حسن علی سبھی سوالوں کے جواب دے گئے

image
 
بہت کم مواقع ایسے ہوتے ہیں جہاں کھیل پل پل میں ایسے بدلے کہ یہ تعین کرنا مشکل ہو جائے، کون اچھا کھیل رہا ہے اور کون برا۔ کرکٹ میں ایسے مواقع بہت دلچسپ ہوتے ہیں۔

پاکستان کے سبھی کرکٹ گراؤنڈز میں سے راولپنڈی وہ واحد وکٹ ہے جہاں سیمرز کو زیادہ کامیابی ملتی ہے۔ اس وکٹ میں باؤنس زیادہ ہوتا ہے اور عموماً ٹیمیں اپنے بولنگ اٹیک میں زیادہ پیسرز کو شامل کرنا بہتر سمجھتی ہیں۔

میچ سے دو روز قبل مصباح الحق بھی کہہ رہے تھے کہ اگر وکٹ روایتی ہوئی تو وہ ایک سپنر ڈراپ بھی کر سکتے ہیں۔ نجانے مصباح خود کسی غیر یقینی صورتِحال کا شکار تھے یا جان بوجھ کر حریف کیمپ کو کنفیوز کرنا چاہ رہے تھے۔

ابھی تک جتنا بھی کھیل مکمل ہوا ہے، سنیچر کے شام کے سیشن کے سوا یہاں پیس نے ہی زیادہ جادو جگایا ہے۔ پہلی اننگز میں نورکیہ نہایت کامیاب رہے۔ پہلے میچ کے برعکس انھوں نے ایشین کنڈیشنز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بولنگ کی۔

ٹیسٹ کرکٹ میں پیسرز عموماً آف سٹمپ لائن کے باہر چوتھے، پانچویں سٹمپ پر دھیان رکھتے ہیں۔ بولر کے ذہن میں رہتا ہے کہ اسے کسی طرح بلے کے باہری کنارے کو غچہ دینا ہے اور تب سلپ کے فیلڈرز نہایت اہم ٹھہرتے ہیں۔

مگر ایشین کنڈیشنز میں یہ معاملہ بالکل مختلف رہتا ہے۔

وسیم اکرم بتاتے ہیں کہ جب ان کا کسی ایسی وکٹ سے پالا پڑتا تھا جہاں سیم اور سوئنگ کا فقدان ہوتا اور باؤنس بھی نیچا ہوتا تو وہ مڈل سٹمپ لائن میں فل لینتھ گیندوں کے ذریعے بلے باز کے پیڈ کو اپنا ہدف بناتے تھے۔

نورکیہ نے بھی کسی حد تک یہی کیا۔ گو انھوں نے پیڈ کی بجائے دھیان پھر بھی بلے پر ہی رکھا مگر لائن بالکل سیدھی رکھی اور بلے باز کو ہر گیند کھیلنے پر مجبور کیا۔ بلے کے گرد قریبی فیلڈرز کی مدد سے گھیرا تنگ کیے رکھا اور بلے باز بادلِ نخواستہ ہر گیند کو کھیلنے پر مجبور ٹھہرے۔

مگر حسن علی نے اس سے بھی زیادہ اچھی چال چلی اور بلے بازوں کو فرنٹ فٹ پر جھکنے پر مجبور کیا۔ ان وکٹوں پر فل لینتھ اور گڈ لینتھ کے درمیان ایک ایسا زون ہے کہ اگر بلے باز اپنا بلا وہاں اٹکا لے تو پھر قسمت ہی اس کی یاوری کر سکتی ہے۔

کراچی ٹیسٹ کے بعد بہت چہ میگوئیاں ہوئیں کہ حسن علی کو واپس ہی کیوں لایا گیا۔

اس میں دو رائے نہیں کہ کراچی میں ان کی کارکردگی بھی سطحی رہی مگر راولپنڈی کی وکٹ پر انھوں نے سارے سوالوں کے جواب دے دیے ہیں۔

حسن علی کے سپیل کی خوبصورتی یہ تھی کہ انھوں نے کسی بھی بلے باز کو آؤٹ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بس اپنا پلان ایسا رکھا کہ بلے باز ہاتھ کھولنے پر مجبور ہوئے اور ڈرائیو کرنے کی کوشش میں ہی پویلین کی راہ سدھارتے گئے۔

مگر اب وکٹ بدل چکی ہے، سپنرز اپنا رنگ جمانے لگے ہیں اور یہ میچ اس دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں دونوں ٹیموں پر خاصی غیر یقینی کی صورتِحال طاری رہے گی۔

جنوبی افریقی کیمپ میں تو خیر اس غیر یقینی صورتِحال کا آغاز پہلے ہی ہو چکا جہاں میچ سے پہلے ہی کوچ مارک باؤچر نے واضح کر دیا کہ یہ بطور کپتان کوئنٹن ڈی کوک کا آخری میچ ہو گا۔

شاید اسی کے ردِ عمل میں ڈی کوک نے جوابی جارحیت کا مظاہرہ بھی کیا اور یاسر شاہ اور نعمان علی کی گیندوں کو پے در پے باؤنڈری کی سیر کروائی۔

مگر یہ جارحیت بھی جنوبی افریقہ کے لیے کچھ خاص سودمند ثابت نہ ہو سکی اور پاکستان کی پہلی اننگز کی برتری مٹا نہ پائی۔

بھلے اس وقت سکور کارڈ پاکستانی بیٹنگ کی کوئی خوش کن تصویر پیش نہیں کر رہا مگر آج جس طرح مہاراج اور جارج لِنڈا نے گیند کو گھمایا ہے، یہ پاکستان کے لیے بیک وقت پریشانی اور خوشی کا باعث بنی ہے۔

پریشانی اس خدشے سے کہ پاکستانی بیٹنگ ایک بار پھر بڑے مجموعے سے محروم رہے گی اور خوشی اس امید سے کہ کل جب جنوبی افریقہ اپنی آخری اننگز کا آغاز کرے گا تو وکٹ کی دراڑیں مزید بڑھ چکی ہوں گی اور دونوں اینڈز سے جب یاسر شاہ اور نعمان علی حملہ آور ہوں گے تو جنوبی افریقی مزاحمت کتنے سیشن گزار پائے گی۔
 
Partner Content: BBC Urdu
سمیع چوہدری
About the Author: سمیع چوہدری Read More Articles by سمیع چوہدری: 20 Articles with 24728 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.