حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(shabbir Ibne Adil, Karachi)
|
تحریر: شبیر ابن عادل نبی کریم ﷺ کے قریبی اور جانثار ساتھی،انبیاء ورسل کے بعد اس کائنات میں سب سے اعلیٰ اور ارفع شخصیت خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اسلام کے لئے قربانیاں اور خدمات کی مثال تاریخ نہیں پیش کرسکتی اور اپنےمختصر دور خلافت میں انہوں نے اسلامی حکومت کے استحکام اور اس کے فروغ کے لئے بہت سے اقدامات کئے ۔ ایک مثالی حکمران کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نام عبداللہ اور کنیت ابوبکر تھی۔ والد کا نام عثمان بن عامر تھا اور وہ نام کے بجائے اپنی کنیت ابوقحافہ سے زیادہ مشہور تھے۔ ان کا تعلق قبیلہ قریش کی ایک مشہور شاخ تیم بن مرہ بن کعب سے تھا۔ ساتویں پشت میں مرہ پر ان کا نسب رسول اللہﷺ سے مل جاتا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ کا نام سلمی بنت صخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ ہے۔ کنیت ’’ام الخیر‘‘ ہے۔ابتدائے اسلام میں ہی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرکے مشرف بہ اسلام ہوگئیں تھیں۔ حضرت ابوبکر ؓ عام الفیل کے ڈھائی برس بعد سنہ ۵۷۱ ء میں پیدا ہوئے ۔ وہ رسول اللہ ؐ سے عمر میں ڈھائی برس چھوٹے تھے ۔ ان کا نام عبدالکعبہ رکھا گیا تھا، لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد حضور اکرم ؐ نے ان کا نام بدل کر عبداللہ ؓ رکھ دیا۔ آپ کی کنیت ابوبکر ؓ تھی، بَکر کے معنی ہیں جوان اونٹ، چونکہ آپ کو اونٹوں کی پرورش اور دیکھ بھال سے بڑی دلچسپی تھی چنانچہ اونٹوں سے اس تعلق کی بناء پر لوگ انہیں ابوبکر کہنے لگے۔ حضرت ابوبکر ؓ کے دو لقب عتیق اور صدیق تھے۔ صدیق کے معنی ہیں، صدق کو بلاتامل اور فوری قبول کرنے وال اور عتیق حسین اور جوانمرد شخص کو کہا جاتا ہے۔ عتیق کی تشریح حضور اکرم ؐ نے یہ فرمائی کہ وہ جہنم سے آزاد ہیں (ترمذی)۔ ابن دکین کا قول ہے کہ آپ عتیق اس لئے کہلاتے تھے کہ آپ ؓ شروع ہی سے نیک طینت تھے۔ بعد میں وہ صدیق کے لقب سے معروف ہوئے جس کے معنیٰ سچے یا تصدیق کرنے والے کے ہیں۔ آخری مفہوم کو اس روایت کی تائید بھی حاصل ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے حضور ؐ کے معرج کا واقعہ سن کر فوری طور پر اس کی تصدیق کردی اور اس واقعہ کو من وعن تسلیم کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپؓ کوثانی اثنین کے خطاب سے یاد فرمایا ہے اور ہماری زبان اردو میں انہیں یار غار کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ لفظ محاورہ کے طورپر انتہائی مخلص ، بے ریا اور سچے دوست کے لئے بولا جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ کے قبول اسلام کی زندگی سے قبل کے واقعات بہت کم معلوم ہیں۔ وہ کپڑے کے بڑے تاجر تھے اور اسلام قبول کرنے کے وقت ان کے پاس چالیس ہزار درہم کا خطیر سرمایہ تھا جسے انہوں نے اسلام کے لئے وقف کردیا۔ وہ حضور ؐ کے بہت پرانے اور قریبی دوست تھے، بعثت کے بعد جب نبی کریم ﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے فوری طور پر اسلام قبول کرلیا۔حضور اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے جس کو بھی اسلام کی دعوت دی وہ ضرور ہچکچایا اور تردد میں پڑا اور کچھ دیر سوچ کر اسلام قبول کیا۔ لیکن جب میں نے ابوبکر ؓ کو دعوت دی تو وہ نہ ہچکچائے اور نہ تردد میں پڑے بلکہ فوراً ایمان لے آئے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت ابوبکر ؓ اپنے احباب کے پاس گئے جن میں حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ، حضرت زبیر بن العوام ؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اسلام قبول کرلیا۔ دوسرے روز حضرت عثمان بن مظعون ؓ ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسدؓ اور حضرت ارقم بن ابوالارقم ؓ کو دربار رسالت ؐ میں لے کر حاضر ہوئے او ر یہ حضرات بھی ایمان لے آئے۔ ایمان لانے کے بعد حضر ت ابوبکر ؓ نے اپنی تمام قوت و قابلیت ، سارا اثر ورسوخ، تمام مال ومتاع، جان اور اولاد غر ض جو کچھ ان کے پاس تھا وہ سب دین کی راہ میں وقف کردیا۔ قبول اسلام کے ان کی ساری زندگی اطاعت و استقامت کی داستان ہے۔ مشرکین مکہ کے مظالم یوں تو تمام مسلمانوں پر تھے لیکن خاص طورپر غلاموں کو بے پناہ اذیتیں دی جاتی تھیں۔حضرت ابوبکر ؓ کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ ایسے غلاموں کو خرید کر اللہ کی راہ میں آزاد کردیتے تھے۔مؤذن رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی ان ہی غلاموں میں شامل تھے۔ خود حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی متعدد مرتبہ کفار کے مظالم کا نشانہ بنے۔ مسلمان مدینے کی جانب ہجرت کرنے لگے تو حضرت ابوبکر ؓ نے حضور ؐ سے اجازت مانگی تو انہوں نے فرمایا کہ تم ابھی ٹھیرو ، کیونکہ امید ہے کہ مجھے بھی اجازت مل جائے گی۔چنانچہ آپؓ نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ27 صفر14 نبوی کو مدینہ ہجرت فرمائی۔ ہجرت کا واقعہ خود اپنی جگہ بہت اہمیت اور حضرت ابوبکر ؓ کی قربانی ، جانثاری اور محبت و الفت کانہایت عظیم واقعہ ہے ۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی ؐ کی زمین کے لئے قیمت آپ نے ادا فرمائی اور اس کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہوں نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا نکاح حضور اکرم ﷺ سے مکہ مکرمہ ہی میں کردیا تھا ، مدینہ آکر رخصتی ہوئی۔ وہ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور ہمیشہ حضور اکرم ؐ کی خدمت میں حاضر رہا کرتے۔ نازک اور پرخطر لمحات میں حضرت ابوبکر ؓ کسی چٹان کی طرح ڈٹے رہتے اور کبھی ہمت نہ ہارتے ۔وہ ہر کام میں رسول اکرم ﷺ کی تائید کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ جب صلح حدیبیہ میں بعض صحابہ کو اعتراض ہوا تو اس وقت بھی حضرت ابوبکر نے بلا تامل اور پورے خلوص سے اس کی توثیق کی۔ کیونکہ ان کی دوربیں اور بصیرت افروز نگاہ میں صلح حدیبیہ کے مقاصد کو جان لیا تھا ، جو فتح مکہ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ صلح حدیبیہ پر رسول اللہ ﷺ کے بعد پہلا نام آپ ؓ ہی کا تھا (الطبری)۔ رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات میں آپ ؓ نے حضور اکرم ؐ کی ہدایت پرمسجد نبوی ؐ میں کئی مرتبہ نمازوں کی امامت کی۔یکم ربیع الاول گیارہ ہجری کو حضور اکرم ؐ نے اس دنیا سے پردہ فرمایا ، صحابہ کرام غم و اندوہ سے نڈھال تھے ، ان کی دنیا تاریک ہوگئی تھی ، انہیں یقین ہی نہ تھا کہ آفتاب رسالت ؐ بھی کبھی غروب ہوسکتا ہے۔ ایسے نازک موقع پر بھی حضرت ابوبکر ؓ نے صحابہ کی دلجوئی کی اور انہیں نبی کریم ؐ کی وفات پر صبر دلانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ صحابہ کرام نے انہیں اپنا سربراہ بنایا،انہوں نے خلیفۃ الرسول ؐ یعنی رسول اللہﷺ کے نائب یا وارث کا لقب اختیارکیا ۔آپؓ کی تقرری امت مسلمہ کا پہلا اجماع کہلاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد عرب کے بیشتر قبائل میں بغاوت اور سرکشی کی آگ بھڑک اٹھی تھی، اکثر قبیلے مرتد ہوگئے تھے اور بعض نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا تھا اور کچھ نبوت کے جھوٹے دعویداپیدا ہوگئے تھے۔ زمام خلافت سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے حضرت اسامہ بن زید ؓ کی سربراہی میں فوج کی روانگی کا معاملہ سامنے آیا۔ وصال سے چند روز قبل حضور اکرم ؐ نے اپنے دست مبارک سے اسلام کا پرچم حضرت اسامہ کے ہاتھ میں دیا تھا اور حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کو اس لشکر میں ان کے ساتھ جانا تھا۔ لیکن نبی کریم ﷺ کے وصال کی وجہ سے وہ مہم روانہ نہ ہوسکی۔ جب حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ بن گئے تو فتنہ ارتداد اور مدعیان نبوت کی سرکشی کی وجہ سے صحابہ کرام ؓ نے اس فوجی مہم کو ملتوی کرنے کا مشورہ دیا ۔ لیکن حضرت ابوبکر ؓ اس کام کو روکنےکا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے جس کا آغاز خود نبی کریم ﷺ نے کیا تھا۔ اس لئے صحابہ ؓ کی رائے کے خلاف ، جن میں حضرت عمر فاروق ؓ بھی تھے، آپ نے کہا کہ بخدا، اگر مدینہ اس طرح آدمیوں سے خالی ہوجائے کہ درندے آکر میری ٹانگ کھینچ لیں، تب بھی اس مہم کو نہیں روک سکتا جس کے بھیجنے کا رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا تھا۔ چنانچہ آپ ؓ نے وہ مہم روانہ کردی۔ حضرت اسامہ ؓ کا لشکر فتح و نصر ت کے جھنڈے گاڑ کر چالیس دن بعد واپس آگیا جس کی وجہ سے پورے عرب پر خلیفۃ الاسلام کی شجاعت اور مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی اور کئی فتنے اندر ہی اندر دب کر رہ گئے۔ اس کے علاوہ کئی فوجی مہمات کے ذریعہ خلیفہ اول نے باغیوں، مرتدین اور جھوٹے مدعیان نبوت کا سرکچل کر رکھ دیا اور اسلام کو گویا نئی زندگی بخشی۔ حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کا زمانہ، جو دو سال تین ماہ اور گیارہ روز تھا، زیادہ تر ارتداد کے فتنوں کو کچلنے میں گزرا۔ اسی مختصر سی مدت میں ایسے عظیم الشان کارنامے انجام دیئے جن پر تاریخ اسلام کو ناز ہے۔ ارتداد کی سب سے اہم ترین لڑائی جنگ یمامہ تھی، جو عقرباء کے مقام پر لڑی گئی ، اسے طرفین کے مقتولین کی کثرت کی وجہ سے حدیقۃ الموت یعنی موت کا باغ کہا جاتا ہے( ربیع الاول 12 ھ )۔ یہاں مسلمانوں کے سب سے خطرناک دشمن اور جھوٹے نبی مسیلمہ کذاب نے شکست کھائی اور عبرت ناک موت مارا گیا۔ حضرت ابوبکر ؓ پندرہ روز علیل رہ کر 22 جمادی الثانی 13ھ (23 اگست 634ء) کو وفات پاگئے اور انہیں نبی کریم ﷺ کےپہلو میں سپردخاک کیا گیا۔ ان کی زندگی انتہائی سادہ، جس میں دولت ، شان وشوکت اور نمود ونمائش کی کوئی جگہ نہ تھی، امت کے لئے مشعل راہ ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے مشورے پر حضرت ابوبکر ؓ نے قرآن کریم کو ایک صحیفے یا کتاب کی صورت میں ایک جگہ لکھوایا ۔ اس مقصد کے لئے حضرت زید ؓ بن ثابت کو مقرر کیا گیا تھا۔ جنہوں نے عہد نبوت ؐ کے مسودوں کے مطابق اور حفاظ کی مستند شہادتوں کے مطابق قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے حضرت عمر فاروق ؓ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ یہ ان کا اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ دنیا حیران رہ گئی ۔ ابتدائے عالم سے لے کر آج تک کوئی انتخاب اتنا شاندار نہیں ہوا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|