خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ: منبع صدق وصفا، پیکر عشق ووفا

یوم صدیق اکبر 2021 کے لیے لکھی گئی ایک خصوصی تحریر
خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ: منبع صدق وصفا، پیکر عشق ووفا
محمد ساجدرضا مصباحی : استاذ دارالعلوم غریب نواز داہو گنج کشی نگر یوپی

نحمدہ نصلی ونسلم علی رسول الکریم ،
امام بعد فاعوذباللہ من الشیطن الرجیم ،
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترم سامعین !
آج ہماری گفتگو کا موضوع تاریخ اسلام کی ایک عظیم ترین شخصیت ہے ، ایک ایسی شخصیت جن کی حیات کا ایک ایک گوشہ اہل ایمان کے لیےمینارۂ رشد وہدایت ہے ،صداقت ان کی پہچان ہے ، عشق ووفا ان کا امتیاز ہے،نجابت وشرافت ان کی شناخت ،سخاوت و عدالت ان کا وطیرہ تھا۔ شرافت و ذہانت، ذکاوت و فراست، اخلاص ووفا جیسے اوصاف کو جمع کردیا جائے تو ان کی شخصیت کا خاکہ بنتا ہے، ان کی زندگی کا ہر ہر لمحہ اِن اوصاف کی عکاسی کرتا ہے، ان خوبیوں کا ادنیٰ درجہ نہیں اعلی ترین درجہ ان کی حیات کے اوراق پر جلی حروف میں نقش ہے، یہ وہی ہیں جنھیں یار غار کہا جاتا ہے ، جنھیں صدیق اکبر کہا جاتا ہے ، جنھیں خلیفۂ اول کہا جاتا ہے اور اہل ایمان ادب واحترام کے ساتھ انھیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ۔
آج ہم انھیں کے فضائل وکمالات ، شجاعت وصداقت ، خدمات وکارناموں پر روشنی ڈالیں گے :
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب ہے۔ مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلۂ نسب میں کل چھ واسطے ہیں۔ مرہ بن کعب پر جاکر آپ کا سلسلہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب سے مل جاتا ہے۔ آپ کی کنیت ابوبکر ہے۔[المعجم الکبير، نسبۃ ابی بکر الصديق واسمہ، ۱:۱]
آپ کی کنیت ابوبکرکے حوالے سےمرأۃ المناجیح میں ہے:
چوں کہ آپ نےاسلام لانے، مال خرچ کرنے، جان لٹانے، الغرض امتِ محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر معاملے میں اولیت رکھتے ہیں، اس لیےآپ کو ابوبکر [یعنی اولیت والا] کہا گیا۔[مراة المناجيح، مفتی احمد يار خان نعيمی، ۸: ۳۴۷]
سیرت حلبیہ میں ہے:
کُنِيَ بِاَبِی بَکْرٍ لِاِبْتِکَارِہِ الْخِصَالِ الْحَمِيْدَۃِ
’’آپ کی کنیت ابوبکر اس لیےہے کہ آپ شروع ہی سے خصائل حمیدہ رکھتے تھے‘‘۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دو لقب زیادہ مشہور ہیں:
ایک عتیق، دوسراصدیق۔عتیق پہلا لقب ہے، اسلام میں سب سے پہلے آپ کو اسی لقب سے ہی ملقب کیا گیا۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام ’’عبداللہ‘‘ تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: انْتَ عَتِيْقٌ مِنَ النَّار ’’تم جہنم سے آزاد ہو‘‘۔ تب سے آپ کا نام عتیق ہوگیا۔[صحيح ابن حبان، کتاب اخباره عن مناقب الصحابہ، ج۹، ص۶]
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں ایک دن اپنے گھر میں تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام علیہم الرضوان صحن میں تشریف فرما تھے۔ اچانک میرے والد گرامی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا:
’’مَنْ اَرَادَ اَن يَنْظُرَ الی عَتيقٍ مِنَ النَّارِ فَلْيَنْظُرْ اِلیٰ اَبی بَکْر‘‘
’’جو دوزخ سے آزاد شخص کو دیکھنا چاہے، وہ ابوبکر کو دیکھ لے‘‘۔[مشکوۃ المصابیح ، حدیث ۶۳۷]
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لقب ’’صدیق‘‘ کے حوالے سے حضرت سیدہ حبشیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
