چھیدے بھانڈ نے اپنے تایازاد بھائی جیدو سے کہا میں
شہنشاہ کوبھرے دربارمیں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر" کانا" کہناچاہتا
ہوں ۔جیدونے جواب دیا،کیوں تم موت سے نہیں ڈرتے۔تمہاری اس مذموم جسارت
پرشہنشاہ تمہارا دانائی اوربینائی سے محروم سرتن سے جدا کروا دے گا اور تم
بے موت مارے جاؤگے،کیوں اپنی بیوی کو بیوہ اور اپنے بچوں کویتیم کرنے پرتلے
ہو ۔چھیدے نے جیدوسے کہا تم شرط لگاؤ ،جیدونے جواب دیاہٹ دھرمی چھوڑدو ورنہ
بھری جوانی میں مرجاؤگے ،کچھ دیربحث کے بعد دونوں میں ڈیل ہوگئی۔مقررہ دن
چھیدے نے شہنشاہ کوبھرے دربار میں"شاہ سے زیادہ شاہ کاوفادار" بنتے ہوئے
کہا ہمسایہ ریاست کے ایک شہری نے آپ کو"کانا "کہا تو مجھے شدید طیش آگیا
اورمیں نے اسے کہا خبردار اگرتم نے دوبارہ ہمارے شہنشاہ کو"کانا"کہا تومیں
تمہاری دونوں آنکھیں پھوڑدوں گالیکن وہ باز نہیں آیا اور بار بار آپ
کو"کانا "کہتا رہا،اِس اثناء میں وہاں مزید مقامی افراد اکٹھے ہوگئے
اورانہوں نے بھی اس کے دیکھادیکھی آپ کو"کانا "کہنا شروع کردیا ،میں نے
انہیں روکنے کیلئے ان کی بہت منت سماجت کی لیکن وہ بازنہیں آئے جس پرمیں
وہاں سے واپس آگیا ،یوں چھیدے بھانڈنے بہانے بہانے سے شہنشاہ کے روبرو اسے
بیسیوں بار "کانا" کہا۔شہنشاہ نے چھیدے کی وفاداری اورجانثاری سے متاثرہوکر
اسے قیمتی انعاما ت سے نوازاجبکہ جیدونے بھی دربا رسے باہر اسے ڈیل کے
مطابق مقررہ رقم اداکردی۔اب یادکریں لاہورکے ایک مقامی پارک میں حضرت
محمداقبال ؒ کامجسمہ منظرعام پرآنے کے بعد شورمچانے اوراسے نشربلکہ اس
معاملے کا"حشر نشر" کرنیوالے کردار کیاچھیدے "بھانڈ"اورکسی پاگل "سانڈ "سے
بدتر نہیں ہیں۔
جس کسی نے شروع میں یہ مجسمہ دیکھا تھا وہ بردباری اور رازداری سے متعلقہ
ادارے کورپورٹ کرتا اوراسے فوری ہٹادیاجاتا۔میرے نزدیک مجسمہ سازوں نے جانے
انجانے میں بدترین حماقت اورجہالت کاارتکاب کیا لیکن اس ایشو پر"شو "بلکہ
"شعبدہ بازی "کرنیوالے بڑے قومی مجرم ہیں۔ وہاں سے مجسمہ توڑدیاگیا،تاہم
اسے بنانیوالے کرداروں کی بازپرس کی گئی جبکہ ان میں سے کچھ کومعطل کیاگیا
لیکن جولوگ اس مجسمہ کو فوٹواورویڈیوکی صورت میں دنیابھر میں پہچانے
اورپھیلانے میں ملوث ہیں انہیں سزاکون دے گا۔ہمیں آزادی صحافت کی آڑ میں
اپنے ہاتھوں سے اپنے قومی وقار اوراپنی قومی قیادت کی عزت تارتارکر نے کاحق
کس نے دیا۔ہم سے کوئی بھی اپنی ہرنجی بات اپنے رازدار عزیزیادوست سے بھی
شیئرنہیں کرتا،جو"راز"ایک بارسرگوشی یا"آواز" کی صورت میں سینے سے باہرنکل
جائے پھروہ ـ"محفوظ" اور"محدود"نہیں رہتا ۔ ہم میں سے کوئی دانستہ اپنے باپ
دادایاخاندان کے کسی دوسرے فرد کی متنازعہ فوٹو وائرل نہیں کرسکتا ، توپھر
سچے عاشق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ،شاعر مشرق اورمصور پاکستان حضرت
محمداقبال ؒ کاتقدس کیوں پامال کیا گیا۔ جس طرح ایک انگلش محاورے کی روسے
"ہر شے کی زیادتی نقصان دہ ہے" اس طرح اگرہماری تحریروتقریرکی" آزادی"
دوسروں کیلئے "دل آزاری" کاسبب بنے تواس کے آگے بندباندھنا بہترہوگا۔میں
سمجھتاہوں جس خاتون کے ساتھ زیادتی کاواقعہ ہواس کانام اوراس کی تصویر نشر
کرنا اس سے بڑی زیادتی ہے۔ہمارا معاشرہ معتوب بچوں اور خواتین کوبھی نہیں
بخشتا،جس کی عزت رونددی جائے اسے زندگی بھر انسانوں کے روپ میں شیطانوں کی
تیکھی اورچبھتی نگاہوں کاسامنا کرناپڑتا ہے۔ہمارے ہاں قحبہ خانوں اورریسٹ
ہاؤسزسے گرفتارہونیوالی خواتین کی تصاویرپبلک کردی جاتی ہیں جبکہ قاتلوں ،
چوروں اورڈاکوؤں کے چہروں پرنقاب پہناکرانہیں میڈیا کے سامنے پیش کیاجاتا
ہے ۔پچھلے برس اسلام آباد میں کچھ شرپسند عناصرنے کھمبوں پر متنازعہ پوسٹرز
لٹکادیے توہمارے ایک نادان ہم وطن یعنی نادان دوست نے ان کی ویڈیو بنانے کے
بعد انہیں سوشل میڈیا پر نشر کردیا جوبعدازاں ہمارے نام نہاد اورنادان"
محبان وطن" نے دیکھتے دیکھتے وائرل کردی اوردشمن کی مکاری اورچنگاری
کوہمارے اپنوں نے اپنی" من مانی" اور"نادانی" سے شعلے میں تبدیل کردیا ۔اس
ملک میں منظم اور مستعد ادارے موجود ہیں ،آپ ایساکوئی شرمناک واقعہ دیکھیں
توفوری" 007 "بننے اور کارِثواب کی نیت سے اس کی ویڈیووائرل کرنے کی بجائے
متعلقہ اداروں کواطلاع اورانہیں ان کاکام کرنے دیں۔ کسی گمشدہ یالاوارث بچے
کی تصویراورتفصیل کوئی شہری وائرل کرنے کاحق نہیں رکھتایہ کام صرف پولیس
کرسکتی ہے لیکن ہمارے ہاں شہری اعلانیہ کارِسرکار میں مداخلت کررہے ہیں۔
دہشت گردی کے اندوہناک واقعات کے حساس مقامات پرابھی سکیورٹی اداروں نے
پہنچناہوتاہے لیکن وہاں بھی مخصوص نادان طبقہ ان سانحات کی ویڈیو
بنانااورانہیں فوری وائرل کرنا اپناقومی فرض اورخودپرایک قرض سمجھتا ہے،میں
سمجھتا ہوں اس سلسلہ میں فوری طورپرایک قومی ضابطہ اخلاق بنانے کی اشد
ضرورت ہے،جوکوئی اس کی خلاف ورزی کرے اسے فوری گرفتارکرلیا جائے۔سخت
"سزاؤں" کے بغیر دانستہ "خطاؤں" کاسلسلہ نہیں روکاجاسکتا۔ہم" شور"کو"شعور"
کانام دے کر اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ حکومت نے
ٹک ٹاک جیسی لعنت کوچندروزکیلئے بندکرنے کے بعد پھرسے" بحال" کردیا ،اس
ناسورنے ہماری نوجوان نسل کو" بدحال" کردیا ہے جبکہ ہمارے ارباب
اقتدارواختیارمعاشرتی اقدار کی پامالی پرخاموش ہیں۔نوجوان یادرکھیں محنت
اورعزت کے بغیر" شہرت" یقینا "شہوت" سے بدتر ہے۔
اہل اِسلام توحید پرستی کے علمبردارہیں،مسلم قوم اپنے معبود برحق کو دیکھے
بغیر اُس پرکامل ایمان رکھتی ہے۔ دین ِفطرت اِسلام کسی صورت مجسمہ سازی ،بت
سازی ،شخصیت پرستی کے نام پربت پرستی کی اجازت نہیں دیتا۔سرورِکونین حضرت
سیّدنا محمدرسول اﷲ خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم نے فتح مکہ
کے روزاپنے دست ِمبارک سے خانہ کعبہ میں پڑے متعدد بتوں کوتوڑدیاتھا۔ مکرم
ومحتشم حضرت سیّدنامحمد صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کی مبارک سنت کی
پیروی کرتے ہوئے اپنے عہد کے نڈر،مہم جواورعادل حکمران سلطان محمودغزنویؒ
نے ہندوستان پرحملے کے وقت سومنات نامی مندرمیں ہندوپنڈتوں کی طرف سے
زروجواہرسے بھراتھال پائے حقارت سے ٹھکراتے اوروہاں پڑے مرکزی بت کوپاش پاش
کرتے ہوئے فرمایا تھا ،"میں بت فروش نہیں بت شکن ہوں"۔مسلمان قادروکارساز
