہ
نتیجہ تھا کہ لوگوں نے ( فتح حاصل ہوتے ہی ) گدھے ذبح کر دئیے اور چولہوں
پر ہنڈیاں چڑھا دیں ۔ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم
ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھے کے گوشت سے منع فرما دیا ۔
قلعہ زبیر کی فتح :
قلعہ ناعم اور قلعہ صعب کی فتح کے بعد یہود نطاۃ کے سارے قلعوں سے نکل کر
قلعہ زبیر میں جمع ہو گئے ۔ یہ ایک محفوظ قلعہ تھا ۔ اور پہاڑ کی چوٹی پر
واقع تھا راستہ اتنا پُر پیچ اور مشکل تھا کہ یہاں نہ سواروں کی رسائی ہو
سکتی تھی اور نہ پیادوں کی اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے
گرد محاصرہ قائم کیا اور تین روز تک محاصرہ کیے پڑے رہے ۔ اس کے بعد ایک
یہودی نے آکر کہا : " اے ابو القاسم ! اگر آپ ایک مہینہ تک محاصرہ جاری
رکھیں تو بھی انہیں کوئی پروا نہ ہوگی ۔ البتہ ان کے پینے کا پانی اور چشمے
زمین کے نیچے ہیں ۔ یہ رات میں نکلتے ہیں پانی پی لیتے اور لے لیتے ہیں پھر
قلعے میں واپس چلے جاتے ہیں اور آپ سے محفوظ رہتے ہیں ۔ اگر آپ ان کا پانی
بند کر دیں تو یہ گھٹنے ٹیک دیں گے " ۔ اس اطلاع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ان کا پانی بند کردیا ۔ اس کے بعد یہود نے باہر آکر زبردست جنگ کی جس
میں کئی مسلمان مارے گئے اور تقریباً دس یہودی بھی کام آئے لیکن قلعہ فتح
ہوگیا ۔
قلعہ ابی کی فتح :
قلعہ زبیر سے شکست کھانے کے بعد یہود ، حصنِ ابی میں قلعہ بند ہوگئے ۔
مسلمانوں نے اس کا بھی محاصرہ کرلیا ۔ اب کی بار دو شہ زور جاں باز یہودی
یکے بعد دیگرے دعوت مبازرت دیتے ہوئے میدان میں اترے اور دونوں ہی مسلمان
جاں بازوں کے ہاتھوں مارے گئے ۔ دوسرے یہودی کے قاتل سرخ پٹی والے مشہور
جانفروش حضرت ابودجانہ سماک بن خرشہ انصاری رضی اللہ عنہ تھے ۔ وہ دوسرے
یہودی کو قتل کرکے نہایت تیزی سے قلعے میں جا گھسے اور ان کے ساتھ ہی
اسلامی لشکر بھی قلعے میں جا گھسا ۔ قلعے کے اندر کچھ دیر تک تو زور دار
جنگ ہوئی لیکن اس کے بعد یہودیوں نے قلعے سے کھسکنا شروع کردیا اور بالآخر
سب کے سب بھاگ کر قلعہ نزار میں پہنچ گئے ، جو خیبر کے نصف اول ( یعنی پہلے
منطقے ) کا آخری قلعہ تھا ۔
قلعہ نزار کی فتح :
یہ قلعہ علاقے کا سب سے مضبوط قلعہ تھا اور یہود کو تقریباً یقین تھا کہ
مسلمان اپنی انتہائی کوشش صَرف کردینے کے باوجود اس قلعہ میں داخل نہیں ہو
سکتے ۔ اس لیے اس قلعے میں انہوں نے عورتوں اور بچوں سمیت قیام کیا جبکہ
سابقہ چار قلعوں میں عورتوں اور بچوں کو نہیں رکھا گیا تھا۔
مسلمانوں نے اس قلعے کا سختی سے محاصرہ کیا اور یہود پر سخت دباؤ ڈالا لیکن
قلعہ چونکہ ایک بلند اور محفوظ پہاڑی پر واقع تھا اس لیے اس میں داخل ہونے
کی کوئی صورت بن نہیں پڑ رہی تھی ۔ ادھر یہود قلعے سے باہرنکل کر مسلمانوں
سے ٹکرانے کی جراءت نہیں کر رہے تھے ۔ البتہ تیر برسا برسا کر اور پتھر
پھینک پھینک کر سخت مقابلہ کر رہے تھے ۔
جب اس قلعہ (نزار ) کی فتح مسلمانوں کے لیے زیادہ دشوار محسوس ہونے لگی تو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منجنیق کے آلات نصب کرنے کا حکم فرمایا ۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے چند گولے پھینکے بھی جس سے قلعے کی
دیواروں میں شگاف پڑ گیا اور مسلمان اندر گھس گئے ۔ اس کے بعد قلعے کے اندر
سخت جنگ ہوئی ۔ اور یہود نے فاش اور بدترین شکست کھائی ۔ وہ بقیہ قلعوں کی
طرح اس قلعے سے چپکے چپکے کھسک کر نہ نکل سکے بلکہ اس طرح بے محابا بھاگے
کہ اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی ساتھ نہ لے جا سکے اور انہیں مسلمانوں کے
رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔
اس مضبوط قلعے کی فتح کے بعد خیبر کا نصف اول یعنی نطاۃ اور شق کا علاقہ
فتح ہو گیا ۔ اس علاقے میں چھوٹے چھوٹے کچھ مزید قلعے بھی تھے لیکن ا س
قلعے کے فتح ہوتے ہی یہودیوں نے ان باقی ماندہ قلعوں کو بھی خالی کردیا اور
شہر خیبر کے دوسرے منطقے یعنی کتیبہ کی طرف بھاگ گئے ۔
خیبر کے نصف ثانی کی فتح :
نطاۃ اور شق کا علاقہ فتح ہو چکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتیبہ
وطیح اور سلالم کے علاقے کا رخ کیا ۔ سلالم بنو نضیر کے ایک مشہور یہودی
ابو الحقیق کا قلعہ تھا ۔ ادھر نطاۃ اور شق کے علاقے سے شکست کھا کر بھاگنے
والے سارے یہودی بھی یہیں پہنچے تھے ۔ اور نہایت ٹھوس قلعہ بندی کر لی تھی
۔
اہل مغازی کے درمیان اختلاف ہے کہ یہاں کے تینوں قلعوں میں سے کسی قلعے پر
جنگ ہوئی یا نہیں ؟ ابن اسحاق کے بیان میں یہ صراحت ہے کہ قلعہ قموص کو فتح
کرنے کے لیے جنگ لڑی گئی ، بلکہ اس کے سیاق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ
قلعہ محض جنگ کے ذریعے فتح کیا گیا اور یہودیوں کی طرف سے خود سپردگی کے
لیے یہاں کوئی بات چیت نہیں ہوئی ۔
لیکن واقدی نے دو ٹوک لفظوں میں صراحت کی ہے کہ اس علاقے کے تینوں قلعے بات
چیت کے ذریعے مسلمانوں کے حوالے کیے گئے ۔ ممکن ہے قلعہ قموص کی حوالگی کے
لیے کسی قدر جنگ کے بعد گفت و شنید ہوئی ہو ۔ البتہ باقی دونوں قلعے کسی
جنگ کے بغیر مسلمانوں کے حوالے کیے گئے ۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس علاقے ۔۔۔ کتیبہ ۔۔۔ میں تشریف لائے تو
وہاں کے باشندوں کا سختی سے محاصرہ کیا ۔ یہ محاصرہ چودہ روز جاری رہا ۔
یہود اپنے قلعوں سے نکل ہی نہیں رہے تھے ۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے قصد فرمایا کہ منجنیق نصب فرمائیں ۔ جب یہود کو تباہی کا یقین
ہو گیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کے لیے سلسلۂ
جنبانی کی ۔
صلح کی بات چیت :
پہلے ابن ابی الحُقَیق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا
کہ کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بات چیت کر سکتا ہوں ؟ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ہاں ! اور جب یہ جواب ملا تو اس نے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر اس شرط پر صلح کرلی کہ قلعے میں جو فوج ہے اس
کی جان بخشی کر دی جائے گی اور ان کے بال بچے انہیں کے پاس رہیں گے ( یعنی
انہیں لونڈی اور غلام نہیں بنایا جائے گا ) بلکہ وہ اپنے بال بچوں کو لے کر
خیبر کی سر زمین سے نکل جائیں گے اور اپنے اموال ، باغات ، زمینیں ، سونے ،
چاندی ، گھوڑے ، زرہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کر دیں گے
، صرف اتنا کپڑا لے جائیں گے جتنا ایک انسان کی پشت اٹھا سکے ۔ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اور اگر تم لوگوں نے مجھ سے کچھ چھپایا
تو پھر اللہ اور اس کے رسول بریٔ الذمہ ہوں گے " ۔ یہود نے یہ شرط منظور کر
لی اور مصالحت ہو گئی ,اس مصالحت کے بعد تینوں قلعے مسلمانوں کے حوالے کر
دیے گئے اور اس طرح خیبر کی فتح مکمل ہو گئی ۔
ابو الحقیق کے دونوں بیٹوں کی بد عہدی اور ان کا قتل :
ابو الحقیق کے دونوں بیٹوں کی بد عہدی اور ان کا قتل :
اس معاہدے کے علی الرغم ابو الحقیق کے دونوں بیٹوں نے بہت سا مال غائب کر
دیا ۔ ایک کھال غائب کردی جس میں حُیَی بن اّخطَب کے زیورات تھے ۔ اسے
حُیَی بن اّخطَب مدینہ سے بنو نضیر کی جلا وطنی کے وقت اپنے ہمراہ لایا تھا
۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کنانہ بن ابی
الحقیق لایا گیا ۔ اس کے پاس بنو نضیر کا خزانہ تھا ۔ لیکن آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے دریافت کیا تو اس نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ اسے
