حکومت بجٹ پیش کرتی ہے تو عام آدمی کی دلچسپی یہ ہوتی ہے کہ کونسی چیز کتنی مہنگی ہوئی اور خاص کر کھانے پینے اور عام استعمال کی اشیاء کی قیمت پر کیا اثر پڑا۔تنخواہ دار طبقہ اور بالخصوص سرکاری ملازمین اس لیے ٹی وی کے آگے سے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے کہ سن سکیں کہ ان کی تنخواہوں میں کتنا اضافہ کیا گیا ہے۔بوڑھاپینشنربھی ایک اُمید لگا کر معاشیات کی سمجھ میں نہ آنے والی گتھیوں میں اُلجھی ہوئی تقریر اس لیے سنتا ہے کہ شاید ان کے بڑھاپے پر بھی رحم کیا جائے اور ان کی خدمات کے صلے میں ان کی پینشن میں بھی اضافہ کیا جائے اور اکثر یہ اضافہ تھوڑا یا بہت کر ہی دیا جاتا ہے لیکن موجودہ حکومت نے اس روایت کو بھی توڑ دیا اور تنخواہوں اور پینشن میں کوئی اضافہ نہیں کیا جبکہ دوسری طرف ہر چیز کی قیمت میں کئی کئی گنا اور ایک بار نہیں بلکہ کئی کئی بار اضافہ کیا گیا اور کیا جا رہا ہے اور تنخواہ دار آدمی اس با ت پر مجبور ہے کہ اپنی دو سال پرانی تنخواہ میں ہی آج کے حالات اور آج کی قیمتوں کا مقابلہ کرے اور یو ں جو دو وقت کی روٹی کھاتا تھا اور بس اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتا تھا وہ اس بھرم کوقائم رکھنے کے لیے ایک وقت کی روٹی پر مجبور ہو چکا ہے۔دوسری طرف حکمران طبقہ ہے جو لامحدود مرا عات کا حقدار بنا ہو ا ہے۔زندگی کی ہر ضرورت اور ہر سہولت سرکا ر سے مفت حاصل کرنے کے بعد لاکھوں کی تنخواہ بھی وصول کر رہاہے۔حیرت اس بات پر ہے کہ خالی خزانے کا رونا رونے والے حرکات امیر بادشاہوں والی کرتے ہیں وہ بادشاہ جنہیں نہ کوئی روک سکتا تھا نہ ٹوک سکتا تھا۔آج بھی وہی حالات ہیں لیکن یہاں ٹھپہ جمہوریت کا لگا ہو اہے یعنی لوگوں کی حکومت،لوگوں کے ذریعے، لوگوں کے لیے،لیکن دراصل اپنی حکومت اپنے ذریعے اور اپنے لیے۔پہلے زمانے میں شاعری کی صورت میں بادشاہوں کے قصیدے لکھے جاتے تھے یعنی درباری شاعر رکھے جاتے تھے اب مشیرانِ خاص رکھے گئے ہیں جو جنابِ وزیر اعظم کی مدح سرائی کریں۔کم ازکم میں نے شہباز گل صاحب کو کوئی کام کی بات کرتے نہیں سنا سوائے اس کے کہ وہ وزیراعظم کی تعریف میں رطب للسان رہیں ویسے وہ بھی یہ تعریف مفت میں نہیں کرتے بلکہ اس کے لیے باقاعدہ تنخواہ اور مراعات لیتے ہیں اور وہ اکیلے یہ کام نہیں کرتے بلکہ ایسے کئی دوسرے بھی ان کے شریکِ کار ہیں جو ایک ہی کام سرانجام دیتے ہیں۔حیرت ہے کہ ان سب اللّوں تللّوں کے لیے حکومت کے پاس پیسے ہیں لیکن تنخواہیں اور پنشن بڑھانے کے لیے نہیں۔اس بات کے لیے بھی خزانہ بھرا ہوا ہے کہ ممبرانِ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر رشوت دی جائے تاکہ وہ ان کروڑوں کے عوض حکومتی پارٹی سے جڑے رہیں اور حکومت کی معمولی اکثریت کو زک نہ پہنچے اور کہیں وہ حکومت کی کرسی سے اتر نہ جائیں۔یہی اسمبلیاں بیٹھ کر اپنے لیے تا حیات مراعات کے لیے قوانین اور بِل پاس کرتی ہیں اور نہ صرف اپنے بلکہ اپنے پورے خاندان کے لیے وہ سہولیات حاصل کرتی ہیں جس کا ایک عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا۔کے پی کے کی اسمبلی میں ایسا ہی بِل پیش کیاگیا جس کی حکومتی ارکان کے ساتھ ساتھ اپوزیشن ارکان نے بھی حمایت کی ان کا مطالبہ تھاکہ دیگر مراعات کے ساتھ ساتھ تا حیات بلیو پاسپورٹ کا حق بھی دیا جائے اور وی آئی پی لاؤنج، حکومتی گیسٹ ہاؤس اور صحت کی سہولیات کی تفویض کی جائیں۔ا ب یہ مراعات دینے کے لیے حکومت کے پاس پیسے ہیں جو صرف پانچ سال کام کرنے والوں کو دی جارہی ہیں تو ساری عمر کام کرنے والے پینشنرز کیوں کسی سہولت کے حقدار نہیں۔تنخواہ دار طبقے نے تو احتجاج کر کے اپنا حق لے ہی لیا لیکن بوڑھے پینشنرزجو اپنی جوانی کام کرتے ہوئے گزار چکے ہیں اور اب بڑھاپے میں یہ ہمت بھی نہیں رکھتے کہ سڑکوں پر نکلیں اور پولیس کی لاٹھیاں کھائیں یا آنسو گیس کے دھوئیں سے اپنی عینک لگی بوڑھی آنکھیں اندھی کراوئیں کیونکہ اگر یہ لوگ باہر نکلے تو بھی کچھ بعید نہیں کہ حکومت ان مجبور و معمر لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کر لے اور اگر نہ بھی کرے تو بھی حکومت کے لیے یہ انتہائی شرمناک ہو گا اگر یہ سارے بوڑھے سڑکوں پر آکر بیٹھ گئے جن میں اپنے وقت کے اعلیٰ افسران سے لے کر عام اہلکار تک سب شامل ہوں گے کیونکہ ان کو بھی اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے اور ان کی اکثریت عمر کے اس حصے میں بھی نہیں کی کوئی دوسرا کام کر سکیں۔یہاں پینشنرز کو ایک گلہ تنخواہ دار طبقے سے بھی ہے کہ وہ اپنا حق مانگتے ہوئے اپنے ان پیشروؤں کو کیوں بھول گئے اور یہ بھی کہ آخر انہوں نے بھی ریٹائر ہو جانا ہے تب انہیں بھی کوئی یاد نہیں رکھے گا۔محترم شیخ رشید اور پرویز خٹک دونوں نے اس معاملے کو حل کرتے ہوئے پینشنرز کو مکمل طور پر نظر انداز کیا یہ سوچے بغیر کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی پوری جوانی ملک وقوم کی خدمت کی ہونا تو یہ چاہیئے کہ انہیں ہیرو سمجھا جاتا انہیں عزت دی جاتی انہیں ان کا حق دیا جاتا تاکہ آنے والے اور موجودہ ملازمین بھی اس سے تحریک پکڑتے اور اپنے فرائض کو اس تسلی کے ساتھ انجام دیتے کہ کل کو ان کی خدمات کو سراہا جائے گا اور انہیں عزت دی جائے گی۔حکومت کو جاگ جانا چاہیئے اور سیکھ بھی لینا چاہیئے کہ حکومت صرف تسلط کا نام نہیں بلکہ درست اور بَروقت فیصلے کرنے کا نام ہے۔ بار بار یو ٹرن لینے سے حکومتیں نہیں چلتی بلکہ درست فیصلے درست وقت پر کرنے پڑتے ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر بات احتجاج سے منوائی جائے کچھ سوجھ بوجھ حکومت کی بھی درکار ہے۔ اب بھی وقت ہے کیونکہ ابھی ان بوڑھوں نے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے اس سے پہلے کہ یہ بوڑھے حکومت کو شرمندہ کرنے کے لیے بینرز اور پلے کارڈز اپنے ناتواں ہاتھوں میں اٹھا کر ڈی چوک پہنچیں انہیں ان کا حق دے دیا جائے اور یاد رہے یہ خیرات نہیں ان کا حق ہے۔ |