انسان میں حیوانی جذبات

 آئے روز الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر ایسے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں ،جسے دیکھ کر یا سن کر رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انسان پر حیوان بلکہ حیوان سے بھی بد تر کا گماں ہونے لگتا ہے ،اس کی وجہ کیا ہے ؟ ایسے واقعات راقم الحروف کو انسانی کردار کے سوچنے کی دعوت دیتا ہے ۔ بے شک انسانی کردار کو سمجھنا ایک بہت ہی مشکل کام ہے ۔اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ
دوسروں کو مکمل طور پر سمجھ رہا ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہوگی۔ دوسروں کے جو قول، فعل اور عمل ہمیں دکھائی دے رہے ہو تے ہیں وہ اکثر و بیشتر سطحی ہوتے ہیں ۔کردار کو ہم ایک ایسے مگر مچھ سے تشبیہ دے سکتے ہیں جس کا سمندر میں صرف آٹھواں حصہ نظر آتا ہے اور باقی وہ سمندر کے پانی میں ہمارے نظروں سے پوشیدہ ہوتا ہے ۔ اسی طرح انسانی کردار کو وجود میں لانے والے قوتوں کا بیشتر حصہ ہمارے لا شعور میں پنہاں ہوتا ہے ۔ لا شعور میں پڑی ہوئی نا مکمل خواہشات اپنے بالواسطہ یا بلا واسطہ اظہار کے لئے کلبلاتی رہتی ہیں ۔

روزِ اول سے انسان کے اندر تین قوتیں اس کے کردار کو متعین کرتی ہیں یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ تین قوتیں انسان کے افعال میں ، اقوال میں ،حرکات میں بنیادی محرکات و تغیرات کا سبب بنتی ہیں ۔ یہ تین قوتیں ایڈ (ID) ا نّا (Ego) اور فوق الانا (supper Ego) ہیں۔ یہ تین قوتیں لگا تار ایک دوسری سے ٹکراتی رہتی ہیں اور انسانی کردار پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔

کالم ہذا کی تنگ دامنی ان تینوں قوتوں کا تفصیل سے ذکر کرنے میں حائل ہے ، قارئین کی دلچسپی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے باقی دو قوتوں کا زکر پھر کسی وقت حوالہء قلم کیا جائے گا ۔ فی الحال صرف ایک قوت یعنی آئی ڈی کے متعلق بتاتا چلوں کہ یہ قوت انسان کی بنیادی قوت ہوتی ہے ۔یہ بچے کی ابتدائی ارتقاء میں ہی موجود ہوتی ہے ۔اس کا بنیادی اصول ہے ۔خواہشات کو پورا کرکے راحت حاصل کرنا اور ہر طرح کے اذّیت سے دور رہنا ، یہ قوت انسان کو فوری طور پر ہر خواہش کو پورا کرنے پر اکساتی ہے ۔حقیقت کا تقاضہ کیا ہے، اخلاقی ضابطے کیا چاہتے ہیں، اس کی اس کو ذرا پروا نہیں ہوتی ۔اس لئے آئی ڈی کی اضطراری تحریکیں خواہشات کے تکمیل کے ارد گرد گھومتی ہیں ۔گھر میں موجود بچے کی حرکات کو ذرہ غور سے ملاحظہ کیجئے ۔ وہ جب کسی خواہش کو پورا کرنا چاہتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے آس پاس کون لوگ ہیں ، موقع محل کے کیا تقاضے ہیں ، اس کی خواہش پوری ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ پوری ہونے کی صورت میں اس کے نتائج کیا ہونگے ؟ کیا اس کے حرکت سے کوئی نقصان ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ مثال کے طور پر ایک بچہ اگر دوسرے بچے کے ہاتھ میں کھلونا دیکھتا ہے اور اس کے دل میں وہ کھلونا لینے کی خواہش پیدا ہوتا ہے تو پھر وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اخلاقی یا سماجی تقاضا کیا ہے ، بلکہ وہ اس کھلونے پر جھپٹ پڑے گا اور دوسرے بچے کے ہاتھ سے وہ کھلونا چھیننے کی کو شش کرے گا ۔یہ انسانی کی پہلی وہ قوت ہے جو حیوانی خواہشات کا کا ذخیرہ ہے ۔ یہ فرد کو فوری تکمیل پر اکساتی ہے ۔اس میں جنس اور تشدد کی ایسی شدید خواہش بھی شامل ہو سکتی ہے جو فرد کے قابو سے باہر ہو جائے ۔ ٹی وی یا اخبارات میں چھوٹے بچوں سے زیادتی کے واقعات، آبرو ریزی کے واقعات، اجتماعی زیادتی ، دہشت گردی یہاں تک کہ جنگیں بھی انسان کے اندر چھپی ہو ئی خواہشات کا نتیجہ ہیں ۔گویا یہ ایک ایسامنہ زور گھوڑا ہے ،جس کو لگام لگانے کی اشد ضرورت ہو تی ہے ،اگر اس کو لگام نہ لگایا گیا تو وہ انسان کے اندر چھپی ہو ئی خواہشات کو آزاد کر دے گا جو دنیا میں انتشار اور لا قانونیت کا باعث بنے گا ْ۔

ہماری روزمرہ زندگی میں بہت سی ایسی خواہشیں سر اٹھاتی ہیں جو ہمارے سماج اور معاشرے کے اخلاقی اور مذہبی اصولوں کے مطابق نہیں ہوتیں اس لئے ان کے سر ابھارنے پر تشویش پیدا ہوتی ہے ۔اگر یہ شعوری سطح پر آجائیں تو انسان کو چاہئیے کہ اسے لا شعور میں دھکیل دیں ۔اس پر قابو رکھیں ۔ہر وہ انسان جو اپنی شخصیت میں موجود قوت اور خواہشات پر قابو نہیں رکھ سکتا ،وہ حیوان ہے ،معاشرے کے لئے زہرِ قاتل ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے قرآن شریف کی سورۃ التین میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
’’ لقد خلقنا الانسان فی احسنِ تقویم ‘‘ انسان کو ایک حسیں پیکر بنایا اور جملہ خصوصیات سے متصف کیا ۔وہ مجبورِ محض ہے نہ قادرِ مطلق ۔۔ نلکہ جبر و اختیار کے درمیان ایک مخلوق ہے اس کی شخصیت کی تعمیر میں بہت سے عوامل کار فرما ہیں ۔ کسی انسان کو سمجھنے کے لئے

ضروری ہے کہ اس کے محرکات کو سمجھا جائے جو اس کی شخصیت کی تعمیر اور اس کے کردار کی تعمیر میں سر گرمِ عمل ہیں ۔انسان کے خیالات، رحجانات اور نظریات اس کے کردار کو متاثر کرتے ہیں ۔ ذہن وہ کارخانہ قدرت ہے کہ انسان کا جسم اس کے اشارے پر حرکت میں آتا ہے اور خود ذہن پر مختلف عوامل اثر انداز ہوتے ہیں اس لئے انسان کی سا خت ذرا پیچیدہ ہے اور وہ بعض دفعہ ایسے ایسے کام کر جاتا ہے جسے ٹی وی چینلز یا اخبارات میں پڑھ کر انسانیت شرما جاتی ہے ۔باایں وجہ ہر شخص کو کو شش کرنی چاہیئے کہ وہ اپنے اندر حیوانیت کو نکیل ڈال کر رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315747 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More