يَا اَبَابَکْرٍ اِنَّ اللّہ قَدْ سَمَّاکَ الصِّدِّيْق
’’اے ابوبکر! بے شک اللہ رب العزت نے تمہارا نام ’’صدیق‘‘ رکھا‘‘۔[الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ، حرف النون، ۸: ۳۳۲]
آپ کے والد محترم کا نام عثمان بن عامرتھا،کنیت ابوقحافہ تھی ۔ آپ فتح مکہ کے بعدسرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ایمان لائے، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بھی باحیات رہے ، خلافت فاروقی میں ۹۷، برس کی عمرپاکر محرم ۱۴ھ میں عہد فاروقی میں وفات پائی۔[تهذيب الاسماء واللغات، امام نووی، ۱: ۲۹۶]
آپ کی والدہ ماجدہ کام اسم گرامی سلمیٰ بنت سخر تھا ، ابتداے اسلام میں دامن اسلام سے وابستہ ہو گئیں ، عہد صدیقی ہی میں آپ کا وصال ہوا۔[ الاصابۃ ، ج:۴ ص۴۴۸]
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایام جاہلیت میں بھی قریش کے معزز ترین فرد تھے ، روساے قریش میں آپ بے پناہ عظمت ووقار کے مالک تھے ، قبل اسلام بھی آپ بلند اخلاق وعادات کے حامل تھے ،ایام جاہلیت میں بھی آپ غیر اخلاقی کاموں سے دوررہا کر تے تھے ، آپ کی سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ نے ایام جاہلیت میں بھی کبھی شراب کو منھ نہیں لگایا ، آپ نے خود فرمایا کہ اللہ کی پناہ کہ میں کبھی شراب کے قریب نہیں گیا ، آپ سے سبب پوچھا گیا تو فر مایا کہ میں اپنی عزت وآبرو اور انسانیت کی حفاظت کرتا ہوں ، شراب انسانی عزت وآبرو کو تار تار کردیتی ہے۔جب سر کاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو ارشاد فرمایا : ابو بکر نے سچ کہا، ابوبکر نے سچ کہا۔[تاریخ الخلفا ص: ۲۴، ۲۵]
حقیقت یہ ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ اپنے گرد پھیلی ہوئی گمراہیوں، غلط رسوم و رواج، اخلاقی و معاشرتی برائیوں سے پاک صاف ہونے کے ساتھ بے شمار اوصاف حمیدہ سے بھی متصف تھے۔ آپ کے اعلیٰ محاسن و کمالات اور خوبیوں کی بنا پر ہی مکہ مکرمہ اور اس کے قرب و جوار میں آپ رضی اللہ عنہ کو محبت و عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا واقعہ بھی بڑا دل چسپ ہے، حضرت سیدنا ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوب بکر صدیق رضی اللہ عنہ ملک شام تجارت کے لئے گئے ہوئے تھے، وہاں آپ نے ایک خواب دیکھا، جو ’’بحیرا‘‘ نامی راہب کو سنایا۔ اس نے آپ سے پوچھا:
’’تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘ فرمایا: ’’مکہ سے‘‘۔ اس نے پھر پوچھا: ’’کون سے قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟‘‘ فرمایا: ’’قریش سے‘‘۔ پوچھا: ’’کیا کرتے ہو؟‘‘ فرمایا: تاجر ہوں۔ وہ راہب کہنے لگا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے خواب کو سچافرمادیا تو وہ تمہاری قوم میں ہی ایک نبی مبعوث فرمائے گا، اس کی حیات میں تم اس کے وزیر ہوگے اور وصال کے بعد اس کے جانشین۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس واقعے کو پوشیدہ رکھا، کسی کو نہ بتایا اور جب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی واقعہ بطور دلیل آپ کے سامنے پیش کیا۔ یہ سنتے ہی آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گلے لگالیا اور پیشانی چومتے ہوئے کہا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں‘‘۔[الرياض النضرة، ابوجعفر طبری، ۱: ۸۳]
اسد الغابہ میں ہے کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ میں نے جس کے سامنے اسلام پیش کی ، اس نے اپنے اندر ایک طرح کا تردد محسوس کیا ، مگر جب ابوبکر کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے بے جھجھک اسلام قبول کرلیا۔[ اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ ،ج، ۳، ص: ۳۱۳]
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دامن اسلام سے وابستہ ہو نے کے بعد ہر محاذ پر سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق اور دست وبازو رہے ، بڑے نامساعد حالات میں بھی آپ نے رفاقت کا حق ادا کیا، اسلام کی خفیہ دعوت وتبلیغ کے بعد جب آیت کریمہ فاصدع بما تومر واعرض عن المشرکین کے ذریعہ اعلانیہ دعوت دین کا حکم نازل ہوا، اور سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے علانیہ اسلام کی تبلیغ شروع فرمائی تو مشرکین عرب بھڑک اٹھے، اور ایذا رسانی کا ایک ناقابل برداشت سلسلہ شروع ہوا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ان ایذا رسانیوں کے شکار ہو ئے ، لیکن آپ نے خندہ پیشانی کے ساتھ ان تمام مصائب وآلام کو بر داشت کیا ، آپ ہی کی داعیانہ کوششوں سے حضرت عثمان بن عفان ، زبیر بن عوام ، عبد الرحمن بن عوف ، سعد بن ابی وقاص اور طلحہ بن عبد اللہ ایمان کی دولت ایمان سے سرفراز ہو ئے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عزم واستقامت کی داستان بڑی طویل ہے ، صبر وشکیب کی اس طویل داستان میں عشق ووفا کے جلوے بھی بڑی آب وتاب کے ساتھ نظر آتے ہیں ، ذرا کفار قریش کے ان مظالم کا تصور کریں جن کی بنا پر آپ نے چند یاران وفا کے ساتھ وطن عزیز کو خیر باد کہتے ہوئے حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ فر مایاتھا ، ظلم وجفا کا سلسلہ نہیں رکا تو ایک بار پھر ہجرت مدینہ کا قصد فر مایااورآپ کی یہ ہجرت اسلامی تاریخ کا اہم حصہ بن گئی۔
ہجرت مدینہ کے بعد اسلام کی تبلیغ واشاعت کا سنہرا دور شروع ہوا ، اعلاے کلمۃ الحق کے لیے جتنے بھی غزوے ہو ئے ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان تمام غزوات میں شریک رہے ، غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ بنی مصلطق ، غزوۂ خندق، غزوہ خیبر، غزوۂ تبوک وغیرہ میں پوری جرأت وہمت کے ساتھ شر کت فر مائی اور اسلام کی تبلیغ واشاعت میں اہم کردار دافر مایا ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے شمار اوصاف حمیدہ میں ایک اہم وصف آپ کا گہرا فکر وتد برتھا ، جس کے بے شمار مظاہر آپ کی صحیفۂ حیات کے ورق ورق پر نمایاں ہیں ، سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد منافقین مدینہ نے اسلام کا شیرازہ بکھیرنے کی پوری تیاری کر لی تھی ، ان کی شازشوں کے سبب جانشینی کے مسئلے نے نازک صورت اختیار کر لی تھی ، یہ ایسا موقع تھا کہ اگر فورا اس مسئلے کا تدارک نہ کیا جاتا تو حالات درہم برہم ہو سکتے تھے ، اور مسلمانوں کی جماعتیں آپس ہی میں دست وگریباں ہو کر تباہ وہ برباد ہو سکتی تھیں ، ایسے نازک وقت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جس فہم وبصیرت اور فکر وتدبر کے ساتھ اس سنگین مسئلے کا حل نکا لا ، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ظاہری کے بعد جب آپ نے خلافت کا بار سنبھالا تو آپ کے سامنے کئی بڑے چیلنجز تھے ، طرح طرح کے مسائل نے سر ابھار نا شروع کر دیا تھا، منافقین کی شورشیں تیز ہوگئی تھیں، مرتدین کا سیلاب امنڈپڑا تھا، جھوٹے مدعیان نبوت سرگرم ہو گئے تھے، منکرین زکات کا ایک گروہ پیدا ہو گیا تھا، بیرو نی طاقتوں کے یلغار کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا تھا، ان پُر آشوب اور چیلنج بھرے حالات میں آپ نے تدبیر ودانائی اور فراست ایمانی سے ان سارے فتنوں پر قابو پالیا ۔ ان فتنوں کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ منکریں زکات نے نہ صرف یہ کہ زکات دینے سے انکار کیا تھا بلکہ انھوں نے مدینے پر حملے کا ارادہ بھی کر لیا ، آپ نے ان کی ایسی سر کوبی فر مائی کہ نہ صرف انھوں انکارزکات سے منھ موڑا بلکہ خو د زکات کا مال لے کر در بار خلافت میں حاضر ہو ئے ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں اسوۂ نبوی پیش نظر رکھ کر دائرۂ اسلام کو وسعت دینے کے لیے کوشاں رہے، کل سوا دوسال آپ کی خلافت کا زمانہ رہا ، اس قلیل مدت میں بھی آپ نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے وہ گراں قدر خدمات انجام دیں جو ہمیشہ بعد کے خلفاے راشدین کے لیے نمونہ ٔ عمل رہا ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جن بنیادوں پر خلافت راشدہ کی عمارت کھڑی کی تھی ، دیگر خلفاے کرام نے انھیں مضبوط کر نے کا کام کیا ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک نمایاں وصف یہ تھا کہ آپ مختلف معاملات میں فقہاے صحابہ سے مشاورت کیا کرتے تھے ، طبقات ابن سعد میں آپ کی مجلس مشاورت کے چند ممتاز ارکان کے نام اس طرح گنائے گئے ہیں:
حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت معاذ بن جبل ، حضرت ابی بن کعب ، حضرت زید بن ثابت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ۔[طبقات ابن سعد ، ج: ۲، ص: ۱۰۹]
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی درو خلافت کی ایک خاص بات یہ تھی کہ آپ نے دور رسالت کے تمام حکام وافسران کو ان کے عہدوں پر برقرار رکھا ، اور حکومت کے نئے عہدوں کے لیے ان ہی بزرگوں کا انتخاب فر مایا جو درس گاہ نبوت کے تر بیت یافتہ تھے ، آپ افسران کو تقرر کے وقت نہایت مفید نصیحتیں فر مایا کرتے تھے ۔
تاریخ طبری میں ہے کہ آپ نے محصل صدقات حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو نصیحت فر مائی:
’’جلوت وخلوت میں اللہ کا خوف رکھو ،جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے ایسی سبیل اور اس کے رزق کا ایسا ذریعہ پیدا کردیتا ہے ، جو کسی کے گمان میں بھی نہیں آسکتا ۔‘‘[تاریخ طبری ، ج: ۴ ، ص: ۲۰۸۳]
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے کار ناموں کو شمار کرایا جائے تو دفتر کے دفتر ناکافی ہیں ، اجمالی طور پر یہ کہہ دینا کافی ہے کہ آپ نے خلافت کا ایسا نظام قائم فر مایا جو ہر طرح سے صاف وشفاف ، مضبوط ومستحکم اور اسوۂ نبوی کے عین مطابق تھا ، خواہ وہ مالی انتظا م کا معاملہ ہو یا فوجی نظام کا معاملہ ، ذمیوں کے حقوق کی نگہہ داشت ہو یا فتوحات کا معاملہ ہر اعتبار سے آپ کا دور خلافت آئیڈیل کی حیثیت رکھتا تھا ، خاص طور سے تحفظ دین کے معا ملے میں آپ نے ذرہ برابر کوتا ہی برداشت نہیں فر مائی ، تدوین قرآن کا کام بھی آپ ہی کے عہد میں شروع ہوا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے داخلی فتنوں سے نمٹنے کے بعد بیرونی دشمنوں کی طرف توجہ فر مائی ، اس ضمن میں عراق پر لشکر کشی، جنگ ذات السلاسل ، جنگ مذار ، جنگ ولجہ ، جنگ اُ لیّس خاص طور سے قابل ذکر ہیں ، ان جنگوں میں اسلامی افواج کو شان دار فتوحات حاصل ہو ئیں ، مسلمانوں کو کافی مال غنیمت حاصل ہوا، ان کے علاوہ شام کے علاقوں میں بھی کئی کام یاب جنگیں ہوئیں ، جن میں مسلمانوں کو فتح و کامرانی حاصل ہو ئی ۔
محترم سامعین !
اب تک ہم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حیات وخدمات کے بعض گوشوں کی ایک نامکمل تصویرآپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ، اب ہم آپ کی حیات مبارکہ کا ایک اہم گوشہ یعنی سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی والہانہ وابستگی اور جذبہ جا ں نثاری پر تھوڑی دیر گفتگو کریں گے ۔
بردران ِ ملت اسلامیہ ! محبت ایک فطری جذبہ ہے اور یہ جذبہ پاکیزگی و طہارت سے عبارت ہے۔ ہر امتی کے لیے اپنے نبی سے سچی محبت سے زیادہ دوسری کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی امتی اپنے نبی کے اسوۂ مبارکہ کو پاتا ہے تو کمال وارفتگی سے کھنچا کھنچا اپنے مرکز محبت کی اداؤں میں خود کو ڈھالتا چلا جاتا ہے اور وہ جب اسوہ رسول میں ڈھل جاتاہے تو پھر ساری مخلوق کا مرکز التفات، ہادی و مقتدا اور میرکارواں بن جاتا ہے۔
سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک اشارۂ ابرو پر جان و مال کو بے دریغ نچھاور کر دینے کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی زندگی کا بہترین مقصد تصور کرتے تھے۔ سرکار اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کا قول صادق ہو یا فعل مبارک، گریہ و تبسم ہو یا عبادت و معاملت، جنگ ہو یا امن ہر بات صحابہ کے لوح قلب پر منقش تھی۔ شرف صحابیت پانے والے تمام صحابہ آسمان ہدایت کے ستارے اور چشم بینا کے لیے نور تھے۔
مگر قافلۂ صحابہ کے سالار اعظم، نبوت و رسالت کے بعد فضیلت و حرمت کا نشان، انصار و مہاجرین کے سردار، مظہر انوار رسالت، یار غار ، افضل الابشر بعد الانبیاء سیدنا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ محبت رسول کے جس ارفع و اعلیٰ مقام پر فائز تھے، وہ تاریخ کے صفحات میں کسی کے ہاں نظر نہیں آتا۔ حضرت صدیق اکبر سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ آپ کو دنیا میں کیا پسند ہے ؟ تو آپ نے بے ساختہ فرمایا ’’ بس حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ انور کو دیکھنا مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔‘‘
حضرت ابو بکر صدیق حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی رضا جوئی، مزاج رسالت کی رعایت اور منشاےنبوت کی جستجو میں ہمہ تن مستغرق و منہمک رہتے تھے،حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے صدقہ کرنے کا حکم فرمایا۔ اتفاقاََ اس زمانے میں میرے پاس کچھ مال موجود تھا۔ میں نے سوچا آج اتفاق سے میرے پاس مال موجود ہے ، اگر میں ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے کبھی بڑھ سکتا ہوں تو وہ آج کا دن ہے۔ یہ سوچ کر میں خوشی خوشی گھر گیا اور جو کچھ گھر میں تھا اس میں سے آدھا لے کر سر کار دوعالم صلی اللہ علیوسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا،آپ نے فرمایا کہ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ، میں نے عرض کیا کہ آدھامال چھوڑ آیا۔ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اپنے گھر کا سارااثاثہ لے کر سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر گئے۔
سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ابو بکر! گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا۔ انہوں نے عرض کیا : ان کے لئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو چھوڑآیا ہوں۔
پروانے کو چراغ ہے تو بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس
یعنی اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے نام کی برکت ، ان کی رضا اور خوشنودی کو چھوڑآیا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے کبھی نہیں بڑھ سکتا۔ [شرح العلامۃ الزرقانی ، باب غزوۃ تبوک ، ج۴ ، ص۶۹]
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ محبت رسول میں ہر پہلو سے کامل اور اسوہ ٔرسول کا مکمل نمونہ تھے۔ سرکار دعالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل روم سے جنگ کے لیے ایک لشکر مرتب فرمایا تھا اور جلیل القدر صحابی حضرت اسامہ بن زید کو اس لشکر کا سپہ سالار مقرر فرمایا تھا۔ یہ لشکر ابھی جنگ کے لیے روانہ نہ ہو پایا تھا کہ سر کار دوجہاں صلی اللہ علیہ و سلم کا وصال ہو گیا۔
اس سانحہ عظیم کے ساتھ ہی کئی شورشیں کھڑی ہوگئیں۔ صحابۂ کرام نے حضرت ابوبکرصدیق سے عرض کی کہ ان دِگرگوں حالات میں لشکر کشی قرین مصلحت نہیں، کیوں کہ داخلی انتشار میں خارجی امور بے حد نازک اور حساس ہوتے ہیں، اس لیے فوج کی روانگی سردست مناسب نہیں۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ قطعا گوارانہ ہوا کہ سر کادوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیار کر دہ لشکر کو روک دیا جائے ۔
آپ نے ولولۂ شجاعت سے لبریز یقین محکم کے ساتھ فرمایا :
’’ قسم ہے خداے وحدہ لاشریک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ، اگر مجھے یہ اندیشہ ہو کہ درندے مجھے پھاڑ کھائیں گے ، پھر بھی لشکر اسامہ کو روانہ کر نے سے باز نہیں رہوں گا ، جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے ، اگر بستیوں میں میرے سوا کوئی نہ رہے تو میں تنہا ارشاد رسول کی تعمیل کروں گا ۔[تاریخ طبری جلد ۴ ص: ۴۵]
یقیناً عشق رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی جو دولت حضرت ابو بکر صدیق کے حصے میں آئی، قلم اس کا احاطہ کرنے سے عاجز ہے۔
عشق کا تقاضا یہ بھی ہے محب اپنے محبوب سے وابستہ ہر چیز سے محبت کر نے لگے، ان کا ہر منظور نظر عاشق کے لیے محبوب ومحتر م ہو جائے ، اس زوایے سے بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حیات طیبہ کا ایک ایک ورق درخشاں اور تابندہ نظر آتا ہے ، اہل بیت اطہار سے آپ کی قلبی وابستگی کے بڑے دل کش مناظر تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں ۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے لے کر اپنے وصال تک کبھی بھی اہل بیت اطہار کی خدمت میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ اہل بیت سے یہ خصوصی محبت آپ کی اولاد میں بھی منتقل ہوتی رہی۔
ایک موقع پر حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذِکر ہوا تو آپ نے فرمایا:اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدْرت میں میری جان ہے! رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قَرابَت داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنا مجھے اپنے قَرابَت داروں سے صِلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔ [بخاری،ج۲،ص۴۳۸]
حضرت عُقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ نے ہمیں عَصْر کی نَماز پڑھائی، پھر آپ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کھڑے ہوکر چل دیے، راستے میں حضرت حَسن کو بچّوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضرت سیّدُنا صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے کندھے پر اُٹھا لیا اور فرمایا: میرے ماں باپ قربان! حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کے ہم شکل ہو، حضرت علی کے نہیں۔ اس وقت حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم مُسکرا رہے تھے۔[سنن الکبریٰ للنسائی،ج ۵،ص۴۸،]
حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت فر مایا کرتے تھے ، ان کی عظمتوں کے قائل تھے، انھیں افضل واعلیٰ مانتے تھے ، ا نھوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دست اقدس پر بیعت فر ماکر عملی اعتراف کا ثبوت پیش فر مایا دیا تھا ، آپ سے مروی متعدد احادیث میں ابھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضیلت کے تذکرے موجود ہیں ۔ بخاری شریف میں حضرت محمدبن حنفیہ کی یہ روایت بھی کھلی آنکھوں سے پڑھنے کے لائق ہے:
عن محمد بن الحنفیۃ قال قلت لابی ای الناس خیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قال ابوبکر ، قلت: ثم من؟ قال : ثم عمر ، الخ
حضرت محمد بن حنفیہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے[فرماتے ہیں]کہ میں نے اپنے باپ [حضرت علی رضی اﷲ عنہ] سے عرض کیاکہ رسول پاکصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر، میں نے عرض کی، پھر کون؟ فرمایا حضرت عمر رضی اﷲ عنہما [بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، جلد ۲، ص ۵۲۲]
افضلیت صدیق اکبر پر کثیر احادیث کتب احادیث میں موجود ہیں ، آپ کے برحق خلیفۂ اول ہو نے پر بھی امت کا اجماع ہے ، اور عہد ِصحابہ سے اب تک امت مسلمہ کا متفقہ عقیدہ رہا ہے ، روافضِ زمانہ جو صحابہ کرام کی شان میں دردہ دہنی کرتے ہیں اور صحابہ کرام کی شان میں ناقابل بیان گستاخیاں کرتے ہیں ، یہ لوگ یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت اور افضلیت پر بھی زبان درازیاں کرتے ہیں ، آپ کی عظمت ورفعت پر قرآن وحدیث کی صراحتوں کے باوجود گستاخیاں اور بے باکیاں کرنا یقینا بغض وعناد ہی کا نیتجہ ہو سکتا ہے ۔
طبقات ابن سعد ، تاریخ الخفلفا اور کنزالعلمال میں آپ کے اوصاف کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے اس کا خلاصہ پیش کر کے اپنی گفتگو کو اختتام کے قریب کر نا چاہتا ہوں :
’’ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑے رقیق القلب نرم خو، متواضع، خاکسار اور زہد وورع کا مجسم پیکر تھے ، رقیق القلب ایسے تھے کہ بات بات پر آنکھیں اشک بار ہو جایا کرتی تھیں ، تواضع وساد گی کا یہ حال تھا کہ اپنا ساراکام اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے ، زہد وعبادت کا عالم یہ تھاکہ اکثر راتیں قیام اور اکثر دن روزوں میں گزرتے تھے ، خشوع وخضوع کی کیفیت یہ تھی کہ نماز کی حالت میں خشک لکڑی کی طرح نظر آتے ، رقت ایسی طاری ہوتی کہ روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتیں ، عبرت پذیری کا حال یہ تھا کہ کوئی سر سبز درخت دیکھتے تو فر ماتے ، کاش! میں درخت ہو تا کہ آخرت کے خوف سے محفوظ رہتا ، چڑیوں کو چہچہاتے دیکھتے تو فر ماتے ،پرندو! تم خوش نصیب ہو کہ دنیا میں چرتے ، چگتےاور درختوں کے سایہ میں بیٹھتے ہو اور قیامت کے محاسبہ کا کوئی خطرہ نھیں ، کاش !ابوبکر تمہاری طرح ہو تا ۔
۲۲؍ جمادی الآخرہ ۱۳ھ مطابق ۶۳۴ء دوشنبہ کا دن گزار کر مغرب وعشا کے در میان آپ کا وصال ہوا، حضرت عمر فارو رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی ، اسی شب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پہلو میں مدفون ہو ئے ، آپ کی خلافت کی مدت دو برس تین مہینے گیارہ دن ہیں۔
اللہ جل شانہ ہمیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فیضان سے مالا مال فر مائے اور آپ کی سیرت طیبہ کو نمونۂ عمل بنانے کی توفیق عطا فر مائے ، آمین بجاہ حبیبہ سید المر سلین ۔
 
محمد ساجدرضا مصباحی
About the Author: محمد ساجدرضا مصباحی Read More Articles by محمد ساجدرضا مصباحی: 56 Articles with 91221 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.