" />

بے اور بس وزیر کھیل او رکھیل اور کھلاڑیوں کیساتھ زیادتیاں

یہ موجودہ " بے بس" وزیراعلی خیبر پختونخواہ کے اپنے علاقے سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی کا حال ہے جو صوبے میں کھیلوں کے فروغ کے دعوے کرتے ہیں - ویسے تو ہر وزیراعلی نے اپنے دور حکومت میں اپنے ہی علاقے کی ترقی پر توجہ دی ' کیا مردان کے حیدر ہوتی ' بنوں کے اکرم خان درانی ' نوشہرہ کے پرویز خٹک اور موجودہ سوات کے محمود خان 'جو ان کا حق بھی ہے لیکن اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے صوبے کے دیگر اضلاع بشمول پشاور کے شہریوں کے مختلف حقوق بھی پامال کئے لیکن موجودہ کھیلوں کی وزارت میں پشاور کی ایک ایسوسی ایشن سوات کے ایک کھلاڑی کیساتھ زیادتی کررہی ہے اور اس پر وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی ابھی تک خاموشی اس بات کی دلیل بھی ہے کہ " بے بس " وزیراعلی کچھ زیادہ ہی بے بھی ہے او ر بس بھی.. کیا ایسوسی ایشن پر صرف پشاور یا چند مخصوص اضلاع سے تعلق رکھنے والے افراد کا ہی حق ہے کیا صوبے کے 29 دیگر اضلاع میں کوئی قابل شخص موجود نہیں.

سوات سے تعلق رکھنے والے ووشو کے ایک کھلاڑی کو صرف اس جرم کی پاداش میں ایسوسی ایشن سے نکال دیا گیا کہ وہ اپنے ساتھ ہونیوالے زیادتی پر بات کرتا ہے اور کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود کی بات کرتا ہے وزیراعلی خیبر پختونخواہ اور موجودہ وزیر کھیل کے اپنے علاقے سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی کا موقف ہے کہ کلبوں سے رجسٹریشن اور الحاق کے نام پر رقم تو وصول کئے جاتے ہیں مگر انہیں سہولیات کی فراہمی نام نہاد ایسوسی ایشن کے صدرکے فرائض میں شامل نہیں. اس طرح سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے سالانہ گرانٹ کے نام پر رقم کی وصولی تو جاری ہے مگر یہ رقم کہاں پر جاتی ہے اس کے جواب میں متعلقہ ایسوسی ایشن خاموش ہیں.
یہ موجودہ " بے بس" وزیراعلی خیبر پختونخواہ کے اپنے علاقے سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی کا حال ہے جو صوبے میں کھیلوں کے فروغ کے دعوے کرتے ہیں - ویسے تو ہر وزیراعلی نے اپنے دور حکومت میں اپنے ہی علاقے کی ترقی پر توجہ دی ' کیا مردان کے حیدر ہوتی ' بنوں کے اکرم خان درانی ' نوشہرہ کے پرویز خٹک اور موجودہ سوات کے محمود خان 'جو ان کا حق بھی ہے لیکن اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے صوبے کے دیگر اضلاع بشمول پشاور کے شہریوں کے مختلف حقوق بھی پامال کئے لیکن موجودہ کھیلوں کی وزارت میں پشاور کی ایک ایسوسی ایشن سوات کے ایک کھلاڑی کیساتھ زیادتی کررہی ہے اور اس پر وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی ابھی تک خاموشی اس بات کی دلیل بھی ہے کہ " بے بس " وزیراعلی کچھ زیادہ ہی بے بھی ہے او ر بس بھی.. کیا ایسوسی ایشن پر صرف پشاور یا چند مخصوص اضلاع سے تعلق رکھنے والے افراد کا ہی حق ہے کیا صوبے کے 29 دیگر اضلاع میں کوئی قابل شخص موجود نہیں.
فیس بک اور ٹوئٹر سمیت سوشل میڈیا پر حکمرانی کرنے والے موجودہ حکومت کھلاڑی کی حکومت ہے اور کھیلوں کی وزارت کیساتھ کھلاڑی کی حکومت نے وہ حال کیا ہے کہ بیان کرنے کے قابل نہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس پر خاموشی بھی ہے.
