سینٹ الیکشن 2021حکومت اور پی ڈی ایم - تناؤ اور کھنچاؤ


سینٹ الیکشن 2021حکومت اور پی ڈی ایم - تناؤ اور کھنچاؤ
جمہوری نظام حکومت میں ایوان بالا یعنی سینٹ اور ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی مقتدر ایوان تصور کیے جاتے ہیں۔ سینٹ منتخب ایوان کا ایوان بالا ہے۔ گویا صوبوں میں ان کی اپنی اپنی صوبائی اسمبلیاں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں قومی اسمبلی کی مدت پانچ سال اور سینٹ میں سینٹ رکن کی مدت چھ سال ہوتی ہے لیکن تین سال بعد سینٹ کے آدھے اراکین ریٹائر ہوجاتے ہیں جس کے بعد ان کی جگہ نئے اراکین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ جیسے 2018ء میں سینٹ کے انتخابات ہوئے اب سینٹ کے آدھے اراکین اپنی مدت پوری کرنے کے بعد ایوان کا حصہ نہیں رہیں گے ان کی جگہ نئے اراکین کا انتخاب ہوگا۔ قومی اسمبلی کی طرح سینٹ کے اراکین کا انتخاب عوام اپنے ووٹوں سے برائے راست نہیں کرتے بلکہ سینٹ کے انتخاب کا ووٹر صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین ہوتے ہیں۔
پاکستان میں سینٹ کے اراکین کی کل تعداد 104 ہے۔ اس سینٹ کے انتخاب سے قبل سینٹ کے اراکین کی پارٹی پوزیشن کچھ اس طرح بنی 3مارچ2018ء کے سینٹ انتخابات کے بعد حکومتی اتحاد کے پاس کل40 ہیں ان میں پی ٹی آئی 17، بی اے پی 11، ایم کیو ایم 5,، آزاد5,بی این بی پی 1، جی ڈی اے 1کل اراکین 40۔ اس کے برخلاف حزب اختلاف کی جماعتوں کے پاس کل 64اراکین ہیں ان میں نون لیگ30، پی پی پی20، ایم ایم اے6، این پی5، بی ایم اے بی2، اے این پی1 کل اراکین 64مارچ میں سینٹ کو تین سال مکمل ہوئے اب کل اراکین کی آدھی تعداد کی رکنیت ختم ہوجائے گی، آدھی تعداد کے لیے لیے دنگل اور منڈی لگ چکی ہیں۔ جب وزیر اعظم کہہ دیں کہ خریدو فروخت شروع ہوچکی ہے، افسوس کے سوا ہم آپ کیا کرسکتے ہیں۔ حکومت کے پاکستا ن قومی اسمبلی کے علاوہ تین صوبوں یعنی پنجاب، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں اراکین کی اکثریت ہے اس لیے واضح طور پر حکومت کے اراکین کو سیٹیں زیادہ ملنی چاہیں۔ حز ب اختلاف جو عمران خان کی حکومت کو گرانے کی منصوبہ بندی پر تن من دھن سے مصروف عمل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پی ڈی ایم کا صرف ایک ہی ایجنڈا ہے، کہنے کو تو انہوں نے کئی مطالبات منظور کیے ہوئے ہیں لیکن عملی طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ پی ڈی ایم صرف عمران خان کو گھر بھیجنے کے سہانے خواب پر عمل پیرا ہے۔ باوجود اس کے کہ عمران حکومت عوام کو ریلیف دینے، اچھی حکمرانی، مہنگائی اور دیگر چیزوں میں نا کام نظر آتی ہے۔ پھر بھی حکومت کے گھر جانے کا آئینی اور قانونی جواز دکھائی نہیں دے رہا، میں پہلے بھی اس حوالے سے چودہدری اعتزازا حسن کی رائے پر ایک پورا کالم لکھ چکا ہوں، کہ حکومت صرف دو ہی طرح گھر جاسکتی ہے۔ایک تحریک عدم اعتماد دوسرے وزیر اعظم از خود اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور نئے انتخابات کرانے کے لیے عارضی حکومت اور انتخابی شیڈول کا اعلان ہوجائے۔ اعتزاز احسن کے بقول جلسوں، جلوسوں، دھرنوں، ریلیوں اور احتجاج سے حکومت نہیں جایا کرتیں۔ پی ڈی ایم میں نون لیگ کا اپنا ایک الگ ہی بیانیہ ہے۔ چھوٹی جماعتیں مجبورناً خاموش رہتی ہیں یا پھر وہ مولانا صاحب اور نون لیگ کے پیچھے کھڑے ہیں البتہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اسٹینڈ لیا، پہلے استعفوں پر، پی ڈی ایم کو پی پی کی بات پر خاموش ہونا پڑا، اب پی پی نے آئینی طریقہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی بات کی، دیگر جماعتیں نون لیگ اور مولانا کچھ جذبز ہوئے پھر خاموش ہوگئے۔ اب بھی دکھائی دے رہا ہے کہ 26مارچ کے دھرنے یا احتجاج میں جلسہ ہوگا، دل کی بھڑاس نکالی جائے گی، ممکن ہے دھرنا چند دنوں پر محیط ہو، واپسی ہوجائے گی، چند دن اسلام آباد میں سیاسی زلزلہ رہے گا۔ اس کے اثرات میڈیا کے ذریعہ عوام پر بھی پڑیں گے، اس احتجاج سے قبل سینٹ کے انتخابات بھی ہوچکے ہوں گے۔ اس کا نتیجہ احتجاج پر اثر انداز ہوگا، اگر پی ڈی ایم اور اس کی جماعتوں نے زیادہ تعداد میں سیٹیں حاصل کر لیں تو پی ڈی ایم کے سربراہان شیر بن کر دھاڑیں گے۔ عمران خان کا للکاریں گے، گھر بھیجنے کی باتیں کریں گے اور اگر حکومت اور اس کے اتحاد کو فتح حاصل ہوئی تو پی ڈی ایم کا مارل ڈاؤن ہوگا، آواز نیچی ہوجائے گی، الفاظ شائستہ استعمال ہوں گے، جملوں میں کڑواہٹ نہیں ہوگا۔
سینٹ شیڈول اعلان ہوچکا۔ کاغذات نامزدگی جمع کیے جاچکے، اب اسکروٹنی بھی ہوچکی، ہوگی، نام واپس لینے کا مرحلہ ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کا وقت ہے، جیسے پرویز رشید کورٹ میں جارہے ہیں۔ اس کے بعد حتمی فہرست سامنے آئے گی۔ پارٹیوں نے جو جو امیدوار میدان میں اتارے ہیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہر پہلوان اپنے مدِ مقابل سے کانٹے دار مقابلہ کرے گا۔ ابھی جو بات سامنے آرہی ہیں ان میں پی ٹی آئی کی جانب سے بعض امیدواروں کو ٹکٹ دینے پر ان کی اپنی جماعت کے اراکین تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں اور نظر یہ آیا کہ ان کی بات متعلقہ ذمہ داران سن بھی رہے ہیں، جیسے ایک مثال بلوچستان کی سامنے آئی، اسی طرح کچھ سندھ میں بھی اسی طرح کے تحفظات سامنے آرہے ہیں۔ اس بات کو میڈیا پر پی ڈی ایم کے رہنما زیادہ اٹھارہے ہیں، حالانکہ ایسا ہوجانا کوئی غیر معمولی بات نہیں، ماضی میں تو کسی جماعت کے کسی کارکن کو یہ جرت نہیں ہوتی تھی کہ وہ جس کو ٹکٹ دیا گیا ہو اس کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔ عامر لیاقت کی بات سامنے آئی، سب کچھ ہو لیکن انتخاب میں پیسہ چلنا نہیں چاہیے، میڈیا خاص طور پر بولیا لگانے والوں اور اپنا سودا کرنے والوں پر کڑی نظر رکھے، جماعتوں کو بھی چاہیے کہ اس قسم کے کاروبار کا سختی سے قلع قما ہونا چاہیے۔ایک مقابلہ بہت اہم سامنے آیا ہے، اس مقابلہ پر ملک کی سیاست پر گہرے اثرات ہوں گے۔ وہ ہے اسلام آباد سے سید یوسف رضا گیلانی پی ڈی ایم کے مشرکہ امیدوار ہیں جب کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ڈاکٹر عبد احفیظ شیخ امیدوار ہیں۔ ایک منجھے ہوئے سیاست دان کا مقابلہ ایک ٹیکنوکریٹ، پڑھے لکھے امیدوار سے ہونے جارہا ہے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے شعبوں میں ماہر ہیں۔ اس مقابلہ کا جو بھی نتیجہ ہوگا اس کے اثرات مثبت یا منفی دونوں دھڑوں پر ہوں گے۔(22فروری2021ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1285945 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More