ہم نے ملک کو درپیش بڑا خطرہ بھی ہلکا لے لیا- ایک گھنٹے میں شہر ڈوب سکتا ہے

image
 
ملک کے مختلف شہروں میں صدیوں سے رائج موسمی دورانیے بدل رہے ہیں جیسے لوگ آنکھیں بدل لیتے ہیں۔ گرمیاں وقت سے پہلے شروع ہوجاتی ہیں اور سردیوں میں کسی برس تو سخت جاڑا پڑتا ہے اور کبھی سردیاں بھی دھوپ سے پریشانی میں، موسم کی حدت جھیلتے گزر جاتی ہے۔ افریقہ کے صحرا میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے جانے پر ریت کے ساتھ برف بچھی نظر آتی ہے تو کبھی نجد اور حجاز کے خطوں میں ابر بہاراں اور برفباری کا غیر متوقع نظارا دیکھنے کو ملتا ہے۔ ٹھنڈ کے عادی گورے سرد خطوں میں گرمی کی حدت سے تلملا اٹھتے ہیں تو براعظم امریکہ سمندری طوفانوں کے سیزن آنے پر لرزاں نظر آتا ہے۔
 
موسمی تغیرات کو بڑا سبب ماہرین نے موسمیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا ہے۔ ان سے لاحق خطرات کا شکار پاکستانی عوام بھی ہیں۔ گو کہ پاکستان گلوبل وارمنگ یا عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بننے و الی گرین ہاؤس گیسوں کے عالمی سطح پر اخراج کا صرف ایک فیصد کا حصہ دار ہے تاہم اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلیوں و درجہ حرارت میں اضافے سے پاکستان کی 22 کروڑ نفوس سے زائد آبادی کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔
 
جرمن واچ نامی تھنک ٹینک کے گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس‘ میں پاکستان ان 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ اس کی وجہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان سب سے زیادہ متاثرہ خطے میں واقع ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے پاکستان مشرق وسطی و جنوبی ایشیا کے وسط میں واقع ہے جو شدید موسمیاتی تبدیلیوں اور واقعات سے گزر رہا ہے جن میں سیلاب، خشک سالی، طوفان، شدید بارشیں اور گرم درجہ حرارت شامل ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے اوسط عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ اور دیگر زہریلی گیسز کی بڑھتی ہوئی مقدار کو قرار دیا جا رہا ہے۔ پچھلے قریب 20 برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے سبب پاکستان میں سالانہ بنیادوں پر 523.1 اموات اور مجموعی طور پر 10,462 اموات ریکارڈ کی گئیں۔ اس عرصے میں طوفان، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے سبب تقریباً چار ارب امریکی ڈالر کے برابر مالی نقصانات بھی ریکارڈ کیے گئے۔
 
image
 
پاکستان میں کراچی بھی اس صورتحال سے خطرات کی زد میں ہے۔ کراچی کو خطرہ لاحق ہے اور اس کی بڑی وجوہات میں قدرتی نظام میں دخل اندازی شامل ہے۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور صنعتی آلودگی، صورتحال میں مزید خرابی کا باعث ہیں، 1945ء میں پاکستان بھر میں چار لاکھ ہیکٹر زمین پر مینگرو کے جنگل تھے تاہم اب یہ رقبہ گھٹ کر ستر ہزار ہیکٹر تک رہ گیا ہے۔ مینگرو کے درخت سونامی جیسی قدرتی آفات کی صورت میں دفاع کا کام کرتے ہیں۔ کراچی میں 1945ء میں آخری مرتبہ سونامی آیا تھا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق بحر ہند میں کسی بڑے زلزلے کی صورت میں سونامی کی لہریں ایک سے ڈیڑھ گھٹنے میں کراچی پہنچ سکتی ہیں اور یہ پورے شہر کو لے ڈوبیں گی۔
 
قدرت کے نظام میں دخل دینے کی وجہ سے سیلاب اور شدید گرمی کی لہریں دیکھنے کو مل رہی ہیں، زیادہ پرانی بات نہیں جب پاکستان میں آنے والے سیلابوں کے نتیجے میں سولہ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ سیلابی ریلوں نے ساڑھے اڑتیس ہزار اسکوائر کلومیٹر رقبے کو متاثر کیا اور اس کے مالی نقصانات کا تخمینہ دس ارب ڈالر تھا۔ کراچی میں 2015 آنے والی ہیٹ ویو یعنی شدید گرمی کی لہر نے بارہ سو افراد کو لقمہ اجل بنا دیا۔ ماہرین کے مطابق مستقبل میں ایسے واقعات قدرتی آفات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک عام شہری اس صورتحال کو قابو میں لانے کے لئے اپنی بساط کے مطابق کیا کرے؟ یہ سوال کہ پاکستان اس صورتحال سے کیسے بچے، کا جواب ڈھونڈنے کی جو کوشش کی گئی، اس پر پیش رفت نہایت سست ہے۔ اس حوالے سے ہمارا مزاج ہے کہ جب کوئی ناگہانی سر پر ٹوٹتی ہے تو عملی اقدام لینے کا تہیہ کرلیا جاتا ہے، گزرتے وقت کے ساتھ یہ عزم سرد پڑجاتا ہے اور تسلسل کے ساتھ پیش رفت نہیں کی جاتی۔
 
image
 
مسلم لیگ ن کی حکومت میں پاکستان کی سینیٹ نے ایک پالیسی کی منظوری البتہ دے دی تھی، جس کے مطابق پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے ایک اتھارٹی قائم کی جانی تھی۔اس حوالے سے 2015ء میں طے ہونے والے پیرس کے معاہدے میں پاکستان نے 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں تیس فیصد کمی لانے کا ہدف مقرر کیا تھا۔ اس پر تقریباً چالیس ارب ڈالر کے اخراجات کا تخمینہ تھا۔ پاکستان نے یہ ہدف خود مقرر کیا تھا۔ اسی طرح موجودہ حکومت کے بلین ٹری، گرین پاکستان، مقامی حکومتوں کی سطح پر شجرکاری مہم کا فروغ، ناکافی کاوشیں ضرور ہیں تاہم کچھ نہ کرنے سے تو بہر حال بہتر ہے۔ لیکن حقتیقت یہی ہے کہ تباہی، سر پر آئی ہے اور اس سے بچنے کے لیے وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE: