وطن عزیز کی باہمت اور پرجوش خواتین تقریباً ہر شعبےمیں
کام کررہی ہیں، بات عورت یا مرد ہونے کی نہیں بلکہ صرف جستجو ولگن کی ہے۔
حوصلے بلند ہوں تو زمانے کے نشیب وفراز بھی امید کا دامن چھوڑنے نہیں دیتے
اورجب کچھ کرنے کی ٹھان لی جائے تو کوئی بھی چیز راہ کی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
ایسی ہی ایک مثال عظمی حیا بلوچ ہیں جو بیک وقت کئی صلاحیتیں رکھتی ہیں ۔
وہ ایک بہترین آرٹسٹ کے ساتھ ساتھ بہت خوبصورت آواز کی مالک بھی ہیں ان
کا تعلق لیاری میں رہنے والے ایک متوسط خاندان سے ہے ۔ عظمی کو موسیقی سے
دلچسپی انکے داداکی وجہ سے ہوئی۔
عظمیٰ کواس شوق کو پورا کرنے کیلئے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا عظمیٰ کا
کہنا ہے کہ انکے اردگرد کے ماحول میں ایک بلوچ لڑکی کا باہر نکلنا تعلیم
حاصل کرنا بہت بڑی بات ہوتی تھی اورکسی بلوچ لڑکی کا گانے گانا، یا سوشل
میڈیا پر تصویر دینا بہت زیادہ معیوب سمجھا جاتا تھا جب پہلی بار عظمیٰ نے
سوشل میڈیا پر تصویر لگائی تو لوگوں نے بہت تنقید کی یہاں تک کہ گالیاں دیں،
محلے میں لوگ عجیب نظروں سے دیکھتے تھے کیونکہ ان لوگوں سے برداشت نہیں
ہورہا تھا کہ انکی کمیونٹی کی لڑکی گلوکار ہ بنے۔ شروع شروع میں گھر والے
بھی خاصے ناراض تھے صرف انکے دادا نے حوصلہ افزائی کی تھی انہوں نے ایک سال
تک آرٹس کونسل سے موسیقی سیکھی آرٹس کونسل آنے اور جانے کیلئے کرائے تک
کے پیسے نہیں ہوتے تھے کبھی آنے کا ہوتا تو جانے کا نہیں ہوتا تھا، اکثر
پیدل جاتی تھیں پھر ان مشکلوں کا سامنا کرتے کرتے چار البم جاری کر چکی ہیں۔
اُسکے بعد مختلف چینلز نے انکے انٹرویوز کٸے۔ وہ لوگ جوپہلے ان پر تنقید
کرتے تھے، برا بھلا کہتے تھے وہ اب فخر سے کہتے ہیں کہ عظمی بلوچ قوم کی
پہچان ہے، لیاری کی شان ہے۔ |