پریوں کا تالاب٬ کیا آپ جانتے ہیں کہ دیوارِ سندھ کا معمہ کیا ہے؟

رنی کوٹ کا شمار دنیا کے بڑے قلعوں میں ہوتا ہے۔ کھیرتھر کی خشک چٹانوں میں بل کھاتی یہ دیواریں ایک گزرے دور کی نشانی ہیں۔ یہ قلعہ کب بنا اور کن حکمرانوں نے تعمیر کیا؟ اس پر ماہرین فی الحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔
 
 رنی کوٹ ایک معمہ
آثار قدیمہ کے ماہرین کے لیے قلعہ رنی کوٹ ایک معمہ رہا ہے۔ عالمی ماہرین اور سندھ کے اسکالر دہائیوں سے اس کے چکر لگاتے رہے ہیں۔ لیکن اس بات پر کوئی حتمی اتفاق نہیں کہ یہ قلعہ کس زمانے کی تعمیر ہے۔
image
 
قلعے کا سن گیٹ
یہ تصویر قلعے میں داخلے کے مشرقی دروازے کی ہے، جسے ’’سن گیٹ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کی چوکیوں سے آپ کو دور دور تک اس قلعے کے اطراف کے دلکش نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں، جس کے لیے سورج طلوع اور غروب ہونے کا وقت موزوں ترین ہے۔
image
 
ثقافت کا تحفظ
اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد سندھ حکومت نے صوبے کے تاریخی مقامات کو بچانے کے لیے کچھ کام کیا ہے اور یہاں بھی ایک ریسٹ ہاؤس بنایا گیا ہے۔ حکومت کا ذیلی ادارہ ’انڈاؤمنٹ ٹرسٹ فنڈ‘ قلعے کی گرتی ہوئی دیواروں کی مرمت کا کام کر رہا ہے۔
image
 
عظیم قلعہ مگر پسماندگی
رنی کوٹ کے علاقے میں گبول قوم آباد ہے۔ اس علاقے میں انٹرنیٹ نہیں، اسکول اور ہسپتال نہیں۔ کچھ گھروں کے پاس سولر بجلی کا انتظام ہے۔ عبدالزاق گبول یہیں پلے بڑے ہیں۔ وہ علاقے میں اپنی مدد آپ کے تحت ایک اسکول چلاتے ہیں اور قلعے کے تحفظ اور فروغ کے لیے حکومت کی مدد کرتے ہیں۔
image
 
قلعے تک پہنچنے والی سڑکیں
رنی کوٹ سندھ کے ضلع جام شورو میں واقع ہے۔ کراچی سے وہاں پہنچنے میں لگ بھگ چار گھنٹے لگ جاتے ہیں اور یہاں تک پہنچنے والی سڑکیں انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ قلعے کے اندر مختلف مقامات پر جانے کے لیے آپ پیدل یا پھر فور بائی فورجیپ میں سفر کرسکتے ہیں۔
image
 
قلعے کے اندر قلعہ
میری کوٹ اس وسیع قلعے کے اندر ایک قلعہ ہے۔ خیال ہے کہ کسی زمانے میں یہ حاکم وقت کا انتظامی ہیڈ کوارٹر تھا۔ یہاں شاہی رہائش گاہیں ہیں، پانی کا ایک بڑا سا کنواں اور اوپر سے ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھنے کے لیے متعدد دفاعی چیک پوسٹیں۔
image
 
قلعے کا موہن گیٹ
یہ منظر قلعے کے ایک اور حصے ’’موہن گیٹ‘ کا ہے۔ چند ماہ پہلے تک وہاں پہنچنے کے لیے آپ کو پہاڑ پر کئی کلومیٹر پیدل چل کر جانا پڑتا تھا۔ لیکن حال ہی میں مقامی لوگوں نے اپنے جیب سے لاکھوں روپے خرچ کر کے ہیوی مشنری کی مدد سے گاڑیوں کے لیے ایک پتھریلا راستہ بنایا ہے۔
image
 
قدرتی چشمے کا تالاب
 میری کوٹ سے کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر قدررتی چشمے کا ایک خوبصورت تالاب ہے۔ پہاڑوں کے بیچ یہ جگہ سیاحوں کی خاص دلچسپی کا باعث ہے۔ مقامی روایت کے مطابق گذرے وقتوں میں یہاں پریاں نہانے آتی تھیں۔ سندھی زبان میں اس جگہ کو ’’پرین جو تڑ‘‘ یا ’’پریوں کا تالاب‘‘ کہا جاتا ہے۔
image
 
اتنا بڑا قلعہ کیوں؟
بعض ماہرین کے مطابق یہ قلعہ ساسانیوں کے دور میں تعمیر ہوا۔ لیکن ان بیابانوں میں اتنا بڑا قلعہ تعمیر کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ یہ ابھی واضح نہیں۔ تاہم بیشتر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ قلعے کا آخری بڑا مرمتی کام انیسویں صدی کے اوائل میں تالپور دور میں ہوا۔
image
 
قلعے کی بحالی کا کام
 ’انڈاؤمنٹ ٹرسٹ فنڈ‘ پچھلے چند برسوں سے اس قلعے کی بحالی پرکام کر رہا ہے۔ تعمیر اور مرمت کے اس کام کے لیے مخصوص مہارت درکار ہوتی ہے تاکہ آثار قدیمہ کی عمارتوں کو حتی الامکان ان کی اصل حالت میں بحال کیا جائے۔
image
 
Partner Content: DW
YOU MAY ALSO LIKE: