زندگی کا قیمتی اثاثہ:- " خوش رہنا"

خوشی کوئی بازار میں فروخت ہونے والی شے نہیں جو کوئی پیسوں سے حاصل کر لے گا اور غریب اس کی تمنا کرے گا۔

خوشی کوئی بازار میں فروخت ہونے والی شے نہیں جو کوئی پیسوں سے حاصل کر لے گا اور غریب اس کی تمنا کرے گا۔ یہ نہ کوئی مادی شے ہے جو کسی سے چھین لے گا نہ کسی کی میراث ہے۔ یہ طاقتور ہتھیار کمزور لوگ اپنی زندگیوں میں حاصل کر لیتے ہیں مگر بہت سارے طاقتور اس کو حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

آخر یہ خوشی ہے کیا ؟ یہ دماغ کی وہ حالت ہے جب انسان اپنے آپ کو دماغی طور پر مطمئن محسوس کرتا ہے ۔ چاہے وہ اپنے دل کو تسلی دے کر، کسی عقلمند کا قول پڑھ کر، اچھے دنوں کا انتظار کر کے، یا کوئی موٹیویشنل ویڈیو دیکھ کر۔ یہ سب کچھ خوشی حاصل کرنے والے پر منحصر کرتا ہے۔

مختلف دماغ اس کو اپنی سوچ کے مطابق بیان کرتے ہیں۔ ادیب خوشی کو اپنے تخلیقی لفظوں میں ڈھونڈتا ہے ، کتابوں کا شائقین لفظوں کی حرارت سے محسوس کرتا ہے۔ سیاست دان اپنے مخالف کی ہار میں پاتا ہے اور اسی طرح کھلاڑی اپنی فتح پا کر محسوس کرتا ہے۔

آج کے انسان نے نے ہر چیز کا محور کیمیکلز بنا لیا ہے چاہے وہ خوراک ہو یا سکون کرنے کی شے ہو۔ اس عارضی خوشی کا محور بی کیمیکلز ہیں چاہے وہ سگریٹ ہو یا آج کل کا گھٹیا نشہ جس کو شیشہ کہتے ہیں ۔ یہ کیمکلز اورینٹڈ خوشیاں ہمارے دماغ کو عارضی طور پر سکون تو مہیا کرتی ہیں مگر اس کے ساتھ صحت صحت کو بے حد نقصان دیتی ہیں۔

ہم نے نہ صرف یہ کیمیکل اورینٹڈ خوشیاں دریافت کی ہیں بلکہ وہ چھوٹے چھوٹے لمحے جو ہماری بڑی بڑی خوشیوں کا ذرائع تھے وہ بھی ہم نے کھو دیے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہمارے امتحانات ہوتے تھے، بڑوں سے بڑی شدت سے دعا کی اپیل کرتے تھے ۔ اس دعا کو حاصل کرنے میں جو رومینس ہوتا تھا وہ ہماری خوشیوں کا ذریعہ ہوتا تھا، ہمیں سکون ملتا تھا۔

اگر ہم اس قابل نہیں کہ کسی کو کچھ دے نہیں سکتے مگر اس کے چہرے پر مسکراہٹ لا سکتے ہیں۔ یہ مسکراہٹ کسی کے دل میں آپ کے لیے بغیر کسی دولت کے گھر بنا سکتی ہے۔
 

محمد تقی سجاد
About the Author: محمد تقی سجاد Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.