خزانے کی جگہ کے بارے میں کوئی علم ہے ۔ اس کے بعد ایک یہودی نے آکر بتایا
کہ میں کنانہ کو روزانہ اس ویرانے کا چکر لگاتے ہوئے دیکھتا تھا ۔ اس پر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنانہ سے فرمایا : " یہ بتاؤ کہ اگر یہ
خزانہ ہم نے تمہارے پاس سے بر آمد کرلیا تو پھر تو ہم تمہیں قتل کر دیں گے
ناں ؟ " اس نے کہا ، جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ویرانہ کھودنے کا
حکم دیا اور اس سے کچھ خزانہ برآمد ہوا ۔ پھر باقی ماندہ خزانہ کے متعلق آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا تو اس نے پھر ادائیگی سے انکار کر دیا ۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیا
اور فرمایا : اسے سزا دو ، یہاں تک کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ سب کا سب
ہمیں حاصل ہو جائے ۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کے سینے پر چقماق کی
ٹھوکریں ماریں یہاں تک کہ اس کی جان پر بن آئی ۔ پھر اُسے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیا ۔ اور انہوں
نے محمود بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے بدلے اس کی گردن مار دی ( محمود رضی
اللہ عنہ سایہ حاصل کرنے کے لیے قلعہ ناعم کی دیوار کے نیچے بیٹھے تھے کہ
اس شخص نے ان پر چکی کا پاٹ گرا کر انہیں قتل کر دیا تھا ۔)
ابنِ قیّم کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوالحقیق کے
دونوں بیٹوں کو قتل کرا دیا تھا اور ان دونوں کے خلاف مال چھپانے کی گواہی
کنانہ کے چچیرے بھائی نے دی تھی ۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُیَی بن اَخطب کی صاحبزادی حضرت صفیہ
کو قیدیوں میں شامل کرلیا ۔ وہ کنانہ بن ابی الحقیق کی بیوی تھیں اور ابھی
دلہن تھیں ۔ ان کی حال ہی میں رخصتی ہوئی تھی ۔
اموالِ غنیمت کی تقسیم :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو خیبر سے جلاوطن کرنے کا ارادہ
فرمایا تھا اور معاہدہ میں یہی طے بھی ہوا تھا ۔ مگر یہود نے کہا : " اے
محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں اسی سر زمیں میں رہنے دیجیئے ۔ ہم ا سکی
دیکھ ریکھ کریں گے ۔ کیونکہ ہمیں آپ لوگوں سے زیادہ اس کی معلومات ہیں "۔
ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے پاس اتنے غلام نہ تھے
جو اس زمین کی دیکھ ریکھ اور جوتنے بونے کا کام کرسکتے اور نہ خود صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم کو اتنی فرصت تھی کہ یہ کام سر انجام دے سکتے ۔ اس لیے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین اس شرط پر یہود کے حوالے کر دی کہ
ساری کھیتی اور تمام پھلوں کی پیداوار کا آدھا یہود کو دیا جائے گا اور جب
تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی ہوگی اس پر برقرار رکھیں گے ( اور
جب چاہیں گے جلاوطن کر دیں گے ) اس کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ
عنہ خیبر کی پیداوار کا تخمینہ لگایا کرتے تھے ۔
خیبر کی تقسیم ا س طرح کی گئی کہ اسے 36 حصوں میں بانٹ دیا گیا ۔ ہر حصہ
ایک سو حصوں کا جامع تھا ۔ اس طرح کل تین ہزار چھ سو(3600) حصے ہوئے ۔ اس
میں سے نصف یعنی اٹھارہ سو حصے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں
کے تھے ۔ عام مسلمانوں کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی صرف ایک
ہی حصہ تھا ۔ باقی یعنی اٹھارہ سو حصوں پر مشتمل دوسرا نصف ، رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات و حوادث کے لیے الگ کر لیا
تھا ۔ اٹھارہ سو حصوں پر خیبر کی تقسیم اس لیے کی گئی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی
طرف سے اہل حدیبیہ کے لیے ایک عطیہ تھا ، جو موجود تھے ان کے لیے بھی اور
جو موجود نہ تھے ان کے لیے بھی ، اور اہل حدیبیہ کی تعداد چودہ سو تھی ۔ جو
خیبر آتے ہوئے اپنے ساتھ دو سو گھوڑے لائے تھے ۔ چونکہ سوار کے علاوہ خود
گھوڑے کو بھی حصہ ملتا ہے اور گھوڑے کا حصہ ڈبل یعنی دو فوجیوں کے برابر
ہوتا ہے اس لیے خیبر کو اٹھارہ سو حصوں پر تقسیم کیا گیا تو دو سو شہسواروں
کو تین تین حصے کے حساب سے چھ سو ملے تھے اور بارہ سو پیدل فوج کو ایک ایک
حصے کے حساب سے بارہ سو حصے ملے
خیبر کے اموال غنیمت کی کثرت کا اندازہ صحیح بخاری میں مروی ابن عمر رضی
اللہ عنہ کی اس روایت سے ہوتا ہے کہ انہوں نے فرمایا : " ہم لوگ آسودہ نہ
ہوئے یہاں تک کہ ہم نے خیبر فتح کیا " ۔ اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
کی اس روایت سے ہوتا ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب خیبر فتح ہوا تو ہم نے کہا
، اب ہمیں پیٹ بھر کر کھجور ملے گی, نیز جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
مدینہ واپس تشریف لائے تو مہاجرین نے انصار کو کھجوروں کے وہ درخت واپس کر
دیے جو انصار نے امداد کے طور پر انہیں دے رکھے تھے کیونکہ اب ان کے لیے
خیبر میں مال اور کھجور کے درخت ہو چکے تھے,
حضرت جعفر بن ابی طالب اور اشعری صحابہ کی آمد:
حضرت جعفر بن ابی طالب اور اشعری صحابہ کی آمد:
اسی غزوے میں حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے
۔ ان کے ساتھ اشعری مسلمان یعنی حضرت ابو موسیٰ اور ان کے رفقاء بھی تھے
رضی اللہ عنہم ۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یمن میں ہمیں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کا علم ہوا تو ہم لوگ یعنی میں اور میرے دو
بھائی اپنی قوم کے پچاس آدمیوں سمیت اپنے وطن سے ہجرت کرکے ایک کشتی پر
سوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ ہوئے لیکن ہماری کشتی نے
ہمیں نجاشی کے ملک حبشہ میں پھینک دیا۔ وہاں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور ان
کے رفقاء سے ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ہمیں بھیجا ہے اور یہیں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے اور آپ لوگ بھی ہمارے ساتھ
ٹھہر جائیے ۔ چنانچہ ہم لوگ بھی ان کے ساتھ ٹھہر گئے اور خدمتِ نبوی میں اس
وقت پہنچ سکے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر فتح کر چکے تھے ۔ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ہمارا بھی حصہ لگایا لیکن ہمارے علاوہ کسی بھی شخص کا جو فتح
خیبر میں موجود نہ تھا ، کوئی حصہ نہیں لگایا ۔ صرف شرکاءِ جنگ ہی کا حصہ
لگایا ۔ البتہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کے ساتھ ہماری کشتی
والوں کا بھی حصہ لگایا اور ان کے لیے بھی مالِ غنیمت تقسیم کیا۔
اور جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا استقبال کیا اور انہیں بوسہ دے کر
فرمایا : واللہ میں نہیں جانتا کہ مجھے کس بات کی خوشی زیادہ ہے ؟ خیبر کی
فتح کی یا جعفر کی آمد کی ۔
یاد رہے کہ ان لوگوں کو بلانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت
عَمرو بن امیّہ ضمری رضی اللہ عنہ کو نجاشی کے پاس بھیجا تھا اور اس سے
کہلوایا تھا کہ وہ ان لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روانہ کردے ۔
چنانچہ نجاشی نے دو کشتیوں پر سوار کرکے انہیں روانہ کردیا ۔ یہ کل سولہ
آدمی تھے اور ان کے ساتھ ان کے باقی ماندہ بچے اور عورتیں بھی تھیں ۔ بقیہ
لوگ اس سے پہلے مدینہ آچکے تھے ۔
حضرت صَفِیَّہ رضی اللہ عنہا سے شادی :
ہم بتاچکے ہیں کہ جب حضرت صفیہ کا شوہر کنانہ بن ابی الحقیق اپنی بد عہدی
کے سبب قتل کر دیا گیا تو حضرت صفیہ قیدی عورتوں میں شامل کر لی گئیں ۔ اس
