اب فیصلہ پاکستانیوں کو خود کرنا ہے کہ 3 میں رہنا ہے یا 13 میں

image
 
ٹرانسپیرنٹ کا مطلب ہوتا ہے، شفاف۔ لیکن ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ کے بارے میں دو قطعی متضاد آراء ہمارے سامنے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح حزب اقتدار اسے سابقہ حکومت کے دور کی کارستانی قرار دے رہا ہے، تو ماضی کا حزب اقتدار اور آج کا حزب اختلاف اسے حکومت وقت کی ناکامی قرار دے رہا ہے۔
 
اپوزیشن کا شور ہے کہ جن لوگوں کو عوام نے سر آنکھوں پر بٹھایا، ان ہی برسر اقتدار افراد نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک دی ہے۔ اب جب کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سامنے آگئی ہے، تب بھی حقائق کے ساتھ دھینگا مشتی کی جارہی ہے۔
 
image
 
جمعرات 28 جنوری کو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے جاری کردہ سال 2020کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) میں پاکستان کو 180 ممالک میں 124 ویں درجے پر رکھا گیا۔ اس درجہ بندی کی وجہ سے پاکستان کا سکور بھی 100 میں سے گذشتہ برس کے 32 کے مقابلے کم ہو کر 31 ہوگیا۔
 
اگر سال گزشتہ کی رپورٹ پر نظر ڈالیں تو 2019 کی رپورٹ میں 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان کی درجہ بندی 120 تھی۔ لیکن گزشتہ سال (2019 کی رپورٹ سامنے آنے پر) تحریک انصاف کی حکومت کا مؤقف تھا کہ اس رپورٹ کی تیاری میں جو ڈیٹا استعمال کیا گیا اس کا دورانیہ ان کی حکومت قائم ہونے سے پہلے کا تھا، جب کہ اب جو کرپشن کا تازہ انڈکس جاری ہوا ہے اس کے بارے میں بھی حکومت وقت مؤقف نہیں بدلا ہے۔ حکومتی مؤقف کو ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے وضاحت کے ساتھ رد کیا ہے ۔
 
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل عالمی معیار کا قدیم اور معتبر ادارہ ہے۔ جو دنیا بھر کے 180 ممالک کی درجہ بندی کا بھاری بھرکم کام کرتا ہے۔ منطقی استدلال تو یہی بنتا ہے کہ اس ضمن میں کسی ایک بھی ملک کی رپورٹ تیار کرنے میں معمولی سے لغزش بھی اس ادارے کی ساکھ کو پل پھر میں خاک کرسکتی ہے۔ چنانچہ پاکستان کی موجودہ حکومت کی جانب سے اس رپورٹ پر شکوک و شبہات کا اظہار ہوتے ہی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنا مؤقف مقامی اور عالمی میڈیا میں دے دیا۔
 
image
 
عالمی اور ملکی ذرائع ابلاغ نے اس وضاحت کو شائع کیا ہے۔ جس کے مطابق ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے ساتھ جاری کی گئی فائلز میں اس نے ایسی رپورٹ کی تیاری کے طریقہ کار کو تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ اس کے علاوہ اس طریقہ کار کی فائل کے ابتدائیے میں وضاحت کی گئی ہے کہ سی پی آئی 2020 کا حساب 12 اداروں کے 13 مختلف اشاریوں کی بنا پر لگایا گیا، یہ ڈیٹا دو برسوں پر محیط بدعنوانی کے تاثر کا احاطہ کرتاہے۔ اس وضاحت کے ساتھ یہ نکتہ فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ یہ رپورٹ حقیقی کرپشن کی نہیں بلکہ کرپشن کے تاثر کو اجاگر کرتی ہے۔
 
لیکن آج عوام کا سب سے بڑا مسئلہ نہ تو حکومتی کرپشن کا تاثر ہے اور نہ حزب اختلاف کے حکومت پر لگائے گئے الزامات۔ عوام کو سب سے بڑا شکوہ تو یہ ہے کہ انہی دو برسوں میں ان کی آنکھوں کے سامنے ضروریات زندگی کی ہر شے کے دام بڑھتے چلے گئے۔ غذائی اجناس، صنعتی اصناف، مختصر یہ کہ ضروریات زندگی کی ہر چیز گراں ہوتی چلی گئی۔ ان کے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگانے کے بجائے ہم اس کرپشن کو شکست دینے کے منصوبے کیوں نہیں باندھ لیتے۔ کرپشن صرف مالی بدعنوانی ہی نہیں۔ ہمارے ہر شعبے میں پھیلی بے ضابطگی، میرٹ کا قتل، رشوت ستانی، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی، کام چوری نے معاشرے میں پھیلی کرپشن کی وسعت میں اضافہ کردیا ہے۔ ہم نے اپنے رویوں کا نہ بدلہ ،اپنی بساط کے مطابق اپنی زندگیوں سے کرپشن کو خارج نہ کیا، تو پھر ہم دنیا کی کسی رپورٹ میں اپنی شفافیت کو ثابت نہ کرسکیں گے۔ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے ہمیں تین میں رہنا ہے یا تیرہ میں۔
YOU MAY ALSO LIKE: