کلُّو

 موسم سرما کی سردی اپنے پورے عروج پر تھی ،لوگ شام ہی سے اپنے گھروں میں چلے گئے تھے ۔ جوں جوں رات کی سیاہی بڑھ رہی تھی سردی کی شدت اور سرد ہواؤں میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ملازمت پیشہ لوگ اپنی ڈیوٹی سر انجام دے کر واپس آرہے تھے وہ بھی جلدی جلدی اپنے گھروں کی طرف رواں دواں تھے تاکہ جلد سے جلد اپنے گھروں میں پہنچ جائیں۔ خدا بخش اپنے گاﺅں کے قریب ہی شہرکی ایک فیکٹری میں مزدوری کرتا تھا ۔ اپنی ڈیوٹی پوری کرکے شام کوجب وہ اپنے گاﺅں کی طرف روانہ ہو ا تو اسے محسوس ہوا کہ بارش ہونے والی ہے کیونکہ اب سرد ہواﺅں کے ساتھ ساتھ بادلوں کے گرجنے کی بھی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ اس نے چلنے کی رفتار تیز کردی تاکہ جلد سے جلد اپنے گھر پہنچ جائے ابھی اس نے آدھا راستہ طے ہی کیا تھا بارش شروع ہوگئی چاروں طرف گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا جس کی وجہ سے چلنے میں کافی دشواری پیش آرہی تھی ۔ بارش اب تیز ہونے لگی تھی اس نے لپک کر قریب ہی ایک دکان کے نیجے بنے ہوئے سائبان کے نیچے پناہ لی۔ سردی کی شدت سے اسکا جسم کپکپارہا تھا۔ اچانک اس کے کانوں میں کسی کے رونے اور سسکیاں لینے کی آواز آئی تو اپنی سردی کو بھول کر اس آواز کی طرف متوجہ ہوا ، اندھیرے میں کچھ سجائی نہیں دے رہا تھا۔اس نے اپنی جیب سے ماچس نکال کر جلائی تو کیا دیکھتا ہے کہ تقریباََ پانچ یا چھ سال کا بچہ سردی سے ٹھٹرا ہوا بیٹھا ہے اور سسک سسک کر رو رہا ہے۔بچہ کو اس حال میں دیکھ کر اسے بچے پر بڑا رحم آیا۔اس نے بچے کے قریب جاکر پیار سے کہا کہ بیٹا ڈرو مت اور اپنے کاندھوں پر سے چادر اتار کر اسے اڑھادی ۔ اس نے بچے سے پوچھا بیٹا تم کون ہو اور یہاں کیوں بیٹھے ہو۔ بچہ پھر رونے لگا اور بولا میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ مجھے سردی لگ رہی ہے اور میں صبح سے بھوکا ہوں ۔ اچانک بادل کی زوردارگرج کے ساتھ بجلی چمکی تو بچہ خوف کے مارے اس سے لپٹ گیا۔خدا بخش نے محبت اور شفقت کے ساتھ اس کو اپنے سینے سے لپٹالیا۔

بارش کی شدت میں اب کمی آنے لگی تھی،آہستہ آہستہ بارش تھم گئی ، خدا بخش نے بچے سے کہا بیٹا میرے ساتھ گھر چلو اسکی محبت اور شفقت بھری گفتگو سے بچے کا خوف اب بالکل ختم ہوچکا تھا اوروہ خدا بخش کے ساتھ اس کے گھر جانے کےلئے رضامند ہوگیا۔خدابخش جب اپنے گھر پہنچا تو اسکی بیوی مہرو پریشانی اور بے چینی کے عالم میں اسکا انتظار کررہی تھی۔ اس کے ساتھ اس چھوٹے بچے کو دیکھ کر بڑی حیران ہوئی اور پوچھنے لگی کہ یہ کون ہے۔ خدا بخش نے اسے سارا ماجرا سنایا اور اپنی بیوی سے بولا جلدی سے اسکے لیے کپڑوں اور گرم پانی کا انتظام کرو۔مہرو نے جلدی جلدی پانی گرم کیا اس بچے کا منہ دھلاتے ہوئے اس نے اسکا نام پوچھا تو اس نے کہا کہ میرا نام کلو ہے، میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ سب مجھے کلو ہی کہتے ہیں۔

خدابخش نے اپنی بیوی سے کہا مہرو ہمارے یہاں کوئی اولاد نہیں تھی نہ ۔دیکھ اﷲ نے ہماری دعا سن لی ہے اﷲ نے ہمیں اس بچے کے روپ میں بیٹا دیا ہے۔کچھ ہی عرصے میں کلُّو ان دونوں سے مانوس ہوگیا ۔خدا بخش نے کلو کو اپنے گاﺅں کے اسکول میں داخل کرا دیا جہاں وہ پڑھنے کے لئے جانے لگا۔ جب گاﺅں کے لوگوں نے خدابخش سے پوچھا کہ یہ بچہ کون ہے تو اس نے کہا کہ یہ میرے ایک دوست کا بیٹا ہے اس کے ماں باپ ایک حادثہ میں اﷲ کو پیارے ہوگئے تھے اور ان کا کوئی رشتہ دار نہ تھا لہٰذا میں نے اسکی دیکھ بھال اور تربیت کی ذمہ داری لے لی ہے۔

خدا بخش نے اسکول میں داخلے کے وقت اسکا نام کلیم الدین درج کروایا۔ کچھ ہی عرصے میں کلو کی صلاحیتیں سب کے سامنے آنے لگیں ، اچھے حافظے کی وجہ سے وہ اپنا سبق فوراََ یاد کرلیتا تھا ، اس کی ذہانت اور کارکردگی کی وجہ سے استاد نے اسے کلاس کا مانیٹر بنادیا۔ اسکول کے تمام استاد کلیم کو بے حد پسند کرنے لگے تھے ، دوسرے بچوں کو اس کی مثال دیکر کہتے کہ اس کی طرح دل لگا کر اپنی تعلیم پر توجہ دو۔ خدا بخش اور اسکی بیوی مہرو اسے دیکھ کر خوشی سے سرشار رہتے اور ہر طرح سے اس کی دیکھ بھال کرتے کلیم انھیں اپنا ماں باپ سمجھتا تھا اور ان سے بہت زیادہ مانوس ہوگیا تھا۔

دن گزرتے رہے کلیم نے اس سال دسویں جماعت کاسائنس گروپ سے امتحان دے دیا تھا۔ اسے اور اس کے گھر والوں کو اس کے رزلٹ کا بے چینی سے انتظار تھا۔خدا بخش اپنی ڈیوٹی پوری کرکے گھر واپس آرہا تھا بازار سے گزرتے ہوئے اس نے دیکھا کے اخبار فروش زور زور سے کہہ رہا ہے میڑک سائنس گروپ کا رزلٹ آگیا، میٹر ک سائنس گروپ کا رزلٹ آگیا۔خدا بخش نے لپک کر اخبار خریدا ، پہلے صفحے پر نظر پڑھتے ہی اس کا دل خوشی سے جھوم اٹھا کیونکہ اس میں کلیم کی تصویر چھپی ہوئی تھی اس نے اخبار فروش سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس بچے نے میٹرک کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ اس کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اسے کے پر لگ جائیں اور پلک جھپکتے ہی اپنے گھر پہنچ جائے اور سب کو یہ خوشخبری سنائے۔گھر پہنچ کر جب اس نے یہ خوشخبری سنائی تو سب کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح تمام گاﺅں میں پھیل گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں مبارک باد دینے والوں کا تانتا لگ گیا۔یہ پہلا موقع تھا کہ کسی گاﺅں کے طالب علم نے پورے علاقے میں میٹر ک کے امتحان میں پہلی پوزیشن لی تھی۔

کلیم کے شوق اور جذبے کو دیکھتے ہوئے خدابخش نے اسکول کے استادوں سے مشورے کے بعد اسے مزید پڑھائی کیلئے شہر میں کالج میں داخلہ دلانے کا فیصلہ کیا۔اچھے رزلٹ کی وجہ سے کلیم کا داخلہ باآسانی شہر کے کالج میں میڈیکل گروپ میں ہوگیا۔تعلیمی اخراجات کی وجہ سے خدابخش اب پہلے سے بھی زیادہ محنت کرنے لگا اپنی ڈیوٹی کے علاوہ اوور ٹائم بھی کرتا تاکہ گھریلو اخراجات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ کلیم کے تعلیمی اخراجات بھی پورے ہوتے رہیں۔

اب اس بات کو تقریباََ بیس سال ہوچکے ہیں وہ گاﺅں جہاں کبھی کوئی ڈاکٹر نہیں آتا تھا، وہاں اب ایک ہسپتال قائم ہو چکا ہے جسکا انچارج ڈاکٹر کلیم الدین ہے۔ گاﺅں کے تمام لوگ خدا بخش اور اسکی بیوی مہرو کو ہر وقت دعائیں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اس کی اس نیکی کا پھل ہے جس سے وہ خود اور تمام گاﺅں کے لوگ فیض یاب ہورہے ہیں۔
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 303721 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.