کلام مجید ایک ہی حقیقی ہدایت کا منبع ہے ۔یہی کتاب مبین
ہے
ذلِکَ الکِتبُ لَا رَیبَ فِیہِ ھُدَی للمُتَّقِینَ۔
ترجمہ: یہ وہ کتاب ہے جس میں کو شک کی گنجائش نہیں پرہیزگاروں کے لیے ہدایت
ہے۔
اِسی سورۃ المبارکہ میں ایک اور جگہ فرما یا ہے ہُدَی للّنَاسِ یعنی قرآن
لوگو ں کے لیے ہدایت ہے۔ (سورۃبقرہ :۱۸۴)
وَاَنزَلنَااِلَیکُم نُورََا مُبِینَا۔ (سورۃالنساء: ۱۷۴)
ترجمہ: ہم نے تمہاری طرف نور مبین نارل کیا ہے۔
قارئین:
اِسی طرح قرآن پاک کی کئی اور شانیں بیان کی گئی ہیں۔کیونکہ آج ہمارا
موضوع کتاب ہدایت ہے تو آج صرف اسی پر بات ہوگی۔قرآن پاک میں سورۃ البقرہ
کی آیت نمبر ۹ میں قرآن پاک کے بارے اللہ رب العزت فرماتا ہے:
یُضِلُّ بِہِ کَثِیرَا ویَھدِ بِہ کَثِیرَا وَما یُضِلُّ بِہ اِلَّا
الفسِقِینَ۔ (البقرہ:۹)
ترجمہ: اللہ کریم اس کے ذریعے بہت سے لوگو ں کو گمراہ کرتاہے اور بہت
سورئہ غاشیہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ الغاشیۃ،
۴/۳۷۱)
رکوع اور آیات کی تعداد: اس سورت میں 1رکوع،26 آیتیں ہیں ۔
’’غاشیہ ‘‘نام رکھنے کی وجہ تسمیہ :
غاشیہ کا معنی ہے چھا جانے والی چیز،اور اس کی پہلی آیت میں یہ لفظ موجود
ہے اسی مناسبت سے اسے ’’سورۂ غاشیہ‘‘ کہتے ہیں ۔
محترم قارئین:آئیے ہم یہ جاننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں کہ سورۃغاشیہ میں
کیا ذکر کیاگیا ہے ۔
1)…اس کی ابتداء میں قیامت کی ہَولْناکیاں ،کفار کی بد بختی،مسلمانوں کی
خوش بختی،اہلِ جنت اور اہلِ جہنم کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں ۔
(2)…اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیَّت،قدرت اور علم و حکمت پر اونٹ کی
تخلیق،آسمان کی بلندی،پہاڑوں کو زمین میں نَصب کرنے اورزمین کو بچھانے کے
ذریعے اِستدلال کیا گیا ہے۔
(3)…اس سورت کے آخر میں حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے فرمایا گیا کہ آپ کی ذمہ داری صرف نصیحت کر دینا ہے
کسی کو مسلمان کر کے ہی چھوڑنا آپ کی ذمہ داری نہیں اور یہ بتایاگیا کہ جو
کفر کرے گا اللّٰہ تعالیٰ اسے بڑا عذاب دے گا اور قیامت کے دن سب لوگ حساب
اور جزا کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔
اے پیارے اللہ!!ہمیں علم نافع کی دولت سے بہرہ مند فرما۔ہمیں کلام مجید سے
خوب خوب برکتیں سمیٹنے کی توفیق عطافرما۔آمین
|