#العلمAlilm علمُ الکتاب ((( سُورةُالحِجر ، اٰیت 85 تا
99 ))) قُرآن اور رسولِ زمان و مکان !! ازقلم.. علامہ اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
وما
خلقناالسمٰوٰٰت
والارض وما بینھما
الّا بالحق وان الساعة لاٰتیة
فاصفح الصفح الجمیل 85 ان ربک
ھوالخلٰق العلیم 86 ولقد اٰتینٰک سبعا من
المثانی والقرآن العظیم 87 لاتمدن عینیک الٰی
متعنابہ ازواجا منھم ولاتحزن علیھم واخفض جناحک
للمؤمنین 88 وقل انی انا النذیر المبین 89 کماانزلنا علی
المقتسمین 90 الذین جعلواالقرآن عضین 91 فوربک لنسئلنھم
اجمعین 92 عماکانوایعملون فاصدع بماتؤمر واعرض عن المشرکین 94
انا کفینٰک المستھزءین 95 الذین یجعلون مع اللہ الٰھا اٰخر فسوف یعلمون 96
ولقد نعلم انک یضیق صدرک بما یقولون 97 فسبح بحمدک ربک وکن من السٰجدین 98
واعبد ربک حتٰی یاتیک الیقین 99
اے ھمارے رسول ! زمین و آسمان اور اِن دونوں کے درمیان ھم نے جو کُچھ بنایا
ھے وہ کسی مقصد کے بغیر نہیں بنایا بلکہ ایک مقصدِ حق کے تحت بنایا ھے اور
جس دن ھم نے اِن سب چیزوں کو ختم کرنا ھے تو وہ بھی ایک مقصد کے تحت ختم
کرنا ھے ، اِس لیۓ آپ اہلِ زمین کے ساتھ اپنا حُسنِ عمل اسی طرح جاری رکھیں
جس طرح اَب تک جاری رکھے ہوۓ ہیں ، ھم نے آپ کو لوٹ پلٹ کر آنے والے سات
زمان و مکان دیۓ ہیں اور اُن سات زمان و مکان کے لیۓ یہ عظمت والا قُرآن
بھی دیا ھے اور اِس کتابِ عظیم کو پا لینے کے بعد آپ کو اُن عام چیزوں پر
توجہ دینے کی ضرورت ہی نہیں ھے جو ھم نے ہر خاص و عام کو دے رکھی ہیں اور
قُرآن کی موجُودگی میں آپ کو کسی بھی چیز کے لیۓ غم زدہ بھی نہیں ہونا
چاہیۓ اور آپ نے اپنی اُمت کو ہمیشہ اپنے رحمت کے پروں میں ڈھانپ کر رکھنا
ھے ، آپ اہلِ زمین کو آگاہ کردیں کہ میں اللہ کے فرمانوں کی نافرمانی کی
اُس سزا سے ڈرانے کے لیۓ آیا ہوں جو سزا اِس سے پہلے دین کے حصے بخرے کرنے
کی غرض سے قُرآن کو ٹُکڑے ٹُکڑے کرنے والوں کو دی گئ ھے ، آپ اپنے رب کی
طرف سے اِس اَمر کا یقین رکھیں کہ قُرآن کو ٹُکڑے کرنے اور قُرآنی اَحکام
کے ٹُکڑے کرنے والے سارے مُجرموں سے ھم بہت سخت باز پرس کریں گے ، آپ کو
اللہ نے جو اَحکام دیۓ ہیں آپ اُن اَحکام کو بِلا جَھجک بیان کریں ، جو لوگ
آپ سے تمسخر کریں گے ھم بذاتِ خود اُن کو مُسخر کریں گے اور جو لوگ اللہ کی
سَچی الوہیت میں اپنے جُھوٹے اِلٰہوں کو شریک کر رھے ہیں وہ جلد ہی اپنے
بُرے عمل کا بُرا اَنجام دیکھ لیں گے ، ھم جانتے ہیں کہ آپ کبھی کبھی اہلِ
زمانہ کے مَنفی اَعمال سے آزردہ دِل ہوجاتے ہیں لیکن آپ اِس آزردہ دلی کو
چھوڑ کر اللہ کے سامنے سرنگوں بندوں کے ہمراہ سرنگوں ہو کر اُس وقت تک کارِ
نبوت جاری رکھیں جب تک کہ وہ مقصد حاصل نہ ہو جاۓ جس مقصد کا حصول مطلُوب و
مقصُود ھے !
🌹 مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات ! 🌹
اٰیاتِ بالا کا جو مقصدی مفہوم ھم نے تحریر کیا ھے اُس کا مقصد و مُدعا
سیدنا محمد علیہ السلام کی عالَم گیر نبوت کے بارے میں قُرآنِ کریم کا
قُرآنِ کریم میں جا بجا بیان کیا ہوا وہ عالَم گیر اعتقاد ھے جس کا جن
مُتعد ماقامات پر ھم نے ذکر کیا ھے اُن میں سے ایک مقام سُورہِ اٰلِ عمران
کی اٰیت 81 اور 82 کا وہ مقام ھے جہاں پر ھم نے کُچھ اِس مفہوم کی حامل بات
تحریر کی ھے کہ اِس سُورت کی اِن اٰیات میں بتائی گئی پہلی چیز وہ اِلٰہی
وعدہ ھے جو اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام کی موجُودگی میں سیدنا
محمد علیہ السلام کی نبوت کی تائید و تصدیق کے لیۓ اپنے جُملہ اَنبیاۓ کرام
سے لیا ھے اور اللہ تعالٰی نے اپنے اِس وعدے کی رُو سے اپنے ہر نبی کو
سیدنا محمد علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق و تائید کا پابند کیا ھے لیکن
ظاہر ھے کہ اِس اِلٰہی وعدے کا کُلّی ظہور ھماری دُنیا کے زمان و مکان میں
نہیں ہوا ھے بلکہ ھماری دُنیا کے زمان و مکان کے علاوہ کسی دُوسری دُنیا کے
دُوسرے زمان و مکان میں ہوا ھے جو اِس بات کی دلیل ھے کہ کائنات ایک مُسلسل
حقیقت ھے اور حیاتِ کائنات بھی ایک مُسلسل حقیقت ھے اور اِس پہلی بات کے
بعد اِن اٰیات میں دُوسری بات یہ بیان کی گئی ھے کہ قُرآنِ کریم کی اِن
اٰیات کے مطابق جہان وہی ایک جہان نہیں ھے جو ہمیں اپنی آنکھوں سے نظر آتا
ھے یا پھر جو ہمیں اپنے احساس سے محسوس ہوتا ھے بلکہ درحقیقت اللہ تعالٰی
کے اِس بے کنار و بے کراں جہان میں ھمارے جہان کی طرح اور بھی بے شمار جہان
ہیں اور یہ قُرآن اسی طرح اُن سارے نادیدہ جہانوں کی کتابِ ھدایت ھے جس طرح
ھمارے اِس جہانِ دیدہ کی کتابِ ھدایت ھے اور سیدنا علیہ السلام بھی اسی طرح
اُن سارے نادیدہ جہانوں کے رسولِ ھدایت ہیں جس طرح ھمارے اِس دیدہ جہان کے
رسولِ ھدایت ہیں ، سُورَہِ اٰلِ عمران کے بعد سُورةُالرعد کی اٰیت 30 اور
32 کے مقصدی مفہوم کے حوالے سے بھی ھم نے سیدنا محمد علیہ السلام کی اسی
عالَم گیر نبوت کا بارِ دِگر ذکر کیا ھے اور اِس میں بارِ دِگر یہ عرض کیا
ھے کہ اِن اٰیات کی رُو سے سیدنا محمد علیہ السلام جس طرح اِس اُمت کے
رسولِ ھدایت ہوۓ ہیں اسی طرح آپ اِس اُمت سے پہلی اُمتوں کے بھی رسولِ
ھدایت رھے ہیں اور چند ہی اٰیات قبل جب اللہ تعالٰی نے اسی سُورةُالحر کی
اٰیات 61 تا 79 میں قومِ لُوط پر نازل ہونے والے عذاب کا ذکر کیا ھے اور
اِس عذاب کے وارد ہونے سے پہلے جب لُوط علیہ السلام کے گھر پر دھاوا بولنے
والے بد قماش لوگوں کا ذکر آیا ھے تو اِس سلسلہِ کلام کے درمیان اللہ
تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوۓ یہ ارشاد فرمایا ھے کہ
اے میرے رسول ! تیری زندگی کی قسم ھے کہ اُس وقت قومِ لُوط کے وہ لوگ تو
اپنی اُسی جنسی مستی میں مست تھے جس جنسی مستی کے وہ دلدادہ ہو چکے تھے ،
آخر کسی عقلمند انسان کے لیۓ اِس واقعے سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کون سا
اَمر مانع ھے کہ اگر اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام کی زندگی کی
قسم کھا کر اُس زمانے کے اُس واقعے کا ذکر کیا تھا تو اُس زمانے کے اُس
واقعے کے ساتھ آپ کی زندگی کا بھی کوئی ایسا نادیدہ تعلق ضرُور موجُود تھا
جو صرف اللہ تعالٰی کے اپنے علم میں تھا یا اللہ تعالٰی کے اُس کے اُس رسول
کے علم میں تھا جو رسول نزولِ وحی کے اِس لَمحے میں اللہ تعالٰی کے اِس
کلام کا مخاطب تھا اور اَب موجُودہ اٰیات میں اللہ تعالٰی نے پہلے زمین و
آسمان کی پیدائش کا ذکر کیا ھے اِس کے بعد "الساعة" کے آنے کا ذکر کیا ھے
اور زمان و مکان کے اسی پس منظر میں اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام
کو اِس اَمر کی ھدایت بھی کی ھے کہ آپ اہلِ جہان کے ساتھ حسبِ سابق اپنا
حُسنِ عمل جاری رکھیں ، پھر اللہ تعالٰی نے اپنی خلاقی کا ذکر کرنے کے بعد
لوٹ پلٹ کر آنے والے اُن سات زمانوں کا ذکر کیا ھے جو سات زمانے لوٹ پلٹ کر
آتے رھے ہیں اور اِن سات زمانوں میں اللہ کی یہ کتابِ زمانہ بھی لوٹ پلٹ کر
آتی رہی ھے اور جس طرح اِن سات زمانوں میں یہ کتاب لوٹ پلٹ کر آتی رہی ھے
اسی طرح وہ رسولِ زمانہ بھی اِن سات زمانوں میں لوٹ پلٹ کر آتے رھے ہیں ،
جن لوگوں نے اپنی کوتاہ فکری کے باعث "سبع مثانی" سے فاتحہ کی سات اٰیات
مُراد لی ہیں تو اُنہوں نے اِس بات کو بالکُل ہی فراموش کر دیا ھے کہ اللہ
تعالٰی نے جہاں پر اِس "سبع مثانی" کا ذکر کیا ھے وہیں پر اُس نے اُس قُرآن
کا بھی ذکر کیا ھے جس میں فاتحہ اسی طرح خود سے خود شامل ھے جس طرح لَفظِ
یوم میں لیل خود سے خود شامل ھے اِس لیۓ اِس کا اَلگ سے ذکر کرنے کی ضرورت
ہی نہیں ھے ، بہر کیف سطورِ بالا میں ھم نے زمان و مکان کی جس حقیقت کا ذکر
کیا ھے اسی حقیقت کا نام حقیقتِ محمدی ھے لیکن اگر ھم اِس مقام پر اِس
حقیقت کی حقیقت مزید واضح کریں گے تو بات شاید کُچھ مُشکل ہو جاۓ گی اِس
لیۓ سُورةُالحِجر کے اِس خاتمہِ کلام پر اِن گزارشات کو حقیقتِ محمدی کی وہ
مُشکل تمہید سمجا جاۓ جس کی آسان تکمیل سُورةُ الکہف کے اُس مقام پر ہی
مُمکن ہو سکے گی جو اِس موضوع کا ایک دُوسرا مُتعلقہ اُفق ھے !!
|