بیجنگ کی ایک جامعہ میں زرعی تحقیق سے وابستہ پاکستانی
اسکالر سمیرا اصغر رائے سے چند دن قبل بات چیت ہوئی جس میں انہوں نے زراعت
کی اہمیت پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم بچپن سے
سنتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگرآج تک زراعت کی حقیقی اہمیت کو
محسوس نہیں کیا جا سکا ہے ، اسی باعث ہماری زراعت آج بھی روایتی ڈگر پر
قائم ہے اور موسمیاتی تبدیلی اور دیگر مسائل کے باعث شعبہ زراعت زوال پزیر
ہے۔گفتگو کے دوران انہوں نے چین کی مثال دی کہ یہ آبادی کے اعتبار سے دنیا
کا سب سے بڑا ملک ہے اور یقیناً ایک ارب چالیس کروڑ باشندوں کی خوراک کی
ضروریات کو پورا کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں، مگر چین نے خود کو وقت کے ساتھ
بدلا ہے۔زراعت میں جدت لائی گئی ہے جس سے فصلوں کی پیداوار میں مسلسل بہتری
آتی جا رہی ہے۔آج چین اناج میں خود کفیل ہو چکا ہے اور دنیا میں خوراک کی
ضروریات کو بھی پورا کر رہا ہے۔
چینی حکومت کے نزدیک زراعت اور دیہی علاقے کس قدر اہم ہیں اس کا اندازہ اس
بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکیس فروری کو چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی
کمیٹی نے دو ہزار اکیس کی پہلی دستاویز جاری کی ہے۔حسب معمول پہلی دستاویز
زراعت اور دیہی علاقوں کی ترقی پر مرکوز ہے۔مذکورہ دستاویز پانچ حصوں پر
مشتمل ہے ، جن میں زراعت اور دیہی ترقی کے مجموعی تقاضے ، دیہی علاقوں میں
غربت کے خاتمے کے نتائج کی تقویت اور دیہی ترقی، زرعی جدت کاری کا فروغ ،
دیہی بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر ، دیہات ، زراعت اور کسانوں سے متعلق
امور میں بہتری شامل ہیں۔دستاویز میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ دیہی تعمیر کو
بھرپور اہمیت دی جائے گی ، دیہی صنعت ، ثقافت اور ماحولیات کو فروغ دیا
جائے گا ، ،زراعت اور دیہی علاقوں کی جدت کاری ، دیہات اور شہروں کی ہم
آہنگ ترقی اور دیہی علاقوں میں رہائشی ماحول کی بہتری سمیت دیگر امور پر
زیادہ سرمایہ کاری کی جائےگی۔ چین کی جانب سے 2021 کے لئے زراعت اور دیہی
علاقوں سے متعلق اہداف اور کاموں کے ساتھ ساتھ 2025 تک کی مدت کے لئے وسیع
تر نقطہ نظر اپناتے ہوئے اہم امور کا تعین کیا گیا ہے۔
چین نے واضح کیا ہے کہ رواں برس بھی زرخیز علاقوں میں فصلوں کی بہتر
پیداوار یقینی بنائی جائے گی، اناج کی پیداوار 650 ارب کلوگرام سے تجاوز
کرے گی ، زرعی مصنوعات اور خوراک کے تحفظ کے معیار کو مزید بہتر بنایا جائے
گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کاشتکاروں کی آمدنی میں خاطر خواہ
اضافہ ممکن ہو سکے۔ ملک میں زراعت اور دیہی علاقوں کی جدت کاری کے منصوبے
پر عمل درآمد جاری رہے گا ، اور دیہی علاقوں میں اصلاحات کو مزید فروغ دیا
جائے گا۔ چین سال 2025 تک زراعت اور دیہی علاقوں کی جدت کاری میں خاطر خواہ
پیشرفت کا متمنی ہے اور ایک مزید مستحکم زراعت کی بنیاد پر دیہی اور شہری
باشندوں کے درمیان آمدنی میں پائے جانے والے خلا کو پُر کرنا چاہتا ہے۔
یہ امر قابل زکر ہے کہ چین نے گزشتہ برس انتہائی غربت سے نجات حاصل کر لی
ہے اور انسداد غربت کے کامیاب نتائج کو مزید مستحکم کرنے کے لیے آئندہ پانچ
برسوں تک مستقل اقدامات کیے جائیں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ
غربت کی دلدل سے باہر نکلنے والے افراد کہیں دوبارہ اس کا شکار نہ ہو
جائیں۔اس ضمن میں دیہی باشندوں کے مستقل روزگار اور اُن کی آمدنی میں اضافے
کے لیے ترجیحی پالیسیاں اپنائی جا رہی ہیں۔
جہاں تک زرعی جدت کاری کا تعلق ہے تو اس میں اناج اور اہم زرعی مصنوعات کی
فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ملکی صلاحیت میں مضبوطی حکومتی ترجیح ہے ،
اناج کی بہتر پیداوار کے لیے قابل کاشت رقبے میں اضافہ ، جدید کاشتکاری
نظام کی تعمیر میں تیزی ،گرین اور پائیدار زراعت اور زرعی مصنوعات کی تجارت
کو مزید آسان اور منافع بخش بنانے کے لیے اہم اہداف کا تعین کیا گیا ہےجس
میں ای ۔کامرس کا بھرپور استعمال بھی شامل ہے۔چین کی کوشش ہے کہ زرعی
حیاتیاتی عمل میں بڑے سائنسی اور تکنیکی منصوبوں کے نفاذ کو تیز کیا
جائے۔سائنس و ٹیکنالوجی ،زرعی تحقیق اور زرعی آلات میں جدت کے تحت زراعت کو
جدید خطوط پر استوار رکھا جائے۔چین آئندہ عرصے میں دیہی تعمیر و ترقی کے
لئے ایک جامع ایکشن پلان کو بھرپور طریقے سے نافذ کرے گا ، بہتر دیہی پبلک
انفراسٹرکچر اور بنیادی عوامی خدمات کے اہداف کا تعین کرے گا ، دیہی کھپت
کی مضبوطی اور کاؤنٹیوں میں ترقی سے مربوط شہری دیہی ترقی کو آگے بڑھایا
جائے گا۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ حالیہ عرصے میں پاکستان اور چین نے سی پیک کے تحت
زرعی شعبے میں تعاون کا عزم ظاہر کیا ہے جس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ
چین کے کامیاب زرعی تجربات ،ٹیکنالوجی اور مشینری کا پاکستان کے ساتھ
تبادلہ کیا جا سکے گا۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والا ایک بڑا
ملک ہے اور فصلوں و اناج کی پیداوار میں بھی مسائل کا سامنا ہے۔پاکستان۔چین
دوستی کا حقیقی تقاضا بھی یہی ہے کہ ایسے مسائل سے مشترکہ طور پر نمٹتے
ہوئے دوطرفہ تعاون کو عوامی فلاح و بہبود کے لیے موئثر طور پر استعمال کیا
جائے۔
|