باپ بیٹا دونوں عظیم محدّث

تاریخِ اسلام میں کئی ایسی نابغہ روزگار شخصیات گزری ہیں جو اپنی ذات میں تنہا انجمن تھے لیکن وائے قسمت اُن کے مبارک ذکر سے ہمارے کان ناآشنا ہیں ، حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دینِ اسلام کے گلشن کی آبیاری اپنے خون سے کی ہے ، جنہوں نے قرآن سنت کے پیغام کو عام کرنے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں ۔ان میں سے بعض تھے جنہوں نے میدان کارزار میں تلوار تھام کر اسلام کا علَم بلند کیا ۔ بعض وہ تھے جنہوں نے تعلیم قرآن کے حلقوں میں اپنے شب و روز لگاکر قرآن کے حفّاظ وقرّاء تیار کیے ۔قرآن کے مضامین سمجھانے کے لیے تفاسیر لکھیں ۔بعض وہ تھے جنہوں نے اپنا وظیفہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث کو جمع کرنا اور انہیں حفظ کرنا بنالیا ،ایک ایک حدیث کے سماع کے لیے سینکڑوں میل کا مشقتوں سے بھرا سفر اختیار کیا اور اس حدیث کو حفظ بالصدر(زبانی یاد کرنے) اور حفظ بالکتابت (لکھ کر محفوظ کرنے)کے ذریعے محفوظ کیا اور امّت تک ان احادیث کو پہنچایا ۔بعض وہ تھے جنہوں نے رسول اللہ کی ان احادیث کی شرح کی اور فصاحت وبلاغت کے اس عظیم سمندر سے عام مسلمانوں کے لیے استفادہ کرنا آسان بنادیا ۔ آج ہم ایسے ہی دو عظیم شخصیات کا مختصر تعارف پیش کررہے ہیں جن کے حالات پر گردشِ لیل و نھار نے گرد ڈال رکھی تھی اور وہ ہیں :محدِّث ابو محمد عبداللہ بن احمد الرّبعی البغدادی اور ان کے صاحب زادے محدِّث ابو سلیمان محمد بن القاضی عبداللہ بن احمد الرّبعی۔تاریخ اسلام کے عظیم محدثین ۔حالات پڑھیے ! اور ان دونوں عظیم ہستیوں کے لیے دُعا بھی کریں کہ یہ حضرات بھی ہمارے محسن ہیں اور محسن کی ناشکری اللہ پاک کی ناشکری ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کی اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا ۔

محدِّث ابو محمد عبداللہ بن احمد الرّبعی البغدادی
مکمل نام :ابو محمد عبداللہ بن احمد بن ربیعۃ بن سلیمان بن زبر الرّبعی البغدادی تھا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ دمشق کے رہائشی تھے ۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ اخبار ،کتب اور سیر ت کے عالم تھے ۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے علمِ حدیث میں کئی کتابیں تالیف کی ہیں ۔ آپ اپنے وقت کے زبردست عالم ،محدّث ،فقیہ تھے ۔
مصر کے قاضی: آپ ۳۱۶ھ ۔میں مصر کے قاضی بنے ،ایک سال کے بعد آپ کو معزول کردیا گیا ، پھر دوبارہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو بحال کردیا گیا۔اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ بیس سال تک مصر کے قاضی رہے ۔

بعض اساتذہ کاذکر :جن لوگوں سے آپ نے احادیث کا سماع کیا ، ان میں سے بعض یہ ہیں :عبّاس الدّوری ، ابو بکر الصّاغانی ،ابو داؤد السجزی ،حنبل بن اسحاق ، یوسف بن مسلّم وغیرہ ۔

بعض تلامذہ کاذکر :جن حضرات نے آپ سے احادیث روایت کی ان میں سے بعض یہ ہیں :آپ کے بیٹے ابوسلیمان محمد ،الدّارَ قطنی ،احمد بن القاضی المیانجی ،عمربن شاہین وغیرہ ۔

وصال پرملال :آپ کا وصال ۳۲۹ ھ ۔ میں ماہ ِ ربیع الاوّل میں ہوا۔ (سیر اعلام النّبلاء ، الطّبقۃ التّاسعۃ عشرۃ ،۱۵۴۔ابن زبر عبداللّٰہ بن احمد بن ربیعۃ، ۱۵/۳۱۵)

محدِّث ابو سلیمان محمد بن القاضی عبداللہ بن احمد الرّبعی
مکمل نام :آپ کا مکمل نام ابو سلیمان محمد بن القاضی عبداللہ بن احمد بن ربیعۃ بن سلیمان بن زبر الرّبعی ہے ۔

حافظِ حدیث :آپ رضی اللہ تعالی عنہ محدّثِ دمشق تھے ۔آپ زبردست حافظِ حدیث تھے ۔طلبِ حدیث کے لیے آپ نے سفر بھی کئے ۔ آپ نے ایک موقع پر فرمایا :اما م الحدیث ابو جعفر طحاوی نے میری تصانیف میں بہت سی چیزیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے ،اور مجھ سے فرمایا:اے ابو سلیمان !تم دوائی دینے والے ہو ،اور ہم لوگ طبیب ہیں ۔

مبارک خواب:ابو نصر بن الجبان نے نقل کیا کہ حضرت ابو سلیمان نے فرمایا :جس سال میں نے علمی کتابوں کی تصنیف کی ، اسی سال میں خواب میں دیکھا کہ گویا میں مسجد میں ایک حلقے میں ہوں جس میں ۳۲ افراد موجود ہیں ،اور میں کہہ رہا ہوں کہ یہ آدم علیہ السّلام ہیں ،یہ حضرت شیث علیہ السّلام ہیں ،اور یہ حضرت ادریس علیہ السّلام ہیں حتّیٰ کہ میں نے ۲۹ انبیاء کرام کے نام شمار کئے ، جو وہاں موجود تھے ،پھر میں نے کہا: یہاں موجود تمام ہی افراد نبی ہیں ، سوائے میرے ،اور ان دو افراد کے جو میری دائیں ،اور بائیں جانب ہیں ،اور وہ دونوں حضرات حضرت امام حسن ،اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنھما تھے ۔اس کے بعد میں نے دیکھا کہ میں ایک بہت بڑے دروازے کے پاس آیا ہوں ، جو بندہے ،پھر وہ دروازہ میرے لیے کھول دیا گیا ،اور میں اس میں سے ایک نورِ عظیم،اور ایک وسیع شہر ،اور ایک مرد کی طرف نکلا جو کھڑا ہوا تھا ،پس میں نے اس مرد کوسلام کیا ،اس نے مجھے جواب دیا ،پھر میں نے اس نور کا قصد کیا ، تو اس میں سے ندا آئی :اے محمد بن زبر !میں آواز سن کر کھڑا ہوگیا ،اور پھر میں نے عرض کیا : انت السّلام ،ومنک السّلام وألیک یرجع السّلام ،تبارکت یاذالجلال والأکرام بحالتِ نیند ہی مجھے خیال ہوا کہ جو صاحب کھڑے ہوئے تھے ،وہ حضرت جبریل علیہ السّلام تھے ،پھر میں بیدار ہوگیا ۔(تاریخ دمشق لابن عساکر ،۶۵۰۰ ۔محمد بن عبداللّٰہ بن احمد بن ربیعۃ ،۵۳/۳۱۷)

بعض کتابوں کے نام:آپ کی بعض کتابوں کے نام یہ ہیں: ’’اخبار ابن ابی ذئب ‘‘ ،’’ہشام بن شعبۃ ‘‘، ’’تاریخ مولد العلماء و وفیاتھم ‘‘ ،’’وصایا العلماء عند حضور الموت‘‘۔(الأعلام للزّرکلی ،۶/۲۲۵)

بعض اساتذہ کا ذکر :جن حضراتِ محدّثین سے آپ نے احادیث لیں ،ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں :ابو القاسم البغوی، ومحمد بن الفیض الغسانی،سعید بن عبد العزیز، جماہر بن محمد الزملکانی ، محمد بن خریم ، محمد بن الربیع الجیزی ،ابن ابو داؤد۔

بعض تلامذہ کا ذکر :اور جن محدّثین نے آپ سے حدیث کو روایت کیا ،ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں :تمام الرّازی،عبد الغنی بن سعید، محمد بن عوف، ابو نصر بن الجبان، محمدبن عفیف عبد الرحمن بن ابو نصر، احمد بن عفیف عبد الرحمن بن ابو نصر وغیرہ ۔

وصال پرملال :آپ کا وصال ۳۷۹ ھ ۔ میں ۱۲ جمادی الاوّل ، بروزِ ہفتہ دن کے وقت میں ہوا ۔(سیر اعلام النّبلاء ،۳۲۶ ۔ابن زبر محمد بن عبداللہ بن احمد ،۱۶/۴۴۰،بالزّیادۃ)

اللہ پاک ان دونوں بزرگوں کی قبروں پر اپنی رحمت و رضوان کے پھولوں کی بارش فرمائے اور ان کی روحانی فیوض و برکات سے ہمیں مستفیض فرمائے ! آمین

 

Imran Attari Abu Hamza
About the Author: Imran Attari Abu Hamza Read More Articles by Imran Attari Abu Hamza: 51 Articles with 60569 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.