میڈیا وار اور دینی حلقوں کا کردار

یہ میڈیاوارکادورہے،جس میں جنگیں بھی میڈیاکے ذریعے لڑی جارہی ہیں ۔حالیہ چندبرسوں میں میڈیاکی حیران کن ترقی ،وسعت وہمہ گیری نے دنیاکوایک ''گلوبل ولیج''بناکررکھ دیاہے۔ میڈیا کی حیران کن ترقی نے دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی شدید متاثر کیا ہے ۔ اس نے ہر معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ میڈیا کے طاقتور اثرات کے باعث معاشرتی رویے تبدیل ہوئے ہیں، جبکہ اس نے بعض روایات کو بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ میڈیا کے معاشرے پر بے پناہ اثرات کی وجہ سے ہی آج کے دور کو ذرائع ابلاغ کا دور قرار دیا جاتا ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا میں میڈیا کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے استعمال کرنے کا آغاز کئی دہائیاں پہلے ہو چکاتھا، تاہم ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ کی آمد کو ابھی چند سال ہی ہوئے ہیں ۔

یہ ایک نیا چیلنج ہے، جس نے ہمارے معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح دینی حلقوں کو بھی متاثر کیا ہے ۔ میڈیا کی روایتی پریکٹس اور تفریحی مواد کی زیادتی کے باعث اسے اسلام اور سماج مخالف سمجھ لیا گیا ہے اور بہت سے حلقے تو تمام تر برائیوں کی جڑ اسے ہی قرار دینے پر مصر ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ دینی حلقوں میں یہ بات سرایت کر چکی ہے کہ میڈیا ہمارے معاشرے میں الحاد ، فحاشی ، غیر اسلامی روایات اور ایسی ہی منفی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے تیار کردہ ایک سازش کا حصہ ہے اور اس سے صرف اور صرف وہی کام لیا جا سکتا ہے جو کہ آج کل پاکستانی ، بھارتی اور مغربی میڈیا پر نظر آ رہا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دینی حلقے اس سے دور نظر آتے ہیں ۔ میڈیا کے خلاف تقریروں اور تحریروں کی بھرمار ہے ،لیکن اس کے اثرات کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتے ہی جا رہے ہیں ، تاہم کچھ مخلص حلقوں نے میڈیا کے میدان میں دینی حوالے سے سرگرمی دکھائی ہے اور شاید اسی لیے اب کہیں کہیں میڈیا کو سمجھنے اور اس کے درست استعمال کی کوششیں بھی نظر آتی ہیں ۔ حالات کی ٹھوکروں نے میڈیا کی اہمیت باور کرا دی ہے ۔

یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر میڈیا ٹیکنالوجی کو دینی علوم رکھنے والے افراد مکمل پیشہ ورانہ اصولوں کے ساتھ استعمال کریں تو اسے تبلیغ دین کے لیے باآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ میڈیا ٹیکنالوجی بھی ہوائی جہاز ، موٹر کاروں اور دیگر سہولیات کی طرح ایک ایجاد ہی ہے ،چند آلات بنائے گئے ہیں کہ جن کو پیغام رسانی ، اپنے نظریات کے فروغ اور ان کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ اگر آپ اس کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کریں گے تو یہ آپ کا نظریہ اور پیغام ہر سو پھیلا دے گا اور اگر اس سے دور رہ کر محض تنقید سے کام چلانے کی کوشش کی تو یہ اتنا طاقتور ہے کہ آپ کی آواز کو گمنام بنا دے گا یا آپ خود ہی اس کے اثرات کے سامنے خاموش ہو جائیں گے ۔ آج ہم گاڑیوں ، کمپیوٹرز اور ایسی ہی دیگر چیزوں سے صرف اس لیے دور ہونا پسند نہیں کریں گے کہ ان کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے ۔ یہی حال میڈیا ٹیکنالوجی کا ہے ۔ یہ تو دعوت کو تیز ترین طریقے سے بڑے پیمانے پر پھیلا دینے کا ہتھیار ہے ۔ اگر ملحدین اپنا پیغام پھیلانے کے لیے ایسا مواد تیار کر سکتے ہیں کہ جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنے ،تو اسلامی اصولوں کے اندر رہتے ہوئے بھی ایسا مواد تیار کیا جا سکتا ہے کہ جس سے عقائد پر بھی فرق نہ آئے اور دعوت کا کام بھی ہو سکے ۔ شرط یہ ہے کہ اس کا استعمال سیکھ کر آلات کو مرضی کے مطابق چلانا سیکھا جائے ۔ سوچ و بچار کے بعد اور بھرپور تیاری سے مواد کی تیاری کے لیے کام کیا جائے ۔

یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں دین کی جو رہی سہی جھلک نظر آتی ہے وہ مسجد و محراب کے ان وارثوں کی ہی وجہ سے ہے ۔ مدارس کے پڑھے ہوئے علماکرام ہی ہمارے معاشرے میں دین کے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔دعوت کے جذبے سے ان آلات کو اپنی آواز کفر کے ایوانوں میں پہنچانے کے لیے تصرف میں لایا جائے ۔ میڈیا کے درست استعمال کے حوالے سے درپیش مسئلہ کو سمجھنے اور اس کو حل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ یہ واضح ہے کہ اسلام گوشہ نشینوں اور تارک دنیا افراد کا دین نہیں ہے اس کے ماننے والے معاشرے کے فعال رکن بن کر جیتے ہیں ۔تو پھر کیونکر دینی طبقہ کی جانب سے میڈیا کے میدان کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے ؟سوال یہ ہے کہ کیا ابلاغ کا شعبہ معاشرے کی تشکیل میں شامل نہیں ہوتا ؟ دینی دعوت کا کام سرانجام دینے والے لوگ اور تنظیمیں کیونکر اس کے بارے میں غور نہیں کرتے ۔

یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ میڈیا کا خود اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو چلانے والے اپنے خیالات عام کرتے ہیں ۔ اگر دینی لوگ اس کی باگ دوڑ سنبھالیں گے تو یقینا اسے ہدایت کا سرچشمہ بنایا جا سکتا ہے اور اگر کم دینی علم رکھنے والے یابالکل ہی نابلد لوگوں کے ہاتھ میں میڈیا کی طاقت دے دی جائے تو پھر یقینا یہی کچھ ہو گا کہ جو آج آپ دیکھ رہے ہیں ۔ یہ واقعی المیہ ہے کہ اس وقت جو دینی پروگرام پیش کیے جا رہے ہیں ان میں ٹھوس دینی علم رکھنے والوں کی بجائے نیم دینی علم رکھنے والے لوگ غالب ہیں ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مستند دینی حلقے اچھے اینکر اور ٹی وی پر اچھے بولنے والے افراد فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں ،یا ان کی اس جانب سرے سے توجہ ہی نہیں ہے،جس کی وجہ سے یہ میدان جاوید غامدی اور ڈاکٹر عامر لیاقت جیسے لوگوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔اگر آج میڈیا پر لادینیت اور سیکولرازم غالب نظر آتا ہے اور ایسی چیزوں کی بہتات ہے جو کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عالمی سطح پر اسلام مخالف اداروں نے اس کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں ۔ ایسے ادارے موجود ہیں کہ جو مکمل منصوبہ بندی کے ذریعے میڈیا پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ ریسرچ سینٹرز قائم کیے گئے ہیں ، سروے رپورٹس اور انکشافات کے زریعے میڈیا کو ایک خاص لائن فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اسلام مخالفت ادارے میڈیا سے منسلک ہنرمند اور تجربہ کار افراد کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی میں ایسا مواد تیار کیا جاتا ہے جو کہ بظاہر تفریح ، کھیل یا کسی بھی اور مقصد کے لیے ہوتا ہے لیکن اس کا پوشیدہ مقصد معاشرے میں لادینیت پھیلانا ہے ۔ میڈیا پر اس مواد کی اشاعت کے لیے ا سپانسرز ڈھونڈے جاتے ہیں اور ایک نیٹ ورک کے ذریعے اس کو عام کر دیا جاتا ہے ۔

اسی طرح دینی طبقات میں اچھی کتابیں لکھنے کا رواج تو عام ہے لیکن میڈیا کے لیے مضامین نہیں لکھے جاتے ۔ ہمارے ہاں حالات حاضرہ کو دینی نقطہ نظر سے زیر بحث لانے کا انتظام نہیں ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ علماکی کتابیں انہی کے حلقے کے لوگ تو ضرور پڑھتے ہیں یا پھر اچھا ادبی ذوق رکھنے والے طبقے بلکہ اس میں مسلک اور جماعت کی تفریق بھی حائل ہو جاتی ہے ۔ جبکہ اگر یہی علمااچھے انداز سے میڈیا میں اظہار خیال کریں ، کالم لکھیں ، معاشرتی مسائل پر فیچر لکھیں تو نہ صرف زیادہ بڑا طبقہ مستفید ہوگا بلکہ لوگ دین کی طرف مائل بھی ہوں گے ۔ حالات حاضرہ کو دینی نقطہ نظر سے زیر بحث لانے سے یہ بھی فائدہ ہوگا کہ علمائے کرام کے بارے میں عام تاثر بھی دور ہو گا کہ یہ وقت کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے ۔

الیکٹرانک میڈیا ذرائع ابلاغ کا ایک طاقتور حصہ ضرور ہے ۔انٹرنیٹ تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے اور یورپ و امریکہ میں اتنے لوگ اس کے ذریعے مسلمان ہوئے ہیں جن تک پہنچنا شاید ویسے ممکن ہی نہ ہوتا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی موبائل ایس ایم ایس سروس سے کئی ہزار لوگ مسلمان ہو چکے ہیں ۔ اخبارات میں اچھے لکھنے والوں کے لیے ابھی بہت گنجائش موجود ہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا میں اچھے بولنے والوں کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے ۔ میڈیا معاشرتی تبدیلی کا طاقتور ترین ہتھیار ہے اور دعوت کے میدان میں اس کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے ، اس لیے دینی طبقے کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا سے دور رہنے کی پالیسی کوترک کرتے ہوئے اسے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوششوں کا آغاز کریں ۔ اس حوالے سے ہونے والاکام بارش کاپہلاقطرہ اورایک اچھاآغازتوضرورہے،مگرکافی ہرگزنہیں۔

مقام صدتشکروامتنان ہے کہ اس حوالے سے دینی اداروں میں کافی بیداری پائی جاتی ہے،تاہم ابھی بہت کچھ کرناباقی ہے۔یہ کام جواب بھی چندمدارس،چندتنظیموں اوراداروں یاافرادکی انفرادی محنت تک محدودہے،اس کومزیدوسعت دینے کی اس میڈیاکے تیزترین دورمیں جتنی ضرورت ہے ،شایداس سے قبل کبھی نہ تھی۔ضرورت اس امرکی ہے کہ دینی مدارس کمپیوٹرکلاسزکوایک لازمی مضمون کے طورپراپنے نصاب میں شامل کریں اوردینی علوم کی طرح اس کی تعلیم بھی مفت فراہم کرنے کے لیے اہل خیرکے تعاون سے انتظام کریں۔اللہ تعالیٰ جومسبب الاسباب ہے ،انشاء اللہ اس کے لیے بھی وسائل عطافرمادے گا۔عام طورپردیکھایہ گیاہے کہ دینی مدارس میں نمائشی طورپرایک کمپیوٹرلیب قائم کردی جاتی ہے،تاکہ جدیدذہن رکھنے والے اہل خیرکومطمئن کرنے کے لیے اس لیب کادورہ کرادیاجائے اوران کے اس تاثرکودورکیاجائے کہ دینی مدارس میں اس جانب توجہ نہیں دی جاتی،حالاں کہ ضرورت اس سے آگے کی جانب سوچنے،منصوبہ بندی کرنے اورقدم بڑھانے کی ہے،جس کی طرف معدودے چنداداروں کے خاطرخواہ توجہ نظرنہیں آرہی،حالاں کہ ہمارادین،ہماراپس منظر،ہمارے مخصوص طرزتعلیم اس بات کاہمیشہ متقاضی رہاہے کہ دورحاضرکے چیلنجوں سے صرفِ نظرکرنے کی بجائے ان کے مقابلے کی کوشش اورپیش بندی کی جائے۔
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 307957 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More