شعر و ادب کی مایہ ناز شخصیت ۔اشرف قدسی کی پانچویں برسی

دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو شہرت اور دولت کے پیچھے بھاگنے کے بجائے گوشہ نشینی اختیار کر کے اپنی خداداد تخلیقی کاوشوں کو پروان چڑھانے میں اس قدر مگن ہوجاتے ہیں کہ دنیا والوں کو ان کی علمی‘ ادبی خدمات اور اہمیت کا اس وقت علم ہوتا ہے جب ایسے لوگ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔ ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیات میں اشرف قدسی بھی شامل ہیں۔جن کا وصال 7فروری 2015ء کو ہوااور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔نام کے حوالے سے ان کو شاید زیادہ لوگ نہ جانتے ہوں لیکن انہوں نے گوشہ نشینی میں رہتے ہوئے شعر وادب کی دنیا میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ 2003ء میں ان کی شخصیت اور فن پر پنجاب یونیورسٹی (اورینٹل کالج) کی جانب سے ایم اے کی ایک طالبہ عائشہ صوفی نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا۔آپ ضلع جالندھر کے ایک گاؤں" میاں وال الراعیاں " میں 1938ء کو پیدا ہوا۔قیام پاکستان کے وقت آپ کا خاندان ہجرت کرکے چک 10/2ایل نزد ہڑپہ آباد ہوا۔ 1952ء میں ورنیکلر مڈل کا امتحان سکول میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد آپ گورنمنٹ ہائی سکول میں داخل ہوئے۔1956ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرکے گورنمنٹ کالج ساہیوال میں داخلہ لے لیا لیکن انگریزی میں کمپارٹ کی وجہ سے ایف اے کا امتحان پاس نہ کرسکے۔ ۔ بعد ازاں اشرف قدسی اور طارق عزیز( نیلام گھر والے) روزگار کی تلاش میں لاہور چلے آئے۔ یہاں پہنچ کر آپ اور طارق عزیز شعر گنگناتے ہوئے ا لاہور کی سڑکوں پر گھومنے لگے۔ ابتدائی چند راتیں لاہور ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر گزریں اور چند راتیں روزنامہ آزاد کے دفتر کی بغیر بازو کی کرسیوں پرانہوں نے بسر کیں۔ ایک مہینہ زیب ملیح آبادی کے مہمان رہے او سال بھر عبدالقدیر رشک کے مہمان بنے۔لاہور میں سب سے پہلے انہیں روزنامہ آزاد اور پھر روزنامہ سفینہ میں کام کرنے کا موقع میسر آیا۔ انہی اخبارات میں وقار انبالوی کی نگرانی میں کام کیا ۔ 1961ء میں آپ کی طویل نظم آہنگ وطن کتابی صورت میں طبع ہوئی۔ اسی سال آپ پھر واپس ساہیوال چلے گئے۔ ضلع کونسل ساہیوال ایک ہفت روزہ رسالہ منٹگمری گزٹ کے نام سے نکالنے والی تھی۔ مجید امجدکے حکم پرآپ اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ مصطفی زیدی جب ڈپٹی کمشنر اور چیئرمین ضلع کونسل ساہیوال مقرر ہوئے تو انہوں نے اس رسالہ کا نام بدل کر" فردا " رکھ دیا۔ ساہیوال میں قیام کے دوران آپ نے متعدد کتابیں بھی تالیف کیں۔جنوری 1970ء میں ملازمت سے استعفیٰ دے کرآپ ایک بار پھر قسمت آزمائی کے لیے لاہور چلے آئے۔ اگست 1973ء آپ نے مصطفی زیدی پر ایک ضخیم کتاب المرحوم ترتیب دی۔ ستمبر 1973ء میں پنجاب کے وزیر خزانہ محمد حنیف رامے سے اطہر ندیم کے توسط سے آپ کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ محکمہ بلدیات کے پیپلز ورکس پروگرام کے تحت ایک رسالہ" خدمت" کے نام سے جاری کرنا چا ہتا ہے ،اس کے ایڈیٹر کے طور پر آپ کا نام منظور ہوا ہے ۔ اس طرح آپ ایک بار پھر سرکاری صحافت سے وابستہ ہو گئے۔اس محکمہ میں آپ نے تقریباً سوا گیارہ سال تک بطورایڈیٹر پندرہ روزہ , خدمت کام کیا۔ دسمبر 1984ء کے آغاز میں پاکو کے منیجنگ ڈائریکٹر میجر جنرل محمد اکرم جنجوعہ سے ملاقات ہوئی انہوں نے فرمایا ’’پاسکو کو آپ کی ضرورت ہے‘ کل سے چلے آیئے۔چنانچہ یکم جنوری 1985ء کوآپ نے پاسکو میں سینئر پبلک ریلیشنز افسر کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا اور اپنی ریٹائرمنٹ (1997ء تک) اس ملازمت کو جاری رکھا۔ اشرف قدسی مضبوط اعصاب اورمضبوط کردا کے حامل خوددار انسان تھے ۔ مجھے ان کے ماتحت تین سال تک کام کرنے کا موقع ملا ۔ میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے اپنے پختہ اصولو ں پر کاربند رہتے ہوئے دیکھا ۔ یہ بھی درست ہے کہ استعفی ہر وقت ان کی جیب میں ہوا کرتا تھا جب بھی کوئی اعلی سرکاری افسر انہیں ناجائز کام کرنے کے لیے کہتا یا ان کے ضمیر کو خریدنے کی کوشش کی جاتی تو وہ فوری طور پر اپنا استعفی جیب سے نکال کر پیش کردیتے۔میں سمجھتا ہوں ایسے باصلاحیت ٗ غیور اور جرات مند لوگ میری زندگی میں بہت کم ہی نظر آئے ہیں ۔بلکہ ایسے لوگ اپنے پختہ عزائم اور وضع کردہ اصولوں کی بدولت تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اشرف قدسی ،ستلج بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں پانچ مرلے کے ایک چھوٹے سے مکان میں تصنیف وتحریر کی ایک ایسی دنیا بسائے ہوئے تھے جس میں داخل ہونے والا باذوق انسان ورطۂ حیرت میں گم ہو جاتا تھا۔ آپ کئی کتابوں کے مرتب اور شاعری کی کئی کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ امہات المومنین رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اور رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر تحقیقی کام بھی کر رہے تھے کہ موت کے فرشتے نے ان کے جسم اور روح کا رشتہ منقطع کردیا۔انکی میت کو آبائی گاؤں چک نمبر 210گ ۔ ب ساہی وال لے جایا گیا جہاں کی مٹی میں دفن ہوئے انہیں پانچ سال ہوچلے ہیں ۔اﷲ انہیں غریق رحمت فرمائے۔ ’’شب گل‘‘ ان کے اشعار پر مشتمل کتاب ہے جو ان کی یادوں کو ہمیشہ تازہ کرتی رہے گی۔

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 784322 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.