کیا چین ’کیپٹن امریکہ‘ کی طرز کا فوجی تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟

image
 
کیا چین ’کیپٹن امریکہ‘ کی طرز کا فوجی تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ امریکی خفیہ ادارے تو ایسا ہی کہتے ہیں تاہم جو جوش ’سُپر سولجر‘ کے تصور کے بارے میں پایا جاتا ہے وہ زیادہ عجیب بات نہیں اور اس میں چین کے علاوہ بھی اکثر ممالک کو دلچسپی ہے۔
 
وسائل کی فراوانی اور دوسری فوجوں پر سبقت حاصل کرنے کی خواہش نے دنیا بھر کی فوجوں کو ٹیکنالوجی کے ذریعے نیا اسلحہ بنانے کی طرف راغب کیا ہے۔
 
سنہ 2014 میں ایک نئے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے صدر باراک اوباما نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’میں یہاں اس بات کا اعلان کرنے آیا ہوں کہ ہم آئرن مین بنانے جا رہے ہیں۔‘ اس وقت اس بات پر قہقہے سنائی دیے تھے لیکن امریکی صدر سنجیدہ تھے۔
 
امریکی فوج نے اس منصوبے پر کام شروع بھی کر دیا تھا جو دراصل ’ٹیکٹیکل اسالٹ لائٹ آپریٹر سوٹ‘ (ٹیلوس) کہلانے والا ایک حفاظتی لباس تھا۔
 
اس کی تشہیر کے لیے بنائی جانے والی ویڈیو میں اس لباس کو پہننے والے کردار کو دشمن کے مورچوں میں گھستے دکھایا گیا تھا اور اس کے لباس سے گولیاں ٹکرا کر گر رہی تھیں۔ تاہم ’آئرن مین‘ نہ بن سکا۔ پانچ برس کے بعد یہ منصوبہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ لیکن اسے بنانے والوں کو امید ہے کہ اس میں استعمال ہونے والے پرزے کسی دوسرے منصوبے میں کام آ جائیں گے۔
 
image
 
’ایگزو سکیلیٹنز‘ ان متعدد ٹیکنالوجیز میں سے ہیں جن پر دنیا بھر کی افواج کام کر رہی ہیں تاکہ اپنے فوجیوں کی صلاحیتوں میں جدت لائی جا سکے۔ جدت کا حصول کوئی نئی بات نہیں، زمانہ قدیم میں بھی فوجیں اسلحہ، لباس اور ٹریننگ میں جدت لانے کی کوشش کرتی رہی ہیں تاہم آج جدت کا مطلب ایک فوجی کو بہتر بندوق دینے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا مطلب ایک فوجی میں تبدیلی لانا بھی ہو سکتا ہے۔
 
سنہ 2017 میں روسی صدر ولادیمر پوتن نے خبردار کیا تھا کہ شاید انسان جلد کچھ ایسا ایجاد کر دے جو ’ایک جوہری بم سے کہیں زیادہ خطرناک‘ ہو۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ انسان شاید ایک ایسا انسان ایجاد کر دے جس میں کچھ خصوصیات ہوں، نہ صرف مفروضے کی حد تک بلکہ حقیقت میں بھی۔ وہ کوئی شاندار ریاضی دان بھی ہو سکتا ہے، ایک بہترین گلوکار بھی یا ایک ایسا فوجی جو بغیر کسی خوف، ہمدردی، افسوس اور درد کے لڑ سکتا ہے۔‘
 
گزشتہ برس امریکہ کے ڈائریکٹر برائے نیشنل انٹیلیجنس (ڈی این آئی) جان ریٹکلف چین پر الزام لگانے میں ایک قدم آگے چلے گئے تھے۔ انھوں نے امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل میں لکھتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ’چین نے اس وقت پیپلز لبریشن آرمی کے فوجیوں پر ٹیسٹنگ کا عمل شروع کر دیا ہے جس کے تحت فوجیوں کی صلاحیتوں کو بائیولاجیکلی بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بیجنگ کے سامنے طاقت کے حصول کےلیے کوئی اخلاقی حدود نہیں ہیں۔‘
 
چین کی جانب سے اس تحریر کو ’جھوٹ کا پلندا‘ قرار دیا گیا ہے۔
 
بائیڈن انتظامیہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایجنڈے کے اکثر نکات کو تبدیل کر دیا ہے تاہم چین کے ساتھ تناؤ مستقبل میں بھی امریکی خارجہ پالیسی کا جز رہے گا۔
 
خواب اور حقیقت
یقیناً دنیا بھر کی افواج یہ چاہیں گی کے ان کی صفوں میں ایک ’سُپر سولجر‘ موجود ہو جو درد، شدید سرد موسم اور نیند جیسی انسانی ضروریات کو پسِ پشت ڈال سکے۔
 
تاہم امریکہ کی جانب سے ’آئرن مین‘ بنانے کی ناکام کوشش ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ٹیکنالوجی میں سقم ایسے عزائم کو ختم کر سکتا ہے۔
 
سنہ 2019 میں دو امریکی محققین کی جانب سے کی گئی تحقیق میں کہا گیا تھا کہ چینی فوج ’جینیاتی تبدیلی‘، ایگزوسکیلیٹنز اور انسان اور مشین کی شراکت جیسی ٹیکنالوجی پر زور و شور سے کام کر رہی ہے تاہم یہ رپورٹ بنیادی طور پر چینی منصوبہ سازوں کی جانب سے دیے گئے بیانات پر مبنی تھی۔
 
image
 
رپورٹ لکھنے والوں میں سے ایک ایلسا کانیا کو مسٹر ریٹکلف کے بیانات کے حوالے سے شبہات ہیں۔ کانیا جو سینٹر فار نیو امیریکن سکیورٹی کی ایک سینئر فیلو ہیں کہتی ہیں کہ ’یہ بہت ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ چینی فوج کیا بات چیت کر رہی ہے اور کیا بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ لیکن یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ٹیکنالوجی اس وقت کیا کر سکتی ہے۔
 
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حالانکہ دنیا بھر کی افواج ’سُپر سولجر‘ کے تصور کے بارے میں خاصی دلچسپی رکھتی ہیں تاہم آخر کار وہی ہو سکتا ہے جو سائنسی اعتبار سے ممکن ہے، چاہے وہ کوئی بھی کر رہا ہو۔‘ خیال رہے کہ مسٹر ریٹکلف کا اشارہ ادھیڑ عمر افراد پر ٹیسٹنگ کا تھا۔ جہاں ادھیڑ عمر افراد میں جینیاتی تبدیلی کے ذریعے کچھ چیزیں تبدیل کی جا سکتی ہیں وہیں یہ بات بھی ذہن نشین کرنی ہو گی کہ ماں کے پیٹ میں موجود بچے کے ڈی این اے میں تبدیلی ہی ایک ’سُپر سولجر‘ بنانے میں ایک اہم قدم ہو سکتا ہے ۔
 
ڈاکٹر ہیلن او نیل کنگز کالج لندن کی ایک جینیاتی ماہر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سوال یہ نہیں ہے کہ ایسا ممکن ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا سائنسدان اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اس ٹیکنالوجی یعنی جینیاتی تبدیلی کی تکنیک کے ذریعے ذراعت اور ٹرانسجینکس کے شعبے میں تسلسل کے ساتھ کام کیا جا رہا ہے تاہم ان دونوں کے مرکب کے انسانوں پر استعمال کے متعلق اخلاقی اعتبار سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔
 
سنہ 2018 میں چینی سائنسدان ہی جیانکوئی نے ایک حیران کن اعلان کیا اور بتایا کہ انھوں نے ماں کے پیٹ میں موجود دو جڑواں بچیوں کے ڈی این اے میں تبدیلی کر کے انھیں ممکنہ طور پر ایچ آئی وی کا شکار ہونے سے محفوظ کر دیا ہے۔
 
تاہم اس پیشرفت کے بعد خاصہ غم و غصہ پایا گیا۔ ایسی جینیاتی تبدیلی پر متعدد ممالک میں پابندی لگائی جا چکی ہے جس میں چین بھی شامل ہے۔ اس کا استعمال صرف ’آئی وی ایف ایمبریوز‘ میں کرنے کی اجازت ہے اور وہ بھی اس وقت جب انھیں فوراً تلف کر دیا جائے اور بعد ازاں بچہ بنانے میں استعمال نہ کیا جائے۔ اس سائنسدان نے اپنے ’کارنامے‘ کا دفاع کیا تاہم حکومت کے احکام کی خلاف ورزی کرنے پر انھیں جیل جانا پڑا۔
 
اس تحریر کے لیے جتنے بھی افراد سے بات کی گئی انھوں نے ہی جیانکوئی کیس کو بائیو ایتھکس میں ایک اہم لمحہ قرار دیا۔ سائنسدانوں نے بعد میں یہ بھی رپورٹ کیا کہ نہ صرف اس عمل کے ذریعے ایچ آئی وی سے بچاؤ ممکن ہے بلکہ اس سے ذہنی اعتبار سے بہتری بھی لائی جا سکتی ہے۔
 
ہی جیانکوئی نے کرسپر ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے ان دو جڑواں بچوں کے ڈی این میں رد و بدل کیا جو کہ خلیوں میں موجود ڈی این اے میں خاص تبدیلی لانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعے کچھ خصوصیات کو نکالا جا سکتا ہے اور اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے سائنسدان خاصے پرامید ہیں کہ اس کے ذریعے جینیاتی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کا علاج کیا جا سکتا ہے۔
 
image
 
تاہم سوال یہ ہے کہ یہ فوج کے لیے کیا کر سکتا ہے؟
لندن میں فرانسز کرک انسٹیٹیوٹ میں کام کرنے والے سینیئر ریسرچ سائنٹسٹ کرسٹوفی گیلیشیٹ ’کرسپر‘ کو ایک’انقلابی‘ تکنیک قرار دیتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس کی بھی حدود ہیں۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ مائیکروسافٹ ورڈ فائل میں استعمال ہونے والا ’فائنڈ اینڈ ریپلیس‘ یعنی ڈھونڈ کر تبدیل کرنے والا آپشن بھی کچھ اس طرح ہی ہے۔ جو چیز ایک ٹیکسٹ میں فائدہ مند ثابت ہوتی ہے، ضروری نہیں ہے کہ وہ دوسرے میں بھی ہو۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ بات سوچنا غلط ہے کہ کچھ جینز کے ایک جیسے ہی اثرات ہوتے ہیں۔
 
اگر آپ ایک ایسا جین لیتے ہیں جس کے ذریعے آپ کے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں اور آپ اونچائی پر بہتر انداز میں سانس لے سکتے ہیں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں اس شخص کو کینسر ہو جائے۔‘اسی طرح کچھ خصوصیات کو ایک پیرائے میں دیکھنا بھی غلط ہے۔
 
مثال کے طور پر متعدد جینز قد سے متعلق اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اسی طرح متعدد خصوصیات جو اگر تبدیلی کی جائیں تو وہ کئی نسلوں میں منتقل ہوتی ہیں۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ چین کے یہ اقدامات دراصل امریکہ کے ردِ عمل میں ہیں۔
 
سنہ 2017 میں اخبار ’دی گارڈین‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی فوج لاکھوں ڈالر جینیاتی تبدیلی کی ٹیکنالوجی کے لیے مختص کر رہی ہے جس کے ذریعے حملہ آور انواع کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ تاہم اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس کے فوجی استعمال بھی ہو سکتے ہیں۔
 
