القواعد الاربع: شرک کی بنیادوں کا بیان. بنياد نمبر: 3-2

القواعد الاربع: شرک کی بنیادوں کا بیان۔
شیخ الاسلام محمّد بن عبد الوهاب ابنِ سلیمان التمیمی (رحمہ الله تعالى)۔

بنیاد نمبر: ٣-٢. جن لوگوں سے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
نے عبادت میں اختلاف کیا، کسی نے فرشتوں کی عبادت کی، کسی نے پتھروں، درختوں، سورج اور چند کی عبادت کی، کسی نے نبیوں، نیک ولیوں کی عبادت کی، الله کے رسول نے تمام سے جنگیں کی اور ان میں فرق کو ملحوظ نہیں رکها.

اور اس کا ثبوت كہ نبیوں (کی عبادت کی جاتی تھی/ہے) الله تعالى کا یہ فرمانا ہے کہ:

وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ

ترجمه: اور وه وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوه اللہ کے معبود قرار دے لو! عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں، اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا۔ تو، تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا۔ تمام غیبوں کا جاننے واﻻ تو ہی ہے
(سورة المائدة: 5 آيت: 116)

اور اس کا ثبوت كہ وليوں (کی عبادت کی جاتی تھی/ہے) الله تعالى کا یہ فرمانا ہے کہ:

أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ

ترجمه: جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وه اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیاده نزدیک ہوجائے وه خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوفزده رہتے ہیں

(سورة الإسراء: 17 آيت: 57)

اور اس کا ثبوت كہ پتھروں اور درختوں (کی عبادت کی جاتی تھی/ہے) الله تعالى کا یہ فرمانا ہے کہ:

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ ﴿١٩﴾ وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَىٰ ﴿٢٠﴾

ترجمه: کیا تم نے ﻻت اور عزیٰ کو دیکھا. اور منات تیسرے پچھلے کو.

(سورة النجم: 53 آيت: 19 - 20)

اور ابوواقد لیثی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کے لیے نکلے تو آپ کا گزر مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے ہوا جسے ذات انواط کہا جاتا تھا، اس درخت پر مشرکین اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجئیے جیسا کہ مشرکین کا ایک ذات انواط ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! یہ تو وہی بات ہے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہی تھی کہ ہمارے لیے بھی معبود بنا دیجئیے جیسا ان مشرکوں کے لیے ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم گزشتہ امتوں کی پوری پوری پیروی کرو گے“

(حواله: سنن ترمذي: حدیث نمبر: 2180 امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 14516) (صحیح)»)

ابن حبان کی روایت میں ہے:

الله اکبر! یہ وہ طریقے ہیں جس طرح بنی اسرائیل نے موسى علیہ السلام سے کہا تھا: اجْعَل لَّنَا إِلَـٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ ( ہمارے لیے بھی ایک معبود ایسا ہی مقرر کر دیجئے! جیسے ان کے یہ معبود ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے). سورة الأعراف: 138. پھر الله کے رسول نے فرمایا کے تم ضرور اپنے سے پچھلے لوگوں کے طریقے قار پر عمل کرو گے.

(ابن حبان، رقم: 6702 محدث حافظ ابن حجر نے اس روایت کو الاصابہ ٤/٢١٦ میں صحت کے درجہ پر کرار دیا.)

آخرى جز كى تفصیل، آئندہ، ان شاء اللہ جاری ہے
 

Manhaj As Salaf
About the Author: Manhaj As Salaf Read More Articles by Manhaj As Salaf: 291 Articles with 408912 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.