جو پیڑ سے کٹ کے گرا ،ایندھن بنا خاک ہوا

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی شاخ اس وقت تک ہی سرسبز رہتی ہے جب تک وہ شجر سے جڑی رہے اور اسی وقت تک وہ ثمر بار بھی ہوتی ہے ورنہ جونہی اس کا شجر سے ناطہ توٹا وہ بے برگ و ثمر ہوجاتی ہے سوکھ جاتی ہے اور بالآخر ایندھن بن کر خاک ہو جاتی ہے میرا آج کا موضوع بھی ایک ایسے ہی ادب و صحافت کے ثمر بار شجر کے بارے ہی میں ہے اور اس علمی ادبی اور صحافتی پیڑ کو میں اور ساری دنیا کشمیر رائٹر فورم کے نام سے جانتی ہے اور جس مالی نے اس شجر کو بویا اور دن رات اس کی آبیاری کی اسے رشید احمد نعیم کے نام سے پورا عالم جانتا ہے ۔میری اور رشید احمد نعیم کی شناسائی ڈیڑھ عشرے پر محیط ہے اس ڈیڑھ عشرے میں ہم دونوں نے بہت سے صحافتی نشیب و فراز دیکھے اور عرصہ دراز سے ساتھ ساتھ رہے الحمداﷲ تا حال ساتھ ہیں ۔رشید صاحب ہمیشہ سے مہم جو شخصیت ہیں یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب ہم ایک کالم نویسوں کی ملکی تنظیم سے وابسطہ تھے کہ ایک دن رشید بھائی نے مجھے ٹیلی فون کیا اور کہنے لگے کہ بابر بھائی دیکھیں ہم جس تنظیم کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں یہ کسی نئے لکھنے والے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی بلکہ اکثر غیر فعال ہی رہتی ہے ، میں نے کہا کہ پھر آپ کیا چاہتے ہیں تو یہ مہربان فوری طور پر گویا ہوئے کہ ہم کالم نویسوں کی ایک ایسی تنطیم بنائیں گے جس کا مقصد صرف اور صرف نئے اور گمنام لکھاریوں کو دنیا سے متعارف کروانا ہوگا تاکہ ملک پاک کی نوجوان نسل اپنے خیالات سپرد قرطاس کر کے اپنی شناخت کروا کر اپنی پہچان بنا سکیں اور پھر ہم دونوں نے انویسٹی گیٹیو کونسل آف کالمسٹ کی بنیاد رکھی اور دیکھتے ہی دیکھتے وطن عزیز کے طول و عرض سے بہت سارے ممبران اس تنظیم آئی سی سی سے منسلک ہوگئے مسئلہ یہ تھا کہ اس تنظیم کے ساتھ صرف کالم نویس ہی منسلک تھے جبکہ ناول نگار ، شاعر ،افسانہ نویس اس میں شامل نہیں تھے جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ رشید احمد نعیم ایک مہم جو طبیعت کے مالک ہیں اور ہمیشہ خوب سے خوب تر کرنے کی لگن میں مگن رہتے ہیں اسی قلبی میلان کے زیر اثر انہوں نے لکھاریوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا کہ جس کے سبب ایسے گمنام لکھاری جنکی کوئی ذاتی شناخت نہ تھی انکو بیک وقت تیس سے چالیس اخبارات میں پبلش کروایا دن رات محنت کی مختلف اخبارات اور جرائد سے روابط مزید گہرے کئے تاکہ نوجوان لکھنے والوں کی کوئی تحریر چھپنے سے رہ نہ جائے اپنی راتوں کی نیندیں اپنی نسل نو کی پہچان کی خاطر تیاگ دیں جی ہاں کشمیر رائٹر فورم کا پلیٹ فارم بنا کر وطن عزیز کے کونے کونے سے ایسے گوہر نایاب متعارف کروائے کہ دنیا آپ کی خدمات کی معترف ہے مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں کل بھی رشید احمد نعیم کے ساتھ تھا اور آج بھی میرا شمار کشمیر رائٹر فورم کے بانیان میں ہوتا ہے جہاں تک رشید احمد نعیم کی خدمات کی بات ہے اس میں کوئی شک ہی نہیں مگر مجھے ان سے اکثر ایک شکائت رہی جس کا میں نے برملہ متعدد بار ان سے اظہار بھی کیا کیونکہ انہوں نے چند ایسے ناعاقبت اندیشوں کو بھی متعارف کروایا کہ جن کا کام صرف کام نکلوانا اور بعد ازاں ڈسنا تھا ایسے سنپولئے رشید بھائی نہ پہچان سکے اور مسلسل انکو آستین میں ہی لئے بیٹھے رہے نام گنوانے پر آؤں تو بہت سارے ایسے ہیں جنہوں نے رشید نعیم جیسے گھنے برگد کے سائے میں پروان چڑھ کر یہ سمجھ لیا کہ اب تو ہمارا نام بن گیا ہے کیوں نہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد خود بنائی جائے لہذا اس سوچ کے زیر اثر کئی ناخلف ایسے نکلے جنہوں نے اپنی الگ تنظیمیں بنا کر ہمارے ہی ممبران کو ورغلانہ شروع کر دیا اور مختلف ناموں سے کئی رائٹر تنظیمیں بنانے لگے جو لوگ ایسے دغا بازوں کے بہکاوے میں آئے وہ بے نشان ہوتے چلے گئے جن کی تحریریں رشید نعیم کے توسط سے چالیس چالیس اخبارات میں چھپتی تھیں اب پھر سے گمنامی کے اندھیروں میں چھپے ہوئے ہیں جن کو یہ زعم تھا کہ اب تو ہمیں زمانہ پہچان رہا ہے ہم لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کر کے خوب شہرت کے مزے لوٹیں گے مگر قدرت نے انہیں ہمیشہ کے لئے گمنامی میں دھکیل دیا میں ایسے نام نہاد ادیبوں اور کالم نگاروں کو کھلا چیلنج دیتا ہوں کہ کشمیر رائٹر فورم سے رابطہ توڑنے کے بعد سال 2020کے دوران مجھے اپنی کوئی ایک تحریر دکھا دیں جو بیک وقت 30/40قومی اخبارات میں چھپی ہو ایک بھی نہیں ہوگی ان شاء اﷲ ۔ کیونکہ مجھے بچپن سے اخبار بینی کی عادت ہے جو تاحال بھی جاری ہے جب تک صبح اخبارات دیکھ نہ لوں اک عجب بے چینی سی رہتی ہے بچپن میں صبح اٹھتے ہی گھر میں اخبار موجود ہوتا تھا پھر جوان ہوئے تو کچھ لکھنے لکھانے سے رغبت ہوئی یونہی اپنی تحریر کو دیکھنے کی غرض سے نیوز ایجنسی کا رخ کرنا عادت بن گئی اور اب موبائل فون نے یہ مشکل بھی آسان کر دی بہت سارے اخبارات پی ڈی ایف کی شکل میں مل جاتے ہیں جنہیں بغور دیکھتا ہوں اسی وجہ سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں نے ایسے خود ساختہ لکھاریوں کی کوئی تحریر نہیں دیکھی جو بیک وقت کبھی قومی اخبارات میں اتنی تعداد میں چھپی ہو جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے اگر انکی اتنی تعداد میں کوئی تحریر قومی اخبارات کی زینت بنی ہو تو مجھے کٹنگ بھیجیں کہ یہ دیکھیں فلاں دن ہماری تحریر کم از کم پچیس اور زیادہ سے زیادہ چالیس اخبارات میں موجود ہے تو میں صحافت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دوں گا اگر ہیں تو دیکھائیں ؟میں ایک مرتبہ پھر رقمطراز ہوں کہ جو شاخ پیٹ سے کٹ کے گری وہ بے برگ ثمر ہوئی اور ایندھن بنی جو ستارہ اپنے مدار سے نکلا وہ خلاء ہی میں بھسم ہوا ۔

 

Dr M A H Babar
About the Author: Dr M A H Babar Read More Articles by Dr M A H Babar: 83 Articles with 72995 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.