سیرت امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم (حصہ 22)

عنوان.
فتح مکہ (انسانی تاریخ کا عظیم دن تھا ) حصہ اول
( تاریخ اسلام کی روشنی میں مختصر جائزہ)

مستشرقین اور مغربی مصنفین اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے اور بدنام کرنے کیلئے یہ تاثر دیتے ہیں کہ ”مکہ سے نکالے جانے کے بعد محمد عربی ﷺ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی معاشی حالت مستحکم کرنے کیلئے عربی قبائل کے پرانے طریقہ غزوہ اور سریہ کو اپنا یا۔ جنگیں اور قافلوں کو لوٹ کر معاشی حالت کو مستحکم کیا گیا۔یہ غزوہ اور سریے اسلامی نظام کو مستحکم کرنے اور دنیا میں امن و امان کیلئے نہیں تھے بلکہ مالی فائدہ کیلئے خون خرابہ کیا گیا۔مستشرقین اور مغربی مصنفین کے ان پروپیگنڈوں کا جنگ بدر اور انسانیت کی تاریخ کا سب سے عظیم معرکہ فتح مکہ میں محسن انسانیت محمد عربی ﷺ کا طریقہ کا ر اور آپ صلی اللہ علیہ وسکم کے ذریعہ اعلان معافی دندان شکن جواب ہے۔فتح مکہ کے موقع پر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان کٹر دشمن جن کی وجہ سے انہیں اپنا شہر، اپنے خاندان کو چھوڑنا پڑا تھا۔جن کی وجہ سے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو ناقابل بیان اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جن دشمنوں نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو ستانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا آج وہ ان کے سامنے مجرم بن کر کھڑے ہیں۔

آج موقع تھا کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں سے چن چن کر بدلہ لیتے۔ ان سے حساب چکتا کرتے۔اپنے ساتھیوں کو ان کی دولت واپس دلاتے۔مہاجرین جنہیں مکہ چھوڑ نا پڑا۔مکہ کی جائداد ان کی تھی۔آج جب وہ قادر ہیں تو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں سے اپنی دولت واپس لینے سے منع کردیتے ہیں۔اگر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غزوے اور سریہ دولت کی حرص میں برپا کیے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آج وہ اپنی دولت واپس لینے سے انکار کرتے ہیں۔محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی کارنامہ نے بعض یورپی دانشوروں کو اعتراف کرنے پر مجبور ہونا پڑاکہ یہ کارنامہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کرسکتے ہیں۔ یورپی دانش ورآرتھر گلیمن لکھتے ہیں کہ ”اہل مکہ کے ماضی کے انتہائی ظالمانہ سلوک پر محمد عربی ﷺکو جتنا بھی طیش آتا کم تھا،انتقام کی آگ بھڑکانے کیلئے کافی تھا۔
مگر آپ نے اپنے لشکر کو ہر قسم کے خون و خرابے سے روکا اور اللہ کے ساتھ بندگی اور اطاعت کا مظاہرہ کیا۔دوسرے فاتحین کے وحشیانہ طرز عمل کے مقابلے اسے انتہائی درجے کی شرافت اورا نسانیت سے تعبیر کیا جائے گا۔وہ مزید لکھتا ہے کہ فتح مکہ در اصل دنیا کی فتح تھی، سیاست کی فتح تھی،محمد عربیﷺ نے ذاتی مفاد کی ہر علامت کو مٹاڈالا،ظالمانہ نظام سلطنت کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔ایک اور یورپی اسکالر آر ڈبلیو۔اسکاٹ لکھتا ہے کہ

محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر انسانی جان کو بچانے کیلئے جو حکمت عملی اختیار کی وہ درا صل انسانی تاریخ کا روشن ترین باب ہے۔اتنی بڑی جنگ میں صرف چار افراد کی جانیں گئیں۔

سوامی لکشمی پرساد جنہوں نے سیرت نبی ﷺ پر
”عرب کا چاند“ نامی کتاب لکھی ہے۔
سوامی فتح مکہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر جو عظیم الشان حکم دیا تھا۔ایسی ہمدردی اور محبت کا مظاہرہ آج تک کسی نے نہیں کیا۔اس کے تصور سے آج بھی انسان کے اخلاق میں ایک عجیب و غریب رفعت و سعت پیدا ہوتی ہے۔جذبات صلح و آشتی کا ایسانمونہ تاریخ کے صفحات پیش کرنے سے قاصر ہیں۔“
فتح مکہ کا واقعہ انسانی تاریخ میں کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک ایسا دن ہے جس میں انسانیت کو ایک نئی منزل اور مقام عطا کیا گیا۔اس نے فاتح اور مفتوح قوموں کے درمیان تعلقات کی نوعیت بدل دی۔اس دن حقوق انسانی، احترام انسانیت اور اظہار رائے کی آزادی کو ایک نیا مفہوم اورمقام ملا۔انسانی تاریخ ہزاروں،لاکھوں جنگ کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔لیکن انسانی تاریخ میں ایسی کوئی بھی جنگ نہیں اور کوئی بھی فاتح قوم کاایسا لیڈر نہیں جس نے دشمنوں سے بدلہ لینے کے بجائے انہیں معاف کردیا ہو۔جو اپنے ساتھی کمانڈر کو صرف اس جرم کی پاداش میں برطرف کردیتا ہے کہ وہ بدلہ لینے کی بات کرتا ہے۔
سعد بن عبادہؓ کی قیادت کیوں چھینی گئی۔انہوں نے صرف یہی تو کہا تھا کہ الیوم یوم الحمہ آج بدلہ کا دن ہے، الیوم نستحل الکعبہ آج کے دن کعبہ میں لڑائی کی اجازت دیدی گئی ہے۔سعد بن عبادہ ؓ کے سامنے گزشتہ دو دہائیوں کیظلم و تشدد کی داستان تھی۔سعد بن عبادہؓ جانتے تھے کہ کس طرح قریش نے مدینہ کو ختم کرنے اور مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کی۔کون سے حربے نہیں آزمائے گئے۔
محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کونسی اذیت نہیں پہنچائی گئی۔بدن مبارک پر غلاظت پھینکی گئی۔کانٹے پچھائے گئے۔
ایمان لانے والوں کا جینا حرام کردیا گیا۔ان ہی ظلم و تشددکے پیش نظر اگر سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ نے بدلہ لینے کی بات کہی تو کیاجرم کیا؟
سعدبن عبادہ ؓکی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو شاید یہی کہتا مگر چونکہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر نہ کوئی جنگ جیتنا تھا اور نہ کوئی دولت حاصل کرنا اور نہ ہی اقتدار قائم کرنا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو فتح کرنے کیلئے نہیں آئے تھے۔بلکہ امن و امان قائم کرنے کیلئے مبعوث کے گئے تھے۔آپ ﷺ کا مشن پاکیزہ تھا۔
آپﷺ کی دعوت ایک ایسے نظام کی علمبردار تھی جس میں طاقت کے بل پر حکومت قائم نہیں کی جاتی ہے بلکہ آپ ﷺ کا مقصد باطن میں انقلاب پیدا کرنا تھا۔
اس لیے آپ ﷺ نے بڑے دشمن پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان سے بدلہ لینے کے بجائے عفو ودرگزر سے کام لیا، اپنا حق چھیننے کے بجائے اپنا حق چھوڑ دیا۔یہ سب اس لیے کیا گیا کہ تاکہ مکہ کے سرداروں کو احساس ندامت ہو کہ وہ جس کے دشمن تھے آج وہ بدلہ لینے اورانہیں سزا دینے کے بجائے معافی دے رہا ہے۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی دلبرانہ قیادت کا معجزہ چشم فلک نے دیکھا کہ آپ ﷺ پہاڑ پر تشریف فرما ہیں اور آپ ﷺ کے دشمن جوق در جوق اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔مکہ فتح ہونے کے بعدمحسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ دیا وہ انسانی تاریخ کا سب سے بہترین خطاب ہے۔تاریخ میں شاید ہی کسی فاتح لیڈر نے مفتوح قوم سے اس لحظہ میں بات کی ہو۔
آپ ﷺ نے مفتوح قوم سے کہا کہ
”اللہ ایک ہے،اس کا کوئی شریک نہیں،اس نے اپنا وعدہ سچا کردکھایا،اپنے بندے کی مددکی اور سارے گروہوں کو شکست دی،کسی بھی شخص کو جس نے اللہ اور رسول پر ایمان لایا ہے اس کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مکہ میں خونریزی کرے،کسی سرسبز درخت کا کاٹنا بھی اس کیلئے جائز نہیں ہے۔میں آج کے دن زمانہ جاہلیت کی تمام رسموں کو اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں،مگر مجاوارات کعبہ اور حاجیوں کو پانی پلانے کا انتظام رکھا جائے گا۔
اے قریش!اللہ نے تم کو جاہلیت کے تکبراور اپنے آباء پر فخر کرنے سے منع فرمادیا ہے۔تم سب آدم کی اولاد ہو اور حضرت آدمؑ مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔دیکھو خدائے برحق کا اعلان ہے۔

یاایھالناس انا خلقنکم من ذکر وانثیٰ و جعلنکم شعوبا و قبائل لتعارفو اناأکرمکم عند اللہ اتقاکم

اللہ نے آج سے تم سب کیلئے شراب کو حرام کردیا ہے۔اس کے بعد حضور ﷺنے دریافت فرمایا
اے قریش! تمہیں معلوم ہے میں آج کے دن تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں؟
ان الفاظ کے گونجتے ہی ظلم، مکر، تشدداور خونخواری کی وہ ساری گھناؤنی تاریخ قریش کے نگاہوں کے سامنے سے گزرگئی ہوگی،جسے انہوں نے 21برسوں میں کیا تھا۔ان کا ضمیر انہیں ملامت کرنے لگا ہو گا۔بے بسی اور ندامت کی حالت میں پورا قریش پکار اٹھا۔انت اخ کریم وابن کریم”ہم آپ سے بھلائی کی توقع رکھتے ہیں۔کیوں کہ آپ ہمارے بزرگ بھائی اور بزرگ بھائی کے بیٹے ہیں‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے اس جواب کو سن کر فرمایااچھا میں تم سب سے وہی کہتا ہوں جو حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہاتھا
”لا تثریب علیکم الیوم اذھبو فانتم الطلقاء‘ (آج تم پر کوئی ملامت نہیں جاؤ تم سب لوگ آزاد ہو۔)
چودہ سو سال قبل جب احترام انسانیت اور اقدار انسانی کے تحفظ کیلئے جینوا کنونشن کا تصور تک نہیں تھا۔اس وقت عالمی رکھوالی کیلئے اقوام متحدہ کا وجود بھی نہیں تھا۔مگر 10رمضان المبارک 8 جنو ر ی 630ء کو تاریخ انسانی کا وہ معجزہ پیش آیا جس کی نظیر اور مثال آج تک کسی بھی مہذب قوم کے قائد پیش نہیں کرسکے۔فتح مکہ کا واقعہ صرف دو قوموں کے درمیان معرکہ آرائی کی داستان نہیں ہے،بلکہ حق و باطل کی ایسی جنگ ہے جس میں حق کے علمبرداروں کو دو دہائیوں تک اذیت ناک دور سے گزرنا پڑاتھا۔جس میں فاتح قوم نے شان کریمی، رواداری اور عفو در گزر کی ایسی مثال پیش کی کہ جس کی نظیر تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔سید المرسلین، رحمۃ العالمین حضرت محمد ﷺ نے جو عفو در گزر،جود وکرم اور عالی ظرفیکی بے نظیر مثال پیش کی ہے وہ کسی بادشاہ،کسی سیاسی رہنما، کسی فوجی جرنیل کے بس کا ہے ہی نہیں۔کیوں یہ شان کریمی صرف ایک نبی مرسل ہی انجام دے سکتا ہے۔ورنہ بادشاہوں اورہٹلروں کا شیوہ رہا ہے کہ وہ جس قوم اور جس علاقہ کو فتح کرتے ہیں قرآن کے بقول’ان الملوک اذا دخلو قرےۃ وجعلو اعزۃ اہلہا اذلۃ“ فاتح قوم کا بادشاہ جب مفتوح علاقہ میں داخل ہوتا ہے پورے علاقے کو تاخت و تاراج کردیتا ہے۔اس بستی کے شرفاء کو ذلیل و خوار کردیتا ہے۔
اسلام پریہ الزام کہ اسلام بزرو شمشیر پھیلا ہے عائد کرنے والوں کیلئے فتح مکہ کا عظیم واقعہ تازیانہ عبرت ہے۔اگر وہ عقل سے پردہ اور اپنی آنکھوں سے تعصب کی عینک اتاردیں تو ان پر واضح ہوگا۔پوری تاریخ انسانیت میں صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی واحدشخصیت ہے جس نے اپنے اوپر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑنے والوں، بے گھر کرنے والوں اور راہ میں کانٹے بچھانے والوں سے بدلہ لینے کے بجائے پور ی ظالم قوم کے گناہوں کو معاف کرتے ہوئے اعلان کیا کہ:

جو کوئی ہتھیار پھینک دے اسے قتل نہ کیا جائے
جو خانہ کعبہ کے اندر پہنچ جائے اسے قتل نہ کیا جائے
جو اپنے گھر میں بیٹھا رہے اسے قتل نہ کیا جائے
جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اسے قتل نہ کیا جائے
جو حکیم بن حزام کے گھر جارہے،اسے قتل نہ کیا جائے
بھاگ جانے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے
زخمی کو قتل نہ کیا جائے

محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان کو دیکھئے اور آج جینواکنونشن اور حقوق انسانی کے علمبردار یورپ کے کردار کو دیکھئے۔دونوں میں آسمان و زمین کا فرق ہے ایک طرف جود و سخا اور رواداری،ہمدردی اور اخوت اور بھائی چارہ کی عظیم مثال ہے۔ دوسری طرف منافقت، جھوٹ، مکر و فریب کی انتہا ہے۔کتنا تعجب خیز امر ہے کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری ریاست کو فتح کیا مگر دشمن کے صرف چار افراد کا خون بہا۔ان چارافراد کاقتل بھی اسلئے کیا گیاکہ وہ چاروں شر پر آمادہ تھے۔عام معافی کے اعلان کے باوجودیہ اسلامی افواج کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔اس لیے ان کا مقابلہ کیا گیا۔ظاہر ہے کہ وہ دن صرف حق کی جیت کا دن تھا۔
اندازہ لگائیے کہ جب حالات کی مجبوری، اہل مکہ کے ظلم و تشددسے تنگ آکر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا ہوگا اس وقت آپ ﷺ پر کیا بیتی ہوگی۔جن لوگوں کو اپنا وطن چھوڑنے کا تلخ تجربہ ہے ان سے پوچھیے وہ لمحہ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔دلوں پر کیا گزرتی ہے؟مگر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے موقع پر یہ قدرت حا صل تھی کہ وہ ان تمام لوگوں سے حساب برابر کریں جنہوں نے وطن چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ان سے بدلہ لیں جنہوں نے سماجی بائیکاٹ کیا تھااور راہوں میں کانٹے بچھا ئے تھے۔ اگر محمد عربی صلی اللہ وسلم کی جگہ پر دنیا کاکوئی اور حکمراں یا بادشاہ ہوتا تو وہ مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیتا۔قصور واروں کو لائن میں رکھ کر گولیاں مار دیتا، قتل و غارت کا بازار گرم کردیتا۔مگرچشم عالم نے وہ نظارہ بھی دیکھا جب محمد عربی ایک فاتح قوم کے لیڈر کی حیثیت سے داخل ہورہے ہیں تو”اونٹی پرسوار ہیں،قرآن مجید کی سورہ فتح کی تلاوت خوش الحانی سے کررہے ہیں،عاجزی و انکساری کے آثار چہرہ انور پر نمایاں ہیں۔تواضع سے گردن اس قدر جھکی ہوئی ہے کہ ریش مبارک کجاوہ کی لکڑی سے چھورہی ہے“۔پورا مکہ محمد عربی صلی اللہ وسلم کے اس شان کریمی سے مبہوت ہے۔ان کے تصور میں بھی نہیں ہے کہ فاتح قوم کا لیڈر اس شان بے نیازی سے آئے گا۔پوری اسلام فوج نظم وضبط کی اعلیٰ مثال پیش کررہی ہے۔کوئی فخرو مباہات نہیں، کوئی دعویٰ نہیں۔پوری اسلامی فوج ادخلوالباب سجداًکی عملی تعبیر پیش کررہی ہے۔زبان پر صرف خدائے واحد کی بزرگی اور برتری کا کلمہ ہے۔پورا مکہ آذان کی آواز سے گونج رہا تھا۔۔حضور صلی اللہ وسلم اعلان فرمارہے ہیں کہ آج بدلہ کا نہیں معافی کا دن ہے۔یوم بر وفا ہے، کعبہ کی عظمت کا دن ہے۔

کعبہ کے کلیدبردار عثمان بن طلحہ خانہ کعبہ کے باہر کھڑے ہیں۔وہ کافی سہمے ہوئے ہیں۔عثمان بن طلحہ کی نگاہوں کے سامنے اس دن کا پورا منظر گھوم رہا ہے جب ان سے محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خانہ کعبہ کی چابی مانگی تھی۔مگر انہوں نے دینے سے منع کردیا تھا جب محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کہ ایک دن آئے گا جب وہ خود سے چابی پیش کریں گے۔عثمان بن طلحہ نے کہا تھا اس دن سارے قریش کے سردار مرجائیں گے۔مگر انہیں احساس نہیں تھا کہ یہ پیش گوئی کسی عام آدمی کی نہیں ایک نبی برحق کی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ پہنچتے ہیں توعثمان بن طلحہ خود سے کعبہ کی چابی پیش کرتے ہیں۔مگر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ ظرفی دیکھئے کہ خانہ کعبہ سے بتوں کی صفائی کے بعد عثمان بن طلحہ کو بلاتے ہیں او ر ان کے سپرد خانہ کعبہ کی چابی کردیتے ہیں۔حضرت علی رضی اللہ اور کئی جلیل القدر صحابہ رضی اللہ کعبہ کی کلید لینے کے لئے منتظر ہیں۔مگر محسن انسانیت عثمان بن طلحہ کو کلید کعبہ حوالہ کردیتے ہیں۔دوسری جانب عثمان بن طلحہ کی زبان سے لاالہ الا اللہ کی صدا بلند ہوجاتی ہے.
اللہ پاک کمی معاف فرماۓ.آمین
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558189 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More