کے بعد جب یہ قیدی عورتیں جمع کی گئیں تو حضرت دِحیہ بن خلیفہ کلبی رضی
اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا : اے اللہ کے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے قیدی عورتوں میں سے ایک لونڈی دے دیجیئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جاؤ اور ایک لونڈی لے لو ۔ انہوں نے جا
کر حضرت صفیہ بنت حُیی کو منتخب کرلیا ۔ اس پر ایک آدمی نے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ
نے بنی قُرَیظہ اور بنی نضیر کی سیدہ صفیہ کو دِحیہ کے حوالے کردیا حالانکہ
وہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا : دِحیَہ رضی اللہ عنہ کو صفیہ سمیت بلاؤ ۔ حضرت دِحیَہ رضی اللہ
عنہ ان کو ساتھ لئے حاضر ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر
حضرت دِحیَہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ قیدیوں میں سے کوئی دوسری لونڈی لے
لو ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ پر اسلام پیش کیا ۔ انہوں نے
اسلام قبول کر لیا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کرکے
ان سے شادی کرلی اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا ۔ مدینہ واپسی
میں سِدِّ صہباء پہنچ کر حیض سے پاک ہو گئیں ۔ اس کے بعد حضرت ام سُلَیم
رضی اللہ عنہا نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آراستہ کیا اور رات
کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
دولہے کی حیثیت سے ان کے ہمراہ صبح کی اور کھجور ، گھی اور ستو ملا کر
ولیمہ کھلایا۔ اور راستہ میں تین روز شب ہائے عروسی کے طور پر ان کے پاس
قیام فرمایا , اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چہرے پر ہرا نشان
دیکھا، دریافت فرمایا:" یہ کیا ہے ؟ " کہنے لگیں یا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم ! آپ کے خیبر آنے سے پہلے میں نے خواب دیکھا تھا کہ چاند اپنی
جگہ سے ٹوٹ کر میری آغوش میں آگرا ہے ۔ بخدا ، مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کے معاملے کا کوئی تصور بھی نہ تھا ۔ لیکن میں نے یہ خواب اپنے شوہر سے
بیان کیا تو اس نے میرے چہرے پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا : " یہ بادشاہ جو
مدینہ میں ہے تم اس کی آرزو کر رہی ہو "۔
زہر آلود بکری کا واقعہ :
خیبر کی فتح کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مطمئن اور یکسو ہو چکے
تو سلام بن مشکم کی بیوی زینب بنت حارث نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس
بھنی ہوئی بکری کا ہدیہ بھیجا ۔ اس نے پوچھ رکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کون سا عضو زیادہ پسند کرتے ہیں ، اور اسے بتایا گیا تھا کہ دستہ
؛ اس لیے اس نے دستے میں خوب زہر ملا دیا تھا اور اس کے بعد بقیہ حصہ بھی
زہر آلود کر دیا تھا ۔ پھر اسے لے کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے دستہ اٹھا کر اس کا ایک ٹکڑا چبایا لیکن نگلنے کی بجائے تھوک دیا ۔ پھر
فرمایا کہ یہ ہڈی مجھے بتلا رہی ہے کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے ۔ اس کے بعد
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب کو بلایا تو اس نے اقرار کر لیا ۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے کہا میں نے سوچا کہ
اگر یہ بادشاہ ہے تو ہمیں ا س سے راحت مل جائے گی اور اگر نبی ہے تو اسے
خبر دے دی جائے گی ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا ۔
اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت بشر بن براء بن معرور رضی
اللہ عنہ بھی تھے ۔
انہوں نے ایک لقمہ نگل لیا تھا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہو گئی.
|