تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
یوں غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
ویلنٹائن ڈے منانے والوں کو چاہیے کہ ہوش کے ناخن لیں کیونکہ جس قوم نے اس
دن کو منانے کا آغاز کیا تھا اْس کے نزدیک پہلے دن سے ہی محبت کی کوئی قیمت
نہیں تھی وہ تو جسمانی حوس کے پجاری لوگ ہیں۔اْن کا مذہب اور قانون اْن کو
کھلے عام مرد وعورت کے جائز،ناجائز تعلقات کی اجازت دیتا ہے۔یعنی اْن کے
نزدیک جسم ،جسم کی ضرورت ہے ایک نہیں تو دوسرا سہی۔ویلنٹائن ڈے منانے
والوذرہ سوچوبھلا جسمانی حوس کو محبت کا نام دینا مناسب بات ہے؟اور کیا سال
میں صرف ایک دن محبت کے لیے ہونا چا ہیے ؟اورجو آج کل چل پڑی ہے رسم (نام
نہاد)محبت یعنی حوس کی وہ تو ایک لمحہ نہیں رکتی یا تو سال بھر صبر کرواور
پھر ایک دن محبت کے نام سے منا لواور اگر ایسا بھی نہیں ہوسکتا تو بند
کردویہ ڈرامہ بازی۔سال میں ایک دن کومحبت کا خطاب دے کر خوب جوش وخروش کے
ساتھ منانا اور باقی ساراسال انسان کو انسان نہ سمجھنایہ کیسی محبت ہے؟اگر
یہ ڈرامہ بازی نہیں تو پھراور کیا ہے ؟ اور ایک سوال اْن لوگوں سے جو یہ
کہتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے ضرورمنانا چاہیے لیکن محرم رشتوں یعنی ماں،باپ،بہن
،بھائی،میاں ،بیوی وغیرہ سے محبت کا ظہار کرتے ہوئیچودہ فروری کو ویلنٹائن
ڈے یومِ اظہارِ محبت کی حیثیت سے بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔اس کے
آغاز کے بارے میں بہت سی روایات مشہور ہیں۔ لوگ اسے کیوپڈ (محبت کے
دیوتا)اور وینس(حسن دیوی)سے موسوم کرتے ہیں جو کیوپڈ کی ماں تھی۔ یہ لوگ
کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں جو اپنے محبت کے زہر بجھے
تیر نوجوان دلوں پر چلا کر انھیں گھائل کرتا تھا۔ ایک دوسری روایت میں اِس
تہوار کے تاریخی پس منظر کو دیکھا جائے تو اِس تہوار کا تعلق سینٹ ویلنٹائن
سے جوڑا جاتا ہے۔ اس تہوار کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب
رومیوں نے نصرانیت قبول کی اور عیسائیت کے ظہور کے بعد اس میں داخل ہوئے تو
تیسری صدی عیسوی میں شہنشاہ کلاڈیس دوم نے اپنی فوج کے لوگوں پر شادی کرنے
کی پابندی لگا دی کیونکہ وہ بیویوں کی وجہ سے جنگوں میں نہیں جاتے تھے تو
اس نے یہ فیصلہ کیا۔لیکن سینٹ ویلنٹائن نے اِس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے
چوری چھپے فوجیوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا اور جب کلاڈیس کو اِس کا
علم ہوا تو اس نے سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور اسے
سزائے موت دے دی۔کہا جاتا ہے کہ قید کے دوران سینٹ ویلنٹائن کو جیلر کی
بیٹی سے محبت ہوگئی اور سب کچھ خفیہ ہوا کیونکہ پادریوں اور راہبوں پر
عیسائیوں کے ہاں شادی کرنا اور محبت کے تعلقات قائم کرنا حرام ہیں۔ اسے 14
فروری 270 عیسوی کے دن پھانسی دے دی گئی۔ روایت کے مطابق اس دن کی یاد میں
محبت کرنے والوں کے درمیان پیار بھرے پیغامات کا تبادلہ ہوگیا۔ یہ ویلنٹائن
کی وہ کہانی ہے جو مغرب میں بے انتہا مقبول ہے۔بے شک اسلام میں محبت توایک
صورت یعنی آدمی اورعورت کے مابین محبت میں ہی منحصرہونے کی بجائے عام ہے
زیادہ بہتر ہے وہ اس طرح کہ دین اسلام میں اﷲ تعالٰی سے محبت اوراس کے رسول
صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کرنا ، صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے محبت
کرنا ،اولیا اﷲ بزرگانِ دین اورخیروبھلائی اوراصلاح اوردین سے محبت کرنے
والوں اوردین کی مدد کرنے والوں سے محبت کرنا ، اوراﷲ تعالٰی کے راستے میں
شھادت پانے سے محبت کرنا ، اوراسی طرح بہت ساری اوربھی محبتیں ہیں جواسلام
ہمیں بتلاتا ہے ، لھذا جب محبت کے اس وسیع معنی کوصرف محبت کی اس نوع
اورقسم میں ہی منحصرکردیا جائے توپھر بہت ہی خطرناک بات ہے غلط ہے۔ در اصل
یہ محبت نہیں ہوس ہے جو موقعوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ بے شک جولوگ یہ گمان
اورخیال رکھتے ہیں کہ شادی سے قبل محبت کرنا شادی کے لیے مفیداوربہترنتائج
کا باعث ہے اوراس سے اچھے اوربہتر تعلقات قائم ہوتیہیں توان کا یہ خیال
اورگمان تباہ کن اورخسارے والا ہے ، جیسا کہ تجربات وواقعات اورسروے سے بھی
یہ ثابت ہوچکا ہے ،نے محبت کی شادی love marriage کے بارے میں جو ریسرچ کی
ہے اس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ : وہ شادی جومحبت کی شادی یا محبت ہونے کے بعد
شادی کی جاتی ہے اس میں% 88 اٹھاسی فیصد شادیاں ناکامی کا شکار ہوتی ہیں
یعنی اس میں کامیابی کا تناسب صرف% 12 بارہ فیصد سے زیادہ نہیں۔جب سے یہ
تہوار عیسائیوں نے شروع کیا ہے اس میں مقصود محبت زوجیت کے دائرے سے باہر
رہتے ہوئے عشق اور دل کو عذاب میں ڈالنے والی محبت مراد ہے ، جس کے نتیجہ
میں زنا اور فحاشی پھیلے اور عام ہو ، اور اسی لیے کئی اوقات میں عیسائیوں
کے دینی لوگوں نے اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے اس کیخلاف کام کیا اور اسے
باطل قراردیا اوراسے ختم کیا لیکن انیسویں صدی میں دوبارہ زندہ کیاگیا۔
چونکہ عشق کا تعلق انسان کے اندرونی جذبہ سے ہے اسی کا استحصال کرنے کیلئے
تجارتی کمپنیوں نے ویلنٹائن ڈے کو ذرائع ابلاغ اورمیڈیا کے ذریعہ خوب شہرت
دی اور دلفریب بنا کر پیش کیا۔ اس دن کھربوں ڈالرز کا فائدہ یہ اپنی
مصنوعات محبت کے دیوانوں کو فروخت کر کے حاصل کرتی ہیں۔ انہیں کے زیر
اثردنیا تمام ذرائع ابلاغ اس دن کوبڑے تزک واحتشام سے نشر کرتے ہیں خصوصاً
اسلامی ممالک میں براہ راست موسیقی اورگندی تصاویر اوررقص وسرور کی محافل
نقل کرتے ہیں جس کی بنا پربہت سے مسلمان لوگ بھی اس کے دھوکہ میں آنا شروع
ہوچکے ہیں۔ اسی لئیے پچھلے چند برسوں میں بہت سے مسلمان نوجوان لڑکے لڑکیوں
میں بھی یہ دن منانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔یہاں اِس کا ذکر انتہائی ضروری ہے
خصوصا نئی نسل کے لئے کہ مسلم ممالک اور معاشروں پر تہذیب کی جنگ مسلط کردی
گئی ہے چند سال پہلے کسی کویہ معلوم نہیں تھا کہ دنیا گلوبل ویلیج ہے۔
گلوبل ویلیج کا نعرہ مغرب سے آیا اور مغرب کے پیروکاروں نے اِسے پھیلایا جس
کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو ایک تہذیب کے زیر اثر لایا جائے جہاں ایک نظام
ہو، ایک تہذیب ہو،اور اِسکے ہر رسم و رواج کو دوسری تہذیبیں قبول کریں۔
اِسے اپنی زندگی کا جزوِ لازم بنالیں اور اِسی منصوبے کے تکمیل کیلئے وہ
جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم احساس کمتری کا اس قدر
شکار ہو چکے ہیں کہ مغرب کی ہر روایت کو اپنا کر فخر محسوس کرتے ہیں اور
ہمارے معاشرے میں ماڈرن اور روشن خیال ہونے کی دلیل ہے مغرب کی تقلید بن
گئی ہے۔ مغربی اور غیر اسلامی معاشروں کا جو کلچر میڈیا کے ذریعے نوجوان
نسل کے ذہنوں کو یہ دن منانے کی دعوت دیتا ہے ، وہ طریقے بھی سکھاتا ہے۔
محبت اور عشق کے خوبصورت پردوں میں جنسی بے راہ روی اس دن کا خاصہ ہے۔ یہ
ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس برائی کو روکنے کے لئے ہر
ممکن کوشش کریں۔لوگوں میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے آگہی پیدا کریں، اس
دن اور ایسے دیگر تہواروں کے خرابیوں اور خرافات سے اپنی نوجوان نسل کو آگا
کرنے کے ساتھ اسے اس دلدل میں گرنے سے بچانے کی کوشش کریں۔ اگر ہم نے ابھی
آنکھیں نہ کھولیں، اپنی روایات کا پاس نہ رکھا اور مغرب کی تقلید میں مست
رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم اخلاقی زوال میں مغرب سے آگے نکل جائیں۔جویہ
دن منانے کی سوچ رہاہے وہ صرف اتناسوچ لے کہ جوبھی کرو گے وہی بھروگے۔
|