فرمایا نبی پاک ﷺ نے کہ اپنے مرنے والوں کو اچھے الفاظ
میں یا دکرو، جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اسکا معاملہ اللہ کے سپرد ہو جاتا
ہے اب اسکے اعمال جیسے بھی ہیں اچھے یا برے وہ خدا تعا لیٰ کی عدالت میں
پہنچ چکا ہے اور وہیں سے اسکا فیصلہ حق و انصاف کے مطابق ہو گا دوسروں کو
اسپر طعن و تشنیع کرنے کا کوئی حق نہیں۔
حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ جب میّت پڑی ہوتی ہے اور لوگ اسکے پاس جمع
ہوتے ہیں تو اگر وہ اسکے بارہ میں یہ کہیں کہ مرنے والا اچھا بندہ تھا تو
جنّت اس کیلئے واجب ہو جاتی ہے اور اگر یہ کہیں کہ یہ برا آدمی تھا تو
جہنّم اس پر واجب ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اگر اسکا ذکر اچھے الفاظ میں کیا جائے
گا تو وہ جنّت میں جانے والا بن جائے گا۔
عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی امیر آدمی فوت ہو جاتا ہے تو اولاد میں
وراثت پر جھگڑا شروع ہو جاتا ہے، کوئی بیٹا یہ کہتا ہے کہ ابّا جی نے انصاف
نہیں کیا مجھے کم حصّہ دیا ہے اور اس کو زیادہ دیا ہے اور کبھی بیٹیاں یہ
کہتی ہیں کہ ابّا جی نے بھائیوں کو زیادہ ہے اور ہمیں نظر انداز کر دیا گیا
ہے۔ اس طرح کے جھگڑوں میں پڑ کر وہ ساری عمر والدین کو کوستے رہتے ہیں اور
اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرتے۔
اس سلسلے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اگر کسی نے کسی کا حق کھایاہے یا کسی
پر ظلم کیا ہے تو اسکا حساب روز قیامت ہوگا اور ذرہ ذرہ کا حساب ہوگا اور
اللہ تبارک و تعالیٰ حق دارو ں کا انکا حق دلوائیں گے، او ر اگر دنیا میں
ہی کسی نے ظالم کی برائی بیان کر نا شروع کر دی او ر غصّہ میں آ کر ا سپراس
طرح کے الزامات لگانے شروع کردیے جو کہ اس میں نہیں تھے تو وہ شخص خودپکڑ
میں آ جائے گا اور اسے ا نکا حساب دینا پڑ جائے گا، لہٰذا اپنی زبان کو طعن
وتشنیع سے بچانا چاہیے اور معاملہ کو اللہ کے سپرد کردینا چاہیے اور خاص
طور پر والدین کہ جنھوں نے اولاد کو پالا پوسا ہے اور انکے جملہ حقوق ادا
کئے ہیں اگر ان سے وراثت کی تقسیم
میں بالفرض کوئی کمی کوتاہی ہو بھی جائے تو اس سے چشم پوشی اختیار کرنی
چاہئیے اور انھیں اچھے الفاظ میں یاد کرنا چاہئیے۔ |