قرآن کو ترتیبِ نزولی سے پڑھنے کا فائدہ

نزول کے اعتبار سے قرآنی سوروں کی ترتیب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
(آیت اللہ استاد بہجت پور---سید جہانزیب عابدی)

انسانی تہذیب طول تاریخ میں مختلف اقسام کے انقلابات اور تہذیبی تبدیلیوں سے گذری ہے جن میں سب سے زیادہ باقی رہ جانے والی تہذیبوں کے اثرات میں الہٰی ادیان کی تہذیبیں ہیں۔ مشرقی اور مغربی تہذیبوں میں سب سے اہم اقدار ابراہیمی مثلاً اسلام، مسیحیت، یہودیت اور ان سے وابستہ گروہوں کی تہذیبیں ہیں۔

قرآن مجید ان الہٰی تہذیبوں میں سے آخری مینی فیسٹو ہے جس میں انسانی کمال اور سعادت کے کامل رموز شامل ہیں۔

مندرجہ ذیل تاریخی باتیں جعفر ابن ابی طالب کی ہیں جو انہوں نے نجاشی بادشاہ کے سامنے کیں تھیں۔
 
"ہم جاہل اور بت پرست تھے، مردار کھاتے تھے، غیر اخلاقی اور غیر انسانی اعمال انجام دیتے تھے، اپنے ہمسایوں کا احترام نہیں کرتے تھے۔ طاقتوروں کے زیر دست ان کے ظلم اور زیادہ روی کے آگے مجبور تھے، اپنے ہی رشہ داروں سے لڑتے اور جنگ کرتے تھے۔ انہی حالات میں ایک شخص ہم میں سے جو درخشاں ماضی، پاک زندگی اور راہ راست رکھتا تھا کھڑا ہوا اور خدا کے حکم سے ہمیں توحید اور یکتا پرستی کی دعوت دی۔ اور بت پرستی کو ہم سے دور کردیا ہم کو حکم دیا کہ امانت میں خیانت نہ کریں، ناپاکیوں سے دوررہیں اپنے قریبی ، رشتہ داروں اور ہمسایوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں، خون ریزی اور جنسی بے راہ رویوں سے دور رہیں، جھوٹ، مالی دھوکہ، یتیموں کا مال کھانا، خواتین پر جھوٹے الزامات لگانے سے دور رہیں۔ اس نے ہمیں حکم دیا کہ نماز قائم کریں، روزہ رکھیں، اپنے مالی وظائف کو ادا کریں۔ ہم اُس پر ایمان لائے اور خدا کی تمجید و توصیف کیلئے آمادہ و تیار ہوگئے اور جو کچھ اُس نے حرام قرار دیا ہم نے حرام مانا اور جو اس نے حلال کیا اُس کو حلال جانا۔" ( ابن الاثیر، الكامل فی التاریخ، ج 2، مصر، ص 54–55)

قرآن جس تدریجی ترتیب کے ساتھ نازل ہوا اس کو دریافت کرنے کیلئے ہوشیاری کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے اور یہ عمل اس نکتہ کو واضح کرتا ہے کہ خداوند عالم نے تبلیغ حق و حقیقت کیلئے کس روش کو مناسب اور درست سمجھا اور خلقت کے اہداف کو پانے کیلئے کن طریقوں کو انسان کیلئے بہتر اور درست جانا۔
 
اگر نزول قرآن ایک دفعہ میں ہی ہوجاتا تو یہ عمل انسانی معاشرے کی تربیت کیلئے غیر معقول طریقہ ہوتا۔ قرآن کا تدریجی نزول یعنی مرحلہ بہ مرحلہ اس کا اترنا اس لئے ضروری تھا کہ انسان جیسے ایک نوالہ حلق سے اتارنے کے بعد ہی دوسرا ڈالتا ہے۔ اگر یکمشت پوری پلیٹ منہ میں بھر لے تو غذا ضائع بھی ہوگی اور حلق میں پھنسنے کے باعث موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ چونکہ پروردگار عالم خالق ہے اس لئے وہ بہتر جانتا ہے کہ کیا چیز کب ، کیوں، کیسے، کتنی ضروری و غیر ضروری ہے۔

قرآن ٹکڑوں کی صورت میں جو تدریجی اور مرحلہ بہ مرحلہ ناز ل ہوا اس کی وجہ یہ ہے تاکہ لوگوں کیلئے پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی رہے اسی وجہ سے 23 سال کے عرصے میں رسول پر سوروں اور آیات کی صورت میں مختلف اوقات میں ضروری ہدایات ، شرائط، لوگوں کے سوالات کی مناسبت سے نازل کیا گیا۔ انسان کو کمال اور کامیابی کی طرف لیجانے کیلئے تیار کیا جارہا تھا اور مرحلہ بہ مرحلہ ایک اسٹیج کے بعد دوسرے کیلئے تیار کیا گیا ہے۔ جیسے تعلیمی پروسس میں بچہ پہلی جماعت سے ڈاکٹریٹ تک کا سفر تدریجاً طے کرتا ہے اور ایک مرحلہ کو خوش اسلوبی سے طے کرکے خود کو اگلے کیلئے تیار کرتا ہے۔

آیات وسوروں کو معاشرے کی ظرفیت، ضرورت کے تحت خدا وند حکیم نے جس خاص ترکیب و ترتیب سے نازل کیا ہے یہی روش ان مندرجہ ذیل آیات و سوروں کی ہے جو اِس موجودہ ترجمہ میں رکھی گئی ہے۔ چونکہ انسان کی نفسیات، ذہن اور قلبی احساسات اور کل کائنات میں جاری وساری نظام اور اس میں موجود علل و اسباب اسی طرح سے جاری و ساری ہیں جس طرح لاکھوں سال پہلے یعنی انسان کی موجودہ نسل سے بھی پہلے سے جاری و ساری تھے۔ لہذا آج جدید دور میں بھی جب ہمیں اپنے اور اپنے معاشرے کیلئے ترقی و کامیابی کیلئے طور طریقوں کی دریافت ، قواعد کلیہ کا استخراج مطلوب ہو تو ہم اس ترتیب و ترکیب سے قرآن خوانی کریں جو فطری اور خود خالق کائنات کی خلق کردہ ہے۔

ہر کام کے انجام دہی اور نتیجہ خیز ہونے کیلئے ضروری ہے کہ اسے اُس عمل کی خاص روش اور طور طریقے پر انجام دیا جائے۔ جیسے ہم بچوں کی پیدائش پر کرتے ہیں، پودا لگاتے وقت کرتے ہیں، کھانا پکاتے وقت کرتے ہیں وغیرہ۔ اگر بچے کو ہمیں ڈاکٹر بنانا ہے اور ہم اُس کو پیدا ہوتے ہیں میڈیکل کالج بھیج دیں تو نہ بچہ رہے گا اور نہ ہمارا مقصد پورا ہوگا۔ اگر ہم پودے کا بیج ڈالتے ہیں چاہیں کہ اس میں کیڑے مار دوائیاں ڈال دیں جو پتوں پر ڈالی جاتی ہیں اور پودا بڑے ہوکر اس کےسائڈ افیکٹ سے بچ جاتا ہے اور اپنی طاقت و قوت سے بچتا ہے اور صرف کیڑے ہی مرتے ہیں۔ یہ زہر پودے کا نقصان نہیں پہنچاتا ورنہ یہ بیج نابود ہوجائے گا۔ کھانے پکانے کیلئے اگر ہم مرحلہ وار عمل نہ کریں تو کھانا بھی نہیں پکا سکتے۔ وغیرہ

اس کائنات میں ہر عمل کیلئے خاص روش ہے، خاص طریقہ ہے، خاص ترتیب اور ترکیب ہے جو بھی اس پر عمل نہیں کرے گا وہ کامیاب و کامران نہیں ہوسکتا۔ قرآن مجیددنیا و آخرت میں کامیابی کی نوید دیتا ہے ان لوگوں کو جو ان طریقوں، روشوں پر اس عمل کی نتیجہ خیزی کیلئے ان کی مطلوبہ ترتیب اور ترکیب سے عمل کرتے ہیں۔ قرآن مجید وہ فارمولا ہے جس میں دنیا و آخرت کی کامیابی اور کمال کیلئے تمام مطلوبہ طریقہ کار موجود ہیں۔ ترتیب نزولی وہ اسٹریٹجی ہے جو خدا نے معاشرہ کو منقلب اور تربیت کرنے کیلئے استعمال کی ہے اور یہی ترتیب وہ زنجیری سلسلہ ہے جس میں تمام سوروں کے اسباب نزول یعنی واقعات تاریخی تسلسل کے ساتھ موجود ہیں اور آپس میں باہم ربط رکھتے ہیں۔ اس اسٹریٹیجی سے قرآن مجید کا مطالعہ ہمیں اس اصل ہدف و مقصد پر لاکھڑا کرے گا جہاں ہم اسی روش سے آشنا ہوں گے جو پروردگار عالم نے رسول اکرم ﷺ کیلئے معاشرے کی اصلاح و تربیت کیلئے استعمال کی۔ اس تناظر میں دیکھیں تو قرآن مجید رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و کردار کا آئینہ دار ہے۔

برائے مہربانی مکمل یکسوئی اور سمجھ کر غور کرکے تلاوت کیجیے تاکہ آپ کے قرآن کریم اور اللہ تعالیٰ کے درمیان نہ ٹوٹنے والا رابطہ برقرار ہوجائے لہذا آج سے یکسوئی کے ساتھ اس طرح تلاوت کریں کہ جیسے آپ اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے موجود ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ آپ سے ہم کلام ہے لہٰذاآپ کوشش کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ کو سن سکیں اور اس کے الفاظ پر دھیان دیں اور اپنے اخلاص اور وجود کو وقف کردیں کہ وہ آپ سے کیا کہہ رہا ہے. تو پھر انشاءاللہ آپ کو اس کا تجربہ ہوگا کہ آپ کی صلاحیتوں اور علمی ظرف میں اضافہ ہورہا ہے اور قرآن مجید سمجھنے کیلئے اللّٰہ تعالیٰ آپ کی ظرفیت اور صلاحیت کے حساب سے آپ کی توفیقات میں اضافہ کررہا ہے.

آپ اپنے ان مکاشفی تجربات کو ہفتگی اور ماہانہ بنیادوں پر لکھ بھی سکتے ہیں اور وقتاّّ فوقتاّّ اس تحریر کا مطالعہ کرتے رہیں.

 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 94 Articles with 70856 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.