چین اور امریکہ ہی وہ ممالک نہیں ہیں جو اس ضمن میں برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ فرانس کی فوج کو بھی 'اینہانسڈ سولجرز' یعنی خصوصی فوجی بنانے کی منظوری دی گئی ہے، تاہم ساتھ ہی اس تحقیق کے دوران اخلاقی حدود بھی وضع کر دی گئی ہیں۔ فرانس کے وزیرِ دفاع فلورینس پارلی کا کہنا تھا کہ 'ہمیں حقیقت کو مدِ نظر رکھنا ہو گا۔ ہر کوئی ہماری جیسی اخلاقی اقدار نہیں رکھتا، اس لیے ہمیں اس کے لیے تیار رہنا ہو گا جو مستقبل میں ہو سکتا ہے۔'
 
اگر سائنسدان کسی فرد کی خصوصیات کو بہتر بھی بنا دیں تب بھی اس کا عسکری شعبے میں استعمال مزید مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کیا فوج کے احکامات پر عمل کروانے والے ڈھانچے میں موجود ایک فوجی آزادانہ طور پر اس بات کی اجازت دے سکے گا کہ وہ اس طرح کا ممکنہ طور پر خطرناک علاج کروائے۔ اطلاعات کے مطابق چین اور روس نے اپنے فوجیوں پر کووڈ ویکسینز کے لیے تجربے کیے ہیں۔
 
آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ اخلاقیات کے پروفیسر جولیئن سیوولیسکو کا کہنا ہے کہ ’افواج اس لیے قائم نہیں کی جاتیں کہ وہاں ایک فوجی کا مفاد دیکھا جائے، بلکہ اس لیے کہ جنگ جیتی جائے یا سٹریٹیجک برتری حاصل کی جائے۔‘
 
انھوں نے کہا کہ 'ایک فوجی پر ڈالے جانے والے خطرات کی ایک حد تو ہو سکتی ہے لیکن یہ ان سے کہیں زیادہ ہے جو معاشرے کے عام لوگوں پر مسلط کیے جاتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی شخص کے لیے ایسا فیصلہ کرنے سے پہلے اس کے فوائد اور نقصانات پر غور کرنا بہت ضروری ہے تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ظاہر ہے کہ فوج میں چیزیں مختلف ہوتی ہیں۔ انفرادی طور پر تو انسانوں کو خطرات مول لیتے ہیں لیکن اکثر وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔
 
فوجیوں کو زندگی یا موت جیسی خطرناک صورتحال میں رکھا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر ایسی ٹیکنالوجی کے ذریعے ان کے بچنے کے امکانات بڑھ سکیں تو یہ خوش آئند بات ہے۔
 
پروفیسر پیٹرک لِن جو کیلیفورنیا پولیٹیکنک سٹیٹ یونیورسٹی سے فلسفی کے طور پر منسلک ہیں کہتے ہیں کہ یہ سب اتنا سادہ نہیں ہے۔ ’فوجیوں کی خصوصیات بہتر بنانے کا مطلب ہے کہ ان پر تجربہ کرنا اور ان کی زندگیاں خطرے میں ڈالنا لہٰذا ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ بہتر خصوصیات کے بعد یہ فوجی کتنے محفوظ ہوں گے۔ شاید اس کےبالکل برعکس انھیں مزید خطرناک مشنز پر بھیجا جائے اور شاید ان کے ذریعے مزید چانسز لیے جائیں جو عام فوجی کے ساتھ نہیں لیے جاتے۔‘
 
’کیپٹن امریکہ‘ تو نہ بن سکا لیکن ہر وقت کسی حیران کن پیش رفت کے امکانات موجود رہتے ہیں۔
 
پروفیسر سیوولیسکو کا کہنا ہے کہ ’ملٹری میں کوئی اخلاقی یا جمہوری کنٹرول رکھنا بہت مشکل ہے کیونکہ یہاں معلومات خفیہ رکھنے اور قومی مفاد کو محفوظ رکھنے کی بات کی جاتی ہے۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: