ترکی میں کل ہولناک زلزلے میں درجن سے زائد افراد
ہلاک ہوگئے دنیا میں زلزلے کب اور کہاں سے شروع ہوئے اور تاریخ کا قدیم
ترین زلزلہ کب اور کہاں آیا، یہ تو وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ قڈیم
یونانیوں کا عقیدہ تھا کہ زمین کو بہت بڑے بڑے بیلوں نے اپنے سینگوں پر
اٹھایا ہوا ہے وہ تھک جاتے ہیں تو ان کی لرزش سے زلزلہ آ جاتا ہے جبکہ
ماہرین نے زمین کی کیمیائی تبدیلیوں کو زلزلے کا نام دیاہے کچھ کا خیال ہے
کہ زمین کے اندر حدت بڑھ جاتی ہے تو کہیں نہ کہیں سے آتشی مادہ پھوٹ پڑتاہے
زیادہ تر آتشی مادہ بڑے بڑے پہاڑوں سے پھوٹتاہے تو ہر چیزکو تہس نہیں
کردیتاہے جہاں آتشی مادہ نہیں پھوٹتا وہاں زلزلہ آنے کی وجہ بھی یہی
تبدیلیاں ہوتی ہیں کہ گرمی کی شدت سے زمین کی اندرونی ہیئت متاثرہوتی تواس
کا اثر بیرونی زمین پرہوتاہے یہی وجہ ہے کہ زمین پھٹ جانے سے بڑے بڑے گڑھے
پژنا یقینی بات ہے کئی سال پہلے جب آزادکشمیرمیں زلزلہ آیا تو اس کی شدت
اتنی تھی کہ کئی کئی منزلہ ہوٹل زمین میں دھنس گئے حالیہ زلزلہ میں بھی
سڑکوں پر کئی کئی فٹ گڑھے پڑ گئے کچھ لوگوں نے زلزلے کو اﷲ کی ناراضگی سے
تعبیرکیاہے ان کا کہناہے زلزلے جیسی قدرتی آفات اﷲ تعا لیٰ کی طرف سے ہمارے
لئے وارننگ ہے زلزلے سے ہونے والے جانی ومالی نقصانات سے پوری قوم فسردہ ہے
ہم سب کو مل کر اﷲ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے اور اجتماعی
طورپر استغفراﷲ کا وردکرناہوگا زلزلے اور قدرتی آفات سے ہونے والی تباہی
ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے ایک ایسے زلزلے کا
تدکرہ کیاہے جس کے نتیجہ میں یہ دنیا تباہ وبرباد ہوجائے گی اس روز پہاڑ
روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے بہرحال وہ پہلا زلزلہ جو انسان نے اپنی
تحریر میں ریکارڈ کیا تقریبا تین ہزار برس 1177 قبل مسیح میں چین میں آیا
تھا۔پاکستان بھی دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں اکثر زلزلے آتے رہتے
ہیں۔ گزشتہ 100 سال کے دوران پاکستانی علاقوں میں کئی ہولناک زلزلے آئے جن
میں بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوا۔10 ستمبر 1971 کو گلگت کے کچھ
علاقوں میں شدید زلزلہ آیا تھا جس کے نتیجے میں سو سے زائد افراد ہلاک جبکہ
ایک ہزار سے زائد مکانات تباہ ہو گئے تھے۔31 مئی، 1995 کو نصیر آباد ڈویڑن
کے بگٹی پہاڑوں کے دامنی علاقوں میں آنے والے 5.2 شدت کے زلزلے کے نتیجے
میں ایک درجن مکانات تباہ اور تین بچوں سمیت پانچ افراد زخمی ہو گئے تھے۔28
فروری، 1997 کو ریکٹر اسکیل پر 7.2 کی شدت کا زلزلہ پورے پاکستان میں محسوس
کیا گیا جبکہ اس کا دورانیہ تیس سے نوے سیکنڈز تک تھا۔ پاکستان کے تقریبا
تمام علاقوں میں محسوس کئے جانے والے اس زلزلے کے نتیجے میں سو سے زائد
افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 20مارچ، 1997 کو ریکٹر اسکیل پر 4.5 کی شدت سے آنے
والے زلزلے کے نتیجے میں باجوڑ کے قبائلی علاقے کے گاں سلارزئی میں دس
افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ 26 جنوری، 2001 کو آنے والے زلزلے کے نتیجے میں
صوبہ سندھ میں 15 افراد ہلاک جبکہ ایک سو آٹھ زخمی ہوئے تھے۔ ریکٹر اسکیل
پر زلزلے کی شدت 6.5 نوٹ کی گئی تھی۔3 اکتوبر، 2002 کو ریکٹر اسکیل پر 5.1
کی شدت سے آنے والے زلزلے کے نتیجے میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں 30
افراد ہلاک جبکہ ڈیڑھ ہزار کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ 14 فروری، 2004 کو ریکٹر
اسکیل پر 5.7 اور 5.5 کی شدت سے آنے والے دو زلزلوں کے نتیجے میں خیبر
پختونخواہ اور شمالی علاقہ جات میں چوبیس افراد ہلاک جبکہ چالیس زخمی ہو
گئے تھے۔ 8 اکتوبر، 2005 کو ریکٹر اسکیل پر 7.6 کی شدت سے آنے والے زلزلے
نے کشمیر اور شمالی علاقوں میں تباہی پھیلا دی تھی۔زلزلے کے نتیجے میں اسی
ہزار سے زیادہ افراد کی ہلاکت، دو لاکھ سے زائد افراد زخمی اور ڈھائی لاکھ
سے زائد افراد بے گھر ہو گئے تھے۔ زلزلے کے بعد آنے والے 978 آفٹر شاکس کا
سلسلہ 27 اکتوبر تک جاری رہا تھا۔ 28 اکتوبر، 2008 کو ریکٹر اسکیل پر 6.4
کی شدت سے آنے والے زلزلے کے نتیجے میں کوئٹہ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں
ایک سو ساٹھ افراد ہلاک جبکہ تین سو ستر افراد زخمی ہوئے تھے۔اس کے علاوہ
کئی عمارتیں بھی تباہ ہوئی تھیں۔ زلزلے کا مرکز کوئٹہ سے 60 کلومیٹر شمال
مشرق میں تھا۔ 18 جنوری، 2011 کے زلزلے کے نتیجے میں پاکستان کے جنوب مغربی
صوبہ بلوچستان میں کئی افراد ہلاک جبکہ دو سو سے زائد عمارتیں تباہ ہو گئی
تھیں۔ اس زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.2 ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ زلزلے کا
مرکز دالبندین سے پچاس کلومیٹر مغرب میں تھا۔20 جنوری، 2011 کو 7.4 کی شدت
سے آنے والے زلزلے کے جھٹکے کوئٹہ میں محسوس کیے گئے جس کا مرکز بلوچستان
کا ضلع خاران میں تھا۔ اس کے نتیجے میں دو سو سے زائد مکانات تباہ ہوئے تھے۔
22 جنوری، 2011 کو درمیانی شدت کے زلزلے کے جھٹکے اسلام آباد اور پاکستان
کے شمالی علاقوں میں محسوس کیے گئے۔ زلزلے کا مرکز اسلام آباد سے ایک سو
اٹھاسی کلومیٹر شمال میں ضلع فیض آباد تھا، لیکن اس کے نتیجے میں بھی کسی
فوری جانی نقصان کی اطلاعات نہیں تھیں۔کوئٹہ میں 16 اپریل 2013 کو ریکٹر
اسکیل پر 7.9 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے جھٹکے پاکستان، ایران، ہندوستان
اور چند خلیجی ملکوں میں بھی محسوس کیے گئے تھے۔ اس زلزلے کا مرکز پاک
ایران سرحد کے قریب واقع ایران میں سروان کا علاقہ تھا۔ اس زلزلے کے نتیجے
میں 34 افراد کی ہلاکت جبکہ اسی کے زخمی ہونے کی اطلاعات تھیں۔دوسری جانب
ایک لاکھ کے قریب مکانات زلزلے کے نتیجے میں تباہ ہوئے تھے۔چوبیس ستمبر،
2013 کو بلوچستان میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں 328 افراد کی ہلاکت کی
اطلاعات ہیں جبکہ سینکڑوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ زلزلے سے
جنوب مغربی صوبے میں ہزروں گھر بھی تباہ ہوئے جبکہ بے گھر ہونے والے افراد
کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی۔قدرتی آفات کب کہاں اور کیسے آتے ہیں کسی کو
معلوم نہیں اب تک سائنس بھی اس کی درست پیشگی اطلاع دینے میں ناکام رہی یہ
آفات تباہی و بربادی لے کر آتی ہیں لیکن احتیاتی تدابیر سے اس کے نقصانات
کو کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔،بھمبر،جہلم اور آزادکشمیر میں حالیہ زلزلے سے
ہونے والے نقصانات کے پیش ِ نظر حکومت اور اس کے ہنگامی امداد کے ادارے
لوگوں کی فوری امداد کے لئے اقدامات کو یقینی بنائیں ریسکیو اور ریلیف کی
جامع حکمت عملی مرتب کی جائے ہماری قومی زندگی میں یہ ایک مشکل مرحلہ ہے
ہمیں پھر ایثار، اخوت و بھائی چارے کا مظاہرہ کرنا ہے جس کا بے مثال مظاہرہ
پوری قوم اس سے قبل کر چکی ہے۔
|