’’میں ایک دن ضرور رہا ہو جاؤں گا‘‘٬ ڈینیئل پرل کو اغوا اور قتل کیسے کیا گیا؟ پس پردہ کہانی

image
ڈینیئل پرل
 
پاکستانی سپریم کورٹ کی جانب سے ڈینیئل پرل کے قتل کے الزام میں گرفتار احمد عمر سعید شیخ اور دیگر ملزمان کی رہائی کے حکم کے بعد میری نظروں کے سامنے پھر ایک بار وہ تمام واقعات آ گئے، جن کا میں رفعت سعید عینی شاہد ہوں۔
 
امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کے الزام میں گرفتار احمد عمر سعید شیخ سمیت دیگر ملزمان کو قید ہی میں رکھنے کی بظاہر آخری کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی اور پاکستانی سپریم کورٹ نے عمر شیخ کو رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر نظرثانی کی استدعا کی ہے۔ اس سے قبل پاکستانی سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ملزمان کی رہائی سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھنے کا حکم سنایا تھا۔ یہ خبر سنتے ہی ڈینیئل پرل کے اغوا اور اس کے بعد رونما ہونے والے بہت سے واقعات میری نظروں کے سامنے گھومنے لگے۔ میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ سزائے موت کا حکم سنائے جانے کے بعد شیخ عمر نے حیدر آباد جیل میں ڈی ڈبلیو سے ایک مختصر سی گفتگو میں کہا تھا، ’’میں ایک دن ضرور رہا ہو جاؤں گا۔‘‘ یہ بلاگ اس کیس کے بہت سے غیر منکشف پہلوؤں کو سامنے لانے کی ایک ذاتی صحافتی کوشش ہے۔
 
image
رفعت سعید
 
امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل سے وابستہ ڈینیئل پرل پاکستان میں ایک حساس نوعیت کی اسٹوری پر کام کر رہے تھے، جو منشیات کی اسمگلنگ اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کے افغان جنگ میں استعمال سے متعلق تھی۔ اس حوالے سے پرل پہلی مرتبہ 2001ء میں پاکستان آئے تھے۔ دوسری مرتبہ وہ چند ماہ بعد جنوری 2002ء میں پاکستان آئے اور ان کی آمد کا مقصد ’منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی رقوم اور جہاد کے باہمی تعلق‘ سے متعلق ایک تحقیقاتی رپورٹ تھا۔
 
ڈینیئل پرل کا راولپنڈی میں وسیم نامی شخص سے رابطہ ہوا اور یہ برطانوی نژاد احمد عمر شیخ تھا، جو وسیم کے فرضی نام سے پرل کے ساتھ رابطے میں آیا تھا۔ پرل کو اپنی اسٹوری کے لیے کسی شیخ مبارک نامی شخص کی تلاش تھی۔ عمر شیخ نے اس شخص سے ملوانے کا وعدہ کر لیا اور پھر کچھ دن بعد عمر شیخ نے پرل سے کہا کہ شیخ مبارک ان دنوں کراچی میں تھا اور ان دونوں کو کراچی جانا ہو گا۔ ڈینیئل پرل کراچی پہنچ گئے اور وہاں انہوں نے ڈیفنس سوسائٹی زمزمہ انکلوژر میں ایک گھر کرائے پر لے لیا جہاں ان کی اہلیہ ماریانا پرل بھی ان کے ساتھ ہی مقیم تھیں۔
 
عصرہ نعمانی کون ہیں؟
انہی دنوں وال اسٹریٹ جرنل کے لیے فری لانس کام کرنے والی عصرہ نعمانی، جو پہلے بھی کئی مرتبہ پاکستان آچکی تھیں، کراچی پہنچ گئیں۔ عصرہ نعمانی فری لانس صحافی ہونے کے علاوہ بچوں کی ’کامکس ڈیزائنر‘ بھی تھیں اور یہی بات ان کے پرل کی اہلیہ سے مراسم بڑھنے کا سبب بنی۔ عصرہ نعمانی موون پک (شیریٹن ہوٹل) میں مقیم تھیں۔ ڈینیئل پرل نے انہیں اپنے گھر کی انیکسی میں منتقل ہونے کی دعوت دی تاکہ انہیں کسی اسٹوری پر کام کرنے کے لیے رابطے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔
 
ادھر ڈینیئل پرل کو وسیم (عمر شیخ) نے شیخ مبارک سے ملاقات کے لیے بلوا لیا۔ عمر نے پرل کو میٹروپول ہوٹل کے عقب میں ولیج ریسٹورنٹ کے باہر ملاقات کے لیے کہا۔ جب پرل وہاں پہنچے تو شیخ عمر نے انہیں ساجد بڈھا نامی ایک شخص سے ملوایا، جو انہیں ایک ٹیکسی میں بٹھا کر کسی نامعلوم مقام پر لے گیا۔
 
ساجد بڈھا نے پرل کو سپر ہائی وے پر احسن آباد میں واقع ایک نرسری پر لے جا کر خالد شیخ میمن کے حوالے کر دیا۔ تب پرل کے اغوا کے بعد بعض عرب نوجوان بھی وہاں آئے تھے۔ ایک رات جب پرل نے وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کی تو خالد شیخ میمن اور دیگر افراد نے انہیں گلے پر چھری پھیر کر قتل کر دیا۔ جب یہ قتل کیا جا رہا تھا تو اس کی ایک ویڈیو بھی بنائی گئی۔ کچھ دیر بعد پتا چلا کہ کسی وجہ سے ویڈیو ریکارڈنگ نہیں ہو سکی تو گلا کاٹنے کے عمل کو دوبارہ ریکارڈ کرنے کے لیے مردہ ڈینیئل پرل کے گلے پر پھر سے چھری چلائی گئی۔ تب تک پولیس سرگرمی سے پرل کو تلاش کر رہی تھی اور ساتھ ہی احمد عمر شیخ کو بھی۔
 
image
وسیم (عمر شیخ)
 
اغوا کے بعد پولیس نے پرل کے گھر اضافی ٹیلی فون لائنیں بھی لگوا دیں تھیں تا کہ اگر اغوا کار کوئی رابطہ کریں تو ان کا سراغ لگایا جا سکے۔ پولیس نے اس صحافی کو بھی اسلام آباد سے بلوا لیا تھا، جس نے پرل کے ساتھ بطور معاون کام کیا تھا یا اس کی شیخ مبارک سے ملاقات کروانے کی کوشش کی تھی۔ اس دوران میں بھی فوری طور پر ڈینیئل پرل کی قیام گاہ پر پہنچا تو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افسران کے علاوہ اسپیشل برانچ کے ایس ایس پی دوست علی بلوچ بھی وہاں موجود تھے۔
 
دریں اثناء روزنامہ ڈان کو ڈینیئل پرل کی تصاویر موصول ہوئیں، جن میں وہ بیٹھے ہوئے دیکھے جا سکتے تھے۔ تب تک پولیس جان چکی تھی کہ پرل کے اغوا میں مبینہ طور پر ملوث وسیم دراصل عمر شیخ ہے۔ پولیس نے عمر شیخ کی تلاش میں پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں ایک گھر پر چھاپا مارا، جو ناکام رہا۔ یہ گھر عمر شیخ کی پھوپھو کا تھا اور عمر کا وہاں آنا جانا تھا۔
 
تفتیشی افسر اور ایس ایس پی دوست علی بلوچ نے یہ سراغ لگا لیا تھا کہ روزنامہ ڈان کو تصاویر کون کہاں سے بھیج رہا تھا۔ سن 2002ء میں انٹرنیٹ کا نظام بہت مؤثر نہیں تھا۔ ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا کہ تصاویر گلستان جوہر میں کسی موڈیم کو استعمال کر کے روزنامہ ڈان کو ای میل کی گئی تھیں۔ حساس اداروں کی مدد سے پولیس نے ایک گھر پر چھاپا مارا اور تین نوجوانوں کو گرفتار کر لیا۔
 
ان نوجوانوں کے کمپیوٹر میں ڈان اخبار کو بھیجی گئی تصاویر محفوظ تھیں۔ پولیس نے سختی سے پوچھ گچھ کی تو انکشاف ہوا کہ ان تینوں کی ذمے داری صرف اخبار کو تصاویر ای میل کرنا تھی۔ ان میں سے ایک نوجوان نے بتایا تھا کہ وہ قریبی مسجد میں نماز کے لیے جاتا تھا اور ایک نامعلوم شخص اس کے برابر کھڑا ہو کر نماز ادا کرتا اور تصاویر کا لفافہ وہاں چھوڑ جاتا تھا۔
 
ایف بی آئی کی مدد کس نے کی؟
ابھی تفتیش جاری تھی کہ پولیس کو معلوم ہوا کہ احمد عمر شیخ کے خاندان پر دباؤ کے نتیجے میں اس نے لاہور کے ایک ڈسٹرکٹ جج، جو ان کے عزیز تھے، کی مدد سے اس وقت کے ہوم سیکرٹری پنجاب بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے سامنے پیش ہو کر گرفتاری دے دی ہے۔ پھر کراچی پولیس کے ایس ایس پی فاروق اعوان عمر شیخ کو لاہور سے بذریعہ ہوائی جہاز کراچی لائے تھے۔
 
طیارے کو کراچی ایئر پورٹ کے پرانے ٹرمینل پر روکا گیا۔ عمر شیخ کے دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔ پولیس کی گاڑیاں رن وے پر جہاز کے پاس کھڑی کی گئی تھیں اور عمر شیخ کو ایک بکتر بند گاڑی میں بٹھا کر تفتیش کے لیے سی آئی اے سینٹر منتقل کر دیا گیا۔
 
پولیس افسران عمر شیخ سے تفتیش کرنے میں گھبرا رہے تھے۔ اس تفتیش میں ڈی آئی جی میر زبیر محمود اور ایس ایس پی فاروق اعوان بھی شامل تھے لیکن عمر شیخ کسی سوال کا جواب نہیں دے رہا تھا۔
 
میری ذاتی معلومات کے مطابق ایس ایس پی فاروق اعوان نے عمر شیخ کو گالی دی تو جواباﹰ اس نے فاروق اعوان کو مکا مارا تھا۔ فاروق اعوان زمانہ طالب علمی کے باکسنگ چیمپئن کے مکے سے لڑکھڑا گئے اور زمین پر گر گئے تھے۔ اس کے بعد وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے عمر شیخ کو بہت پیٹا تھا۔ بعد میں عمر شیخ نے انکشاف کیا تھا کہ ڈینیئل پرل کو قتل کیا جا چکا تھا۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ پرل کو جن لوگوں کے حوالے کیا گیا تھا، انہوں نے اسے کہاں رکھا تھا۔ اس وقت پولیس کی کئی ٹیمیں ڈینیئل پرل کی تلاش میں مصروف تھیں۔
 
کراچی میں امریکی قونصلیٹ کے حکام نے شیریٹن ہوٹل میں اپنا کیمپ آفس بنا رکھا تھا۔ ایف بی آئی کی ایک ٹیم بھی سراغ لگانے کے لیے سرگرم تھی۔ ہوٹل کی کافی شاپ امریکی اور پاکستانی حکام سے بھری رہتی تھی۔ اس دوران ایف بی آئی کی ٹیم سے کسی پاکستانی نیوز ایجنسی کے ایک فرد نے رابطہ کیا کہ کچھ لوگ ڈینیئل پرل سے متعلق ایک سی ڈی امریکیوں کو دینا چاہتے تھے مگر اس کا اچھا معاوضہ چاہتے تھے۔ اس اطلاع پر تو پاکستانی اور امریکی حکام میں کھلبلی مچ گئی تھی۔
 
ڈینیئل پرل کے قتل کی ویڈیو فراہم کرنے والے کون تھے؟
اس دوران صحافی خالد مارشل کا رابطہ کراچی کے میریئٹ ہوٹل میں مقیم سی این بی سی کی ایک ٹیم سے ہوا۔ ان کی خواہش تھی کہ پرل سے متعلق سی ڈی کا بہتر معاوضہ ملے تو سی ڈی لانے والے نوجوانوں کی خواہش پوری ہو جائے گی۔ ابھی بات جاری تھی کہ ان کے چیف ایڈیٹر محسن بیگ نے خالد مارشل سے کہا کہ وہ ایف بی آئی کی ٹیم سے رابطہ کریں کیوں کہ ان دنوں محسن بیگ امریکا میں کسی ذاتی معاملے میں ایف بی آئی کی تفتیش اور نگرانی میں تھے اور پاکستان نہیں آ سکتے تھے۔
 
انہوں نے ایف بی آئی حکام سے ڈیل کی کہ اگر وہ پرل کے قتل کی سی ڈی پاکستان میں ایف بی آئی حکام کو دلوا دیں اور لاش کا سراغ لگانے میں مدد کریں، تو ان پر عائد الزامات واپس لے کر ایف بی آئی انہیں پاکستان لوٹنے کی اجازت دے دے گی۔
 
نیو یارک میں امریکی حکام نے پہلے کوئی جواب نہ دیا مگر جب یہ اطلاع پاکستانی حکام کو دی گئی تو محسن بیگ کی پیشکش قبول کر لی گئی۔ تب خالد مارشل وہ سی ڈی لے کر شیریٹن ہوٹل پہنچے تو وہ ویڈیو فارمیٹ کی وجہ سے چلی نہیں تھی۔ بعد میں اسے ایک چھوٹے ڈیجیٹل ویڈیوکیم پر منتقل کر کے چلایا گیا، تو اس میں ڈینیئل پرل کا گلا کاٹ کر اسے قتل کرنے کی ویڈیو محفوظ تھی۔
 
امریکی حکام نے پہلے ویڈیو کے اصل ہونے کی تصدیق کی اور بعد میں نیو یارک میں محسن بیگ کو حسب وعدہ پاکستان لوٹنے کی اجازت دے دی گئی۔ تب پاکستانی حکام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ڈینیئل پرل کی لاش کی برآمدگی تھا۔ انہوں نے خالد مارشل پر دباؤ ڈالا کہ وہ ان کی مدد کرے، مگر ان کا کہنا تھا کہ ان تک یہ سی ڈی صرف امریکیوں کو دینے اور معاوضہ وصول کرنے کے لیے بھجوائی گئی تھی۔
 
ڈینیئل پرل کی لاش کیسے ملی؟
 پاکستانی حکام خصوصاً پرل کے اغوا کے تفتیش کار اس ڈیل پر خوش نہیں تھے۔ ایف بی آئی کو امریکی قونصلیٹ پر حملہ کرنے والے اور پاکستانی حکام کو 2001 میں کراچی میں دہشت گردی اور بم دھماکوں میں ملوث گروہ کی تلاش تھی۔ امریکی اور پاکستانی حکام کی خواہش تھی کہ خالد مارشل ان کی مدد کرے۔ بقول خالد مارشل ان کے لیے یہ مدد کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ جب اس کیس کی تفتیش کرنے والے ایس ایس پی منظور مغل نے خالد مارشل کو گرفتار کرنے کی کوشش کی، تو وہ محسن بیگ کی ہدایت پر ان کے قریبی دوست اور اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے معتمد اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر طارق عزیز کے پاس اسلام آباد چلے گئے، جس کے بعد پولیس کا دباؤ کم ہو گیا تھا۔
 
انہی دنوں اس وقت کے انسداد دہشت گردی کے شعبے کے ڈی ایس پی فیاض خان ناظم آباد میں کسی دہشت گرد کی تلاش میں تھے۔ معلوم ہوا کہ مطلوب شخص کو ناظم آباد میں گھر کرائے پر دلوانے والا کوئی فضل کریم نامی شخص تھا۔ تب پولیس کو سامنے سے ایک باریش شخص آتا نظر آیا۔ سادہ کپڑے پہنے ہوئے پولیس اہلکار نے اس سے پوچھا کہ فضل کریم کہاں رہتا تھا؟ اس شخص نے کہا کہ وہی فضل کریم تھا۔ بعد ازاں دوران تفتیش فضل کریم نے پولیس کو بتایا کہ اسے مطلوب دہشت گرد کا تو کوئی علم نہیں تھا مگر وہ یہ جانتا تھا کہ امریکی صحافی ڈینیئل پرل کی لاش کہاں دفنائی گئی تھی۔ پولیس فضل کریم کی نشاندہی پر 16 مئی 2002ء کو سپر ہائی وے پر واقع ایک نرسری پہنچی تو یہ ایک ایسا کمپاؤنڈ تھا، جو سعود میمن نامی شخص کی ملکیت بتایا گیا تھا۔ وہاں ایک کمرے میں کھدائی کی گئی، تو وہاں سے ڈینیئل پرل کی لاش کے کئی حصے برآمد ہوئے۔
 
Partner Content: DW
YOU MAY ALSO LIKE: