جناب سعید جاوید کا شمار پاکستان کے ممتاز ادیب میں
ہوتا ہے ۔پیشے کے اعتبار سے وہ بنکار ہیں لیکن بچپن سے لے کرآج تک ان کی
زندگی مختلف نشیب و فراز سے گزرتی چلی آرہی ہے ،بچپن تو ان کا ایسا ہی گزرا
جیسا ہمارا بچپن تھا لیکن اس وقت ان کا ذکر پاکستان کے مایہ ناز ادیبوں اور
لکھاریوں میں بڑے احترام سے لیا جاتا ہے ۔رائٹر گلڈ ایوارڈ کے علاوہ بھی
کتنے ہی ایوارڈ وہ حاصل کرچکے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔سب سے بڑا ایوارڈ ان
کی جانب سے وہ محبت ہے جو ہم جیسے لوگو ں کو ہر لمحے حاصل رہتی ہے۔اردو
ڈائجسٹ کے روح رواں جناب الطاف حسن قریشی ،سعید صاحب سے والہانہ محبت کرتے
ہیں اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں ۔جناب امجد اسلام امجد جنہیں دور
حاضر کا بہترین ادیب ،ڈرامہ نگار اور شاعر قرار دیا جاتا ہے ان کی پہلی
محبت میں جناب سعید جاوید شامل ہیں ۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بھی
بتاتا چلوں کہ جناب سعید جاوید نے اپنی تعلیم کراچی کے تعلیمی اداروں سے
حاصل کی۔جہاں ان کے والد صدر پاکستان محمد ایوب خاں کے اے ڈی سی کی حیثیت
سے تعینات تھے ،یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان کا دارالخلافہ کراچی ہوا
کرتا تھا۔آپ نے اوائل عمری میں ہوٹل کراچی انٹرکانٹی ننٹل اور پیکجز لاہور
میں ملازمت کی ۔جبکہ حبیب بنک بھی آپ کی خدمات سے مستفید ہوتا رہا۔اس کے
بعد قدرت انہیں ارض مقدس (سعودی عرب) لے گئی جہاں پہلے انہوں نے ایک امریکی
کمپنی کے مالیاتی شعبے کی سربراہی حاصل کی۔ پھرریاض میں کنگ فیصل سپیشلسٹ
ہسپتال کے اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ کے مالیاتی اور انتظامی امور کے انچارج
بنے۔پچیس سال تک ارض مقدس قیام پذیر رہے ، جب وطن کی یاد نے بے حال کردیا
توآپ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وطن عزیز لوٹ آئے ،اس بار ان کے قدموں کو سرزمین
لاہور نے چومااور اب تک جکڑے ہوئے ہے۔جب ان کی آمد کی خبر لاہور کے معروف
"ڈاکٹرہسپتال "کی انتظامیہ کو ملی تو انہوں نے جناب سعید جاوید کی راہ میں
آنکھیں بچھا دیں ۔اس طرح نہ چاہتے ہوئے بھی آپ ڈاکٹر ہسپتال کی انتظامیہ کا
بطور سینئر ایڈمنسٹریٹر کا چارج سنبھال لیالیکن اس ہسپتال میں آپ زیادہ
عرصہ اپنی خدمات کو جاری نہ رکھ سکے اورماڈل ٹاؤن لاہور میں اپنے خوبصورت
گھر میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھا ۔سعودی عرب میں قیام کے دوران ان
کی ایک کتاب "مصریات"کے نام سے شائع ہوئی ۔جو اپنی نوعیت کی بہترین معلومات
افزا کتاب قرار دی جاسکتی ہے ،میں سمجھتا ہوں اتنی معلومات مصرمیں رہنے
والوں کو نہیں ہونگی جتنی مصر کے حوالے سے جناب سعید جاوید نے اپنی کتاب
"مصریات " میں جمع کردیں ۔سچی بات تو یہ ہے کہ جناب سعیدجاوید سے میری
دوستی کا محرک بھی یہی کتا ب بنی۔جن دنوں میں اردو ڈائجسٹ میں بطور سب
ایڈیٹر جاب کرتا تھا ،وہاں ان کی کتاب "مصریات"میرے پاس تبