بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
حکومتیں تو طاقت کے ساتھ ہی چلتی ہیں۔ حکومت حکمت سے جڑی ہے۔ جب معاشرے میں
ہرج و مرج کا خدشہ ہو تو اکثریت کی فلاح کی خاطر اقلیت پر طاقت نافذ کی
جاتی ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ حکومتی انتظامیہ کی پالیسز مجموعی طور پر
معاشرے میں فلاح و خیر کی ضامن ہیں یا مجموعی طور پر فساد کا پیش خیمہ ثابت
ہورہی ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ حکومت فوجی ہو یا سول، مذہبی ہو یا فلسفی
افراد کی وغیرہ حکومت اور حکمرانوں کی اہلیت کا معیار معاشرے میں فساد کی
روک تھام اور انسانی فطرت کے مطابق مجموعی طور پر مسرت و شادمانی اور
اطمینان کے اسباب کی فراہمی سے ہے۔
زرعی دور کے بعد جب عالمی انسانی گروہوں نے معاشرتی نظم و ضبط کی خاطر ایک
مرکزی انتظامیہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس انتظامیہ کے اراکین کی اہلیت
یہی ہونی چاہیے کہ وہ انسان کے فردی اور معاشرتی مسائل کو جانتے ہوں،
انسانی جبلتوں اور فطرت سے آگاہ ہوں نیز ان جبلتوں اور فطری ضروریات کیلئے
معاشرے میں طویل المدتی فلاح کے قیام کی خاطر ایسی قوانین کا اطلاق کریں جو
معاشرے کی سعادت اور اطمینان کی ضامن ہوں۔۔۔۔ البتہ اس کے ساتھ خود معاشرے
کے افراد کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی فطری اور جبلی ضرورتوں کو پہچانتے
ہوں اور ان کی تکمیل کیلئے کوئی نظریہ رکھتے ہوں۔ یہ نظریہ ہوس و شہوت
پرستی، لالچ، دھوکہ و فریب، غرور، وغیرہ سے ہٹ کر دیانتداری کے ساتھ اپنے
اور اپنے ہم جنسوں کی ان فطری و جبلی ضروریات کی تکمیل سے وابستہ ہو۔ ان
افراد کو اپنی فردی نفسیات کے ساتھ معاشرتی نفسیات سے آگاہی بھی ضروری ہے
اور مادّی اجسام کی مادّی ضروریات سے آگاہی بھی ضروری ہے۔ نیز ترقی و سعادت
کی راہوں، مصادر کا بھی علم ہو۔
مجموعی طور پر جب معاشرے کے افراد اس علم ودانش اور شعور سے بہرہ ور
ہوجائیں تو پھر حقیقی جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے۔ اس علمی و فکری
مرحلے کو عبور کیے بنا اکثریت کی رائے اندھوں کی رائے کہلاتی ہے۔ صرف سفلی
خواہشات کی بنیاد پر کسی کی حمایت یا انکار معاشرے کی تباہی سے وابستہ ہے۔
لہذا ضروری ہے کہ حکومت کیلئے جب حکمرانوں کا چناؤ کیا جائے تو دانش و
اعلیٰ انسانی اقدار کی بنیاد پر کیا جائے جو اسی وقت ممکن ہے جب معاشرے کی
مجموعی آبادی دانش و علم دوست ہو، حکمت پرور ہو رذالتوں اور پستیوں سے اوپر
اٹھ کر سوچتی ہو۔ ایسا معاشرہ جب جمہوری انداز اپنائے گا تو معاشرے میں
فلاح و خیر، عدل و عدالت کا راج ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے کے مجموعی اہداف بلند
عزائم سے مربوط ہوتے ہیں اور صرف کھانے پینے اور دیگر مادّی فلاح کی بنیاد
پر نہیں ہوتے۔ البتہ مادّی فلاح حکیمانہ اور دانش مند زندگی کیلئے بہت
بنیادی وسیلہ ہے مگر وسیلہ کو ہدف بنانا ناکامی سے دوچار کرتا ہے اور یہ
حرکت غیر فطری قوانین پر عمل کرنے کے باعث نہ صرف فرد بلکہ معاشرے کو بھی
نابود کردیتی ہے۔ تاریخی تجربوں سے عیاں ہے کہ مذہبی افراد میں ہی یہ فطری
صلاحیت ہے کہ وہ معاشرے کو منظم کرسکتے ہیں اور مادّی ضرورتوں میں عدل و
انصاف کے ساتھ روحانی ضروریات کو بھی پورا کرسکتے ہیں۔ جب بھی مذہبی
پیشوائی دیانت داری، صداقت اور امانت داری کے ساتھ عمل میں آئی معاشرے فلاح
و اطمینان اور عشق و دانش کے گلستان بن گئے۔ انسانی فطرت نعمتوں کی فراوانی
میں باغی ہوجاتی ہے۔ اور یہ بغاوت صرف اس صورت میں کنٹرول میں رہتی ہے جب
انسان خود کو خالق کائنات کے آگے جوابدہ ہونے پر یقین رکھتا ہے اور صرف
زبانی دعوؤں اور دماغی یقین نہیں بلکہ اس کا مظاہرہ عملی میدان میں بھی
کرتا ہے۔ رذالتوں بھرے عمل انجام دینے سے خوف خدا ہی روکتا ہے۔ تقوا اور
پرہیز گاری، زاہد فی الدنیا فرد کے پاس دنیا کا سارا سونا جواہرات بھی دے
دئے جائیں تو وہ عبد کی منزل سے گرتا نہیں۔ البتہ یہ توفیق الہٰی خدا کی
دین ہوتی ہے اور اس منصب پر قائم رہنے کیلئے ضروری ہے کہ ایسی پیغمبرانہ
صلاحیتوں کے افراد اس کی برقراری کیلئے دعا و توسل نیز عقلی و نفسانی
ریاضتوں کو اپنا ہر وقت کا لائحہ عمل بنالیں۔
جب انسان خود کو طاقت ور سمجھ بیٹھتا ہے اور اپنے سے زیادہ طاقت ور خالق کو
فراموش کردے اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں ظلم و جبر، شہوت رانیاں اور
فساد پروری شروع ہوجائے تو معاشرے تنزلی کی راہ پر قدم رکھ دیتے ہیں۔ یہ
اصول فردی زندگی کیلئے جتنا کارآمد ہے اتنا ہی حکومتی سطح پر بھی لاگو ہوتا
ہے۔
خود احتسابی کے نتیجے میں عمل کو علم کی روشنی میں سعادت مندی کی جانب
رکھنا اور صراط مستقیم سے انحراف نہ کرنا اور اس میں ہر وقت مشغولیت ہی
کامیابی اور فلاح کی کنجی ہے۔
|