اﷲ رب العزت کی عبادت اوراس کی بارگاہ میں سجدے کرتے ہیں ،اسلام میں مجسمہ
سازی یابت سازی کاکوئی تصور نہیں لہٰذاء کپتان کی ریاست مدینہ میں جہاں
جہاں بھی کوئی مجسمہ نصب ہے اسے فوری ہٹانے یاتوڑنے کا دوٹوک فیصلہ از بس
ضروری ہے،ہماری اسلامی ریاست کسی نحوست اورنجاست کی متحمل نہیں ہوسکتی
۔پاکستان کی قومی معیشت کوسود ،شراب ،شباب اورقماربازی سے وصول سرمایہ کی
لعنت سے پاک کیاجائے۔شراب وشباب کی خریدو فروخت اورسرکاری سرپرستی میں گھڑ
دوڑسے موصول ہونیوالے ٹیکسز پاکستان کی معیشت میں سرائیت کرتے ہوئے اسے
مسلسل ناپاک کررہے ہیں،جہاں یہ" حالت" ہووہاں ہمارے "حالات "کس طرح بدل
سکتے ہیں ،قومی معیشت میں کثرت اور برکت کہاں سے آئے گی ۔پاکستان وہیں کھڑا
ہے لیکن ہمارے حکمران راستہ بھٹک گئے ہیں،باری باری اقتدارمیں آنے اورہماری
اقدارپرکاری ضرب لگانیوالے لوگ من حیث القوم ہمیں منزل مرادتک نہیں
پہنچاجاسکتے۔پاکستان درحقیقت اپنے عہد کے ولی کامل ،عامل ، درویش
اوردوراندیش حضرت محمد اقبال ؒ کا تخیل ہے جو باوفااورباصفا محمدعلی جناحؒ
کی سحرانگیز قیادت کی بدولت معرض وجودمیں آیا،قائدؒ نے اسے اِسلام کی تجربہ
گاہ بنانے کی نوید ِسعیدسنائی تھی لیکن مٹھی بھر شعبدہ بازاشرافیہ نے
مادروطن کوتختہ مشق بنادیا ۔اشرافیہ کے آشیرباد سے وفاق سے صوبوں تک"
بزدار" پرسکون انداز سے سیاسی "آکاش" پرراج جبکہ ہزاروں "بردبار"ہاتھوں میں
اپنی اپنی اسناد اٹھائے روزگار" تلاش" کررہے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ کے بے پایاں فضل سے حضرت محمداقبالؒ کواس جہان فانی میں قابل
قدراورقابل رشک برتری ،سروری،سرفرازی اور" بلندی" نصیب ہوئی اوردوسرے جہان
میں بھی" سربلندی" ان کامقدر بنے گی اوروہ عشاق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ
واصحبہٰ وسلم کی پہلی صف میں کھڑے ہوں گے۔میراکامل ایمان ہے کوئی مائی
کالعل ،چند" مالی" یامٹھی بھر"مال" والے قیامت تک حضرت محمداقبال ـؒ کے
مقام واحترام کی عمارت کومنہدم نہیں کرسکتے۔میرے نزدیک جوہرشناس حضرت محمد
اقبال ؒ کے فلسفہ خودی نے کمیاب محمدعلی جناح ؒکوبابائے قوم اور قائداعظم
ؒبنادیا۔حضرت محمداقبال ؒ خود بھی ایک نجات دہندہ اور بڑے قائد تھے ،وہ ایک
طرف اپنی تدبیر اور تاثیر سے بھرپور شاعری کے بل پر مسلمانان ِہند کو
سفیدفام سامراج کی غلامی سے "بیزاری" اورسیاسی"بیداری" کیلئے کلیدی
کرادارادا کررہے تھے تودوسری طرف انہوں نے برطانیہ میں مقیم گوہرنایاب
محمدعلی جناح ؒ کے اوصاف حمیدہ کوبھی پہچان لیا اورانہیں ہندوستان آنے
اورمسلمانوں کی قیادت کرنے کیلئے مدعواورآمادہ کیا۔حضرت محمداقبال ؒ
اورحضرت محمدعلی جناح ؒ دونوں کے نام" محمد"سے شروع ہوتے ہیں اوران شخصیات
میں مزید کئی قدریں مشترک ہیں۔بحیثیت قوم ہمیں ہمارے قومی ہیروزکی عفت
،رفعت ، عزت ا ورعظمت بہت مقدم ہے۔حضرت محمداقبال ؒ اورحضرت محمدعلی جناح ؒ
دونوں ہماری یادوں میں زندہ رہنے کیلئے مجسموں کے محتاج اوربت شکنی کے داعی
سلطان محمودغزنوی ؒ کے پیروکارمسلمان مجسمہ سازی کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔
|