|
|
شیف فاطمہ 8 اگست 1989 کو لاہور میں پیدا ہوئیں ۔ان کی
والدہ کا یہ کہنا ہے کہ ان کی بیٹی فاطمہ کو پانچ سال کی تھیں تو ان کی
اسکول ٹیچر اکثر انکو ہوم ورک کے طور پر کھانے کی ریسیپی کے طور پر ایک
تصویر دیتی تھیں اور اس کو وہ کپ کیک ، سینڈوچ یا دیگر آسان سی ڈش اپنی
چھٹی والے دن بنانی ہوتی تھی ۔فاطمہ اس ریسیپی کا بے چینی سے انتظار کرتی
تھی اور جمعہ کے دن جب ریسیپی لے کر گھر آتی تھی اور اس کی تیاری میں جت
جاتی تھی ۔ |
|
رفتہ رفتہ یہ ریسیپی کی ایک تصویر سے فاطمہ ترقی کرتے
کرتے ریسیپی کی کتاب تک پہنچ گئی جو کہ وہ اپنے اسکول کی لائبریری سے لے کر
آتی اور اس کے بعد ہم ماں بیٹی مارکیٹ سے اس کی ریسیپی کا سامان لے کر آتے
اور وہ کھانا بناتی ۔ اس کو کھانے پکانے سے عشق تھا ۔ |
|
فاطمہ کا شیف بننا کسی کے لیۓ بھی حیرت کی بات نہ تھا
کیوں کہ خاندان کے سب ہی لوگ اس کے اس شوق سے واقف تھے ۔ وہ جب بھی پریشان
ہوتی یا کسی کو خوش کرنا چاہتی تو اس کے لیے کھانا بناتی اور اس کے سامنے
اس طرح پیش کرتی کہ وہ فرد خود کو بہت اہم سمجھنے لگتا تھا ۔ دوسرے لفظوں
میں فاطمہ کھانے کی طاقت اور اس کے جادو سے واقف تھی- |
|
فاطمہ کی امی کا اس حوالے سے مزید یہ بھی کہنا تھا کہ جب
فاطمہ صرف نو سال کی تھی ان دنوں وہ آسٹن سے کراچی شفٹ ہوئے تھے اور جب وہ
گاڑی میں فاطمہ اور اس کے بھائی کو اسکول سے لینے جاتیں تو اکثر ٹریفک جام
میں پھنس جاتیں تو اس خیال سے انہوں نے بچوں کے لیۓ گاڑی ہی میں چپس اور
جوس کے پیکٹ رکھنے شروع کر دیے تھے۔ ایک دن جب فاطمہ نے جوس پینے کے لیۓ اس
کے ڈبے میں اسٹرا لگائی تو ایک چھوٹا سا بچہ گاڑی کے پاس مانگنے کے لیے
آگیا جس کو دیکھ کر فاطمہ نے مجھ سے تقاضا کیا کہ ان بچوں کو بھی کچھ دیا
جائے ۔ |
|
|
|
اس موقع پر وہ لوگ اس بچے کو لے کر کھڈا مارکیٹ چلے گئے
اور وہاں ہوٹل سے اس بچے کو دال روٹی لے کر دینے لگی ۔ اس وقت نو سالہ
فاطمہ نے میری طرف ناراضگی سے دیکھا اور کہا کہ یہ کیا ہے میں ان بچوں کو
ٹریٹ دینا چاہتی ہوں جس سے یہ خوش ہوں ۔ دال روٹی کھانے سے یہ کیسے خوش ہو
سکتے ہیں اور اس وقت درجنوں کے حساب سے ایک دکان سے برگر بنوا کر ہم نے
وہاں موجود بچوں میں بانٹے ۔ درحقیقت فاطمہ جانتی تھی کہ وہ کھانے کے ذریعے
لوگوں میں خوشیاں کیسے تقسیم کر سکتی ہے- |
|
صرف سولہ سال کی عمر ہی میں وہ 60 سے زیادہ لوگوں کے لیے
تنہا کھانا بنا سکتی تھی ۔اور پھر اس نے مجھ سے عام تعلیم کے بجائے باقاعدہ
کوکنگ سیکھنے اور اس کے بارے میں پڑھنے کی فرمائش کر دی اور میں جانتی تھی
کہ میں اس کو نہیں روک پاؤں گی اور اس نے امریکہ کے کلنیری انسٹیٹیوٹ میں
داخلہ لے لیا۔ جہاں انہوں نے پہلی پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل کیا جس نے
ٹاپ شیف مقابلے میں حصہ لیا ۔ |
|
جب فاطمہ نے لاہور میں اپنا ریسٹورنٹ شروع کیا تو اس وقت
اس کے ساتھ کام کرنے والے مردوں کا یہ کہنا تھا کہ فاطمہ کا کھانا بنانے کا
انداز مثالی ہوتا تھا ۔ وہ مردوں کی طرح گوشت بنانے سے لے کر بھاری وزن
اٹھاتیں اور مچھلی بھی صاف کر لیتی تھی۔ فاطمہ کے خواب بہت بڑے تھے اور
شائد وہ جانتی تھی کہ اس کے پاس ان خوابوں کو پورا کرنے کا وقت بہت کم ہے- |
|
اسی دوران اس کے بائیں بازو میں درد کی شکایت ہوئی تو اس
کو یہی لگا کہ رات میں ٹھیک سے نہ رکھنے کے سبب یہ درد ہے یا پھر اس کی وجہ
کوئی بھاری کام کرنا ہو سکتا ہے لیکن اس وقت یہ انکشاف ہوا کہ فاطمہ ایک
بہت ہی نایاب بیماری ایویگ سارکوما میں مبتلا ہے جو کہ کینسر کی ایک قسم ہے
جو سفید فام لڑکوں کو ہوتا ہے۔ مگر یہ نامراد بیماری میری بیٹی فاطمہ کر
کیسے لگ گئی میں نہیں جانتی جب ہم زندگی کے اس صدمے کا مقابلہ کر رہے تھے
تب بھی فاطمہ کا حوصلہ قابل دید تھا وہ ہاسپٹل کے کمرے میں نرسز اور ڈاکٹرز
کو بلا کر ٹاپ شیف کے اپنے مقابلے کے بارے میں بتاتی تھی اور اس شو کو
دکھاتی تھی- |
|
|
|
کیموتھراپی اس کو کمزور کر رہی تھی اس کے ارد گرد نالیوں ، تاروں اور
مشینوں کا جال سا بچھتا جا رہا تھا اتنی بیماری اس کو چڑچڑا ، بد مزاج اور
غصہ ور بھی بنا سکتی تھی لیکن اس کے برعکس اس کے سکون میں اضافہ ہوتا گیا ۔
وہ کھانے کے لیے اپنے پسندیدہ دال چاول اور شامی کباب کا مطالبہ کرتی یا
پھر چاکلیٹ کیک کا ایک سلائس کھا کر خوش ہو جاتی ۔ کھانا اس کی زندگی کے
لیے ایک خوشی ، ایک امید ایک آس تھی- |
|
مہینوں کے بعد جب ہم اس کو واپس گھر لے کر آئے تو اس کا پہلا مطالبہ وہی
تھا جو اس نے نو سال کی عمر میں مجھ سے کیا تھا ۔ کہ لاہور میں تین سو بچوں
کو سرفہرست برانڈڈ برگر شاپ سے برگر کھلائے جائيں ۔ دوسروں کو کھانا کھلا
کر خوشی پانے کا یہ شوق اس کا مرتے دم تک قائم رہا ۔ |
|
اس کی والدہ کا لکھنا تھا کہ میں اس کی کمی بہت محسوس کرتی ہوں اور مجھے اس
کی خوشبو ہر پل اپنے اردگرد محسوس ہوتی ہے ایک ماں کے لیے اپنی اولاد کو
کھونا بالکل اس طرح ہوتا ہے جیسے اس کے اندر سے اس کی جان نکال لی جائے
لیکن فاطمہ مرنے سے قبل میری زندگی کو ایک مقصد سے باندھ گئی- |
|
اس نے لوگوں میں کھانے کے ذریعے خوشیاں بانٹنے کا سبق دیا اس کے مرنے کے
بعد فاطمہ کی والدہ نے شیف فاطمہ فاونڈیشن کی بنیاد رکھی جس کا مقصد غریب
لوگوں میں کھانے کے ذریعے خوشیاں بانٹنا تھا ۔اس کے ساتھ ساتھ اس فاؤنڈیشن
کے تحت ایسی خواہشمند اور غریب لڑکیوں کو کھانا پکانے کی تربیت بھی فراہم
کی جاتی ہے جو کہ اس کو افورڈ نہیں کر سکتیں ۔ |