سوات کے کھلاڑی کے ساتھ ہونیوالی زیادتی اور شکوے ایک طرف لیکن کیا اس صوبے میں کھیلوں کے فروغ کے دعویدار ایسوسی ایشنز حقیقت میں کھیلوں کے فروغ کیلئے کتنی کوشاں ہیں اس بات کا اندازہ گذشتہ دو دہائیوں سے زائد کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کی موجودگی ہے جن کے کرسی بیٹھنے والے افراد یعنی چیئرمین سے لیکر دیگر عہدے تقسیم در تقسیم پر عمل پیرا ہے. کھیلوں کی ایسوسی ایشن کے ان نام اور نہاد مشران کو اللہ تعالی ضرور بخشے گا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھو ' اور کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کے مختلف عہدوں پر براجمان یہ افراد اپنے رشتہ داروں کو عہدوں میں لانے میں کوشاں ہوتے ہیں.اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کیساتھ رجسٹرڈ تمام ایسوسی ایشنز کی فہرستیں منگوا کر دیکھ لیں کہ ایسوسی ایشنز کے کرتا دھرتا کس حد تک اپنے رشتہ داروں کو لا چکے ہیں. کھیلوں کی ایسوسی ایشنز پر باپ کے بعد بیٹے یا پھر گھریلو رشتہ داروں اور ملازمین کا 'جو ظاہر میں دوست ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں کاروباری پارٹنرز بھی..
اس صورتحال میں ہر ایک ایسوسی ایشنز اپنے آپ کو حق دار اور صحیح سمجھتی ہیں اور دوسرے ایسوسی ایشنز کو غلط ' اور اپنے آپ کو ٹھیک اور دوسرے کو غلط ثابت کرنے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا جاتا اس بارے میں لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کیونکہ بعض افراد کے چہرے ظاہری طور پر تو سفید ہیں مگر ان کے چہرے اور دل کالے ہیں. یہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں اور کچھ بھی کرنے کو تیار . اگر کسی کو یقین نہیں آتا توسپورٹس ڈائریکٹریٹ کیساتھ الحاق کا دعوی کرنے والے ان ایسوسی ایشنز سے وابستہ افراد کے بارے میں ان کے اپنے کھلاڑیو ں سے گفتگو کرکے دیکھ لیں ' تحقیق کرلیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح کے لوگ کب سے ایسوسی ایشنز پر براجمان ہیں اور اس کیلئے کیا کچھ کرنے کو تیار ہوتے ہیں.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے پاس اس وقت چالیس کے قریب ایسوسی ایشنز رجسٹرڈ ہیں جو کہ سالانہ گرانٹس لیتے ہیں مگر سب سے مزے کی بات تو یہ ہے کہ تقریبا بیشتر ایسوسی ایشن کے دو دو گروپ ہیں جن میں سے بعض کو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی سپورٹ بھی حاصل ہے کیونکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ والے بھی سرکار کے ملازم ہیں اور ان لوگو ں نے سرکار کی نوکری بھی کرنی ہوتی ہیں اس لئے اوپر سے کال آنے پر یہ لوگ بھی مجبورا کبھی کسی کا گرانٹ بنداور کبھی کسی کا گرانٹ جاری کرتے ہیں اس عمل میں کس حد تک سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کچھ اہلکار اپنے لئے بھی ڈنڈی مار دیتے ہیں.تاہم اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے وہ ایک ہی وار میں حرام کے جمع کئے ہوئے مال کو "زمین بوس " کرتا ہے.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے اندر ہونیوالی سیاست نے بھی کھیلوں کے ایسوسی ایشنز کواس حد تک بے بس کردیا ہے کہ کام کرنے والے افراد بھی پریشان ہیں کہ وہ کھیلوں کے فروغ کیلئے کیا کریں کیونکہ ان کے ہاتھ باندھے جارہے ہیںاب کھیلوں کی ایسوسی ایشنز پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے لوگ براجمان ہونگے تو پھر گرانٹس کس کو ملیں گے. یہ وہ سوال ہے جس نے بہت سارے ایسوسی ایشنز کے لوگوں کوحیران و پریشان کردیا ہے کیونکہ حال ہی میں کھیلوں کی ایک ہزار گرائونڈز کے منصوبے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے ایک ایسوسی ایشن کے صدر کی حیثیت سے عہدہ سنبھال لیا ہے جس کی اخبارات میں تشہیر بھی کی جارہی ہیں تاکہ ہر کوئی ہوشیار رہیں کہ " پراجیکٹ ڈائریکٹر" کے مقابلے میں " للو پنجو" قسم کے لوگ نہ آئیں کیونکہ پراجیکٹ ڈائریکٹر کو " میڈیا کے چہیتے بابو " کا تعاون بھی حاصل ہے اور یہ تعاون " بچے کی بھرتی" پر ہے جس کیلئے کوئی میرٹ بالکل نہیں. اس لئے بقول " تہ راتہ حاجی وایہ اور زہ بہ درتہ صاحب وایم" یعنی آپ میرا خیال رکھو اور میں آپ کا خیال رکھونگا" والی پالیسی ہے جس کے بعدواضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ " بے اور " بس"وزیراعلی اور وزیر کھیل محمود خان کی وزارت میں کونسے کھیل کے ایسوسی ایشن کو فنڈز ملیں گے اور کس کو حقیقی قرار دیا جائے گا کیونکہ" سرکار"کو وہ لوگ زیادہ پسند ہوتے ہیں جو "ہاں "میں "ہاں "ملاتے ہیں کیوں اور وضاحت مانگنے والے افراد کسی کو بھی پسند نہیں ہوتے.
کیا کھیلوں کی ایسوسی ایشنز سے موجودہ حالات میں گرانٹس کا خاتمہ ضروری نہیں . کیونکہ گرانٹس دینے کا عمل بند ہوگا تو پھر ایسوسی ایشنز کے کرتا دھرتا اپنے رشتہ داروں کو لیکر نکلیں گے اورٹورنامنٹس کیلئے سپانسر ڈھونڈیں گے یہ وہ واحد علاج ہے جس کی بدولت ان نام نہاد ایسوسی ایشنز کا علاج ممکن ہے . اگر سو فیصد نہیں تو از کم پچاس فیصد سپانسرشپ ٹورنامنٹ ' چیمپئن شپ کیلئے اگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ لازمی قرار دیں کہ جو بھی ایسوسی ایشنز سپانسرشپ لائے گا تبھی ان کو ٹورنامنٹ کیلئے فنڈز ملے گا وگر نا نہیں تبھی " دو نمبر " ایسوسی ایشنز کا خاتمہ ممکن ہے ساتھ میں " بے بس وزیر کھیل"کو اس بات پر بھی توجہ کیساتھ ساتھ ان کے وزارت کے اعلی عہدیدار سے وضاحت بھی مانگ لینی چاہئیے کہ " بھائی "آپ کو ہم نے گرائونڈز بنانے کیلئے غیر قانونی طریقے سے بھرتی تو کرلیا لیکن آپ گرائونڈز بنانے پر توجہ دیں ناکہ کھیلوں کے ایسوسی ایشنز میں مداخلت کریں اور اگر کرنی بھی ہے تو " باڈی بلڈنگ" تک محدود رہیں جس کے آپ ماہر ہیں.
اگرخیبر پختونخواہ ک وزیر کھیل " کھیلوں کی وزارت میں کھیلوں کیساتھ ہونیوالے اس کھلواڑ پر کچھ بھی نہیں کرسکتے ' نہ ہی ایسوسی ایشنزپر سالہا سال سے قابض افراد کے خلاف کچھ کرسکتے تو پھر انہیں اس وزارت سے مستعفی ہونا چاہئیے صرف نام کی حد تک تک وزارت رکھنے کا تو شائد وزیر کھیل کو فائدہ ہوگا لیکن کھیل اور کھلاڑیوں کو نہیں '

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420460 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More