|
|
ہر گزرتے دن کے ساتھ ڈیمز کی تعمیر پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا
مسئلہ بنتی جارہی ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً
70ارب روپے کا پانی پاکستانی دریاؤں سے بہتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے۔
بھارت کا ایک مؤقف یہ بھی ہے کہ پاکستان اپنے حصہ کا پانی ضائع کررہا
ہے لہٰذا بھارت اگر اس کے حصہ کا کچھ پانی اپنی سرزمیں پر روک کر کام
میں لے آئے تو کسی کو مروڑ نہیں اٹھنے چاہئیں۔ |
|
سوال یہ ہے کہ ہمیں کب عقل آئے گی ۔ ہم کب اپنے پانی سے اپنی کھیتیاں سیراب
کریں گے۔ ہم کب دریاؤں پر ڈیم کی تعمیر کرکے سستی بجلی بنانا شروع کریں گے۔
اپنا توانائی بحران کم کریں اور پاکستان کی خوشحالی کے دور کی بنیاد رکھیں
گے۔ افسوس ہے کہ قیام پاکستان کے وقت زمین تو تقسیم ہوگئی تھی لیکن پانی
نہیں اور بھارت اور پاکستان کے درمیان مشترکہ پانیوں کے استعمال پر تنازع
1960 تک جاری رہا جب آخرکار عالمی بینک کی ثالثی میں سندھ طاس معاہدے پر
دستخط کیے گئے۔ |
|
اس کے بعد1965 اور 1971 میں دو بڑی جنگیں بھی ہوئیں اور کئی مرتبہ دونوں
ملک جنگ کے دہانے تک پہنچے لیکن اس معاہدے پر آنچ نہیں آئی۔ کیوں کہ اور
کوئی راستہ نہیں اسی لئے اختلافات حل کرنے کے لیے اب بھی دونوں ملک عالمی
بینک کا رخ کرتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت اس بات پر اتفاق ہوا کہ ’انڈس
بیسن‘ کے چھ دریاؤں اور ان کی معاون ندیوں کا پانی کون اور کیسے استعمال
کرے گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں
کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کے لیے ’سندھ طاس‘ معاہدہ طے پایا تھا۔ اس
معاہدے کے ضامن میں عالمی بینک بھی شامل ہے۔ معاہدے کے تحت بھارت کو پنجاب
میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کا زیادہ پانی ملے گا
یعنی اْس کا ان دریاؤں پر کنٹرول زیادہ ہوگا جب کہ جموں و کشمیر سے نکلنے
والے مغربی دریاؤں چناب اور جہلم اور سندھ کا زیادہ پانی پاکستان کو
استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔ |
|
|
|
تاہم بھارت اس معاہدے کو توڑتا آیا ہے جس پر پاکستان
عالمی بینک سے رجوع کرتا آیا ہے۔ بھارت کے معتدل حلقوں کو اس بات کا احساس
ہے کہ بھارت مسلسل نئے سے نئے ڈیمز بنا کر پاکستان کا پانی روکنے میں مصروف
ہے۔ بھارت کی جانب سے مسلسل سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں جس کے
نتیجے میں پاکستان میں پانی کی مقدار مسلسل کم ہورہی ہے۔ ڈیمز کی کمی اور
بارشوں کے باعث گزشتہ دو تین سال سے پاکستان میں آنے والے سیلابوں نے
کسانوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیاہے ۔ زراعت کے شعبے سے وابستہ آبادی
کا 50فیصد بے زمین ہاریوں پر مشتمل ہے اور یہ غربت سے بری طرح متاثر ہیں۔
کسانوں کو یا تو پانی کی کمی کا سامنا رہتا ہے یا بھر سیلابی بارشوں سے ان
کی فصلیں متاثر ہوتی ہیں۔ کیوں کہ نہ صرف آبپاشی بلکہ پانی ذخیرہ کرنے کی
سہولتیں بھی ناکافی ہیں۔ |
|
اس جدید دور میں بھی پاکستان کا کسان فرسودہ اور پرانے
طریقوں سے کاشتکاری کرنے پر مجبور ہے۔ زرعی آلات اتنے مہنگے ہیں کہ کسان کی
استطاعت سے باہر ہیں۔ مہنگی ہونے کے ساتھ، جعلی زرعی ادویات بھی، پاکستانی
کسان کا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ سودی زرعی قرضے اور وہ بھی زیادہ شرح سود پر،
غریب کسان کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ کسانوں کو ان کی اجناس کی معقول قیمت
نہیں ملتی۔ یہ اپنی آمدن سے اپنے روزمرہ کے اخراجات بھی پورے نہیں کر پاتے۔
حکومت کے پاس ضروری غذائی اشیاء ذخیرہ کرنے کے مناسب انتظامات نہیں ہیں۔اس
طرح تقسیم کا نظام بھی ناقص ہے۔ |
|
|
|
کسانوں کی ناخواندگی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے اور یہ زراعت میں جدت لانے میں
ایک رکاوٹ بنی ہوئی ہے فی ایکڑ پیداوار کم ہے۔ اس سے مجموعی ملکی پیداوار
بھی متاثر ہوتی ہے۔ زرعی شعبہ خصوصی فنڈز کی کمی کا شکار ہے۔آبپاشی کے ناقص
نظام کی وجہ سے بہت سا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ پانی کی آلودگی بھی ایک اہم
مسئلہ ہے۔اس کا سبب نمکیات کی کمی بیشی ہے۔ زمین کی ملکیت کی حد طے
نہیں۔بڑی بڑی جاگیریں بے آباد اور بے کار پڑی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کھیتوں کی
تعداد زیادہ ہے۔ لہٰذا ان میں جدید طریقوں سے کاشتکاری ممکن نہیں ہوتی۔
حکومت نے اپنے فیصلوں میں زراعت کو ترجیح نہیں دے رہی ۔اس لئے یہ شعبہ
حکومتی عدم دلچسپی کا شکار ہے۔ کھیتوں کا ناہموار ہونا بھی ایک سبب ہے۔
کھادوں کا غیر متناسب استعمال بھی مسائل کو جنم دیتا ہے۔غیر معیار بیجوں کا
استعمال بھی پیداوار پر اثر ڈالتا ہے۔ ناقص زرعی ادویات، دوہرا نقصان
پہنچاتی ہیں۔ ایک تو پیداوار ضائع ہوتی ہے دوسرے زمین بھی ناکارہ ہونے کا
خطرہ ہوتا ہے۔اگر حکومت زراعت کے شعبہ کی اہمیت کے پیشِ نظر، اس کو اپنی
ترجیحات میں شامل کرلے اور اس کے گوناں گوں مسائل پر توجہ دے تو یہ بآسانی
حل ہو سکتے ہیں۔ اس سے زراعت کا شعبہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا۔
تب ہی پاکستا ن خوشحال ہوگا اور اس کے عوام آسودہ ہوں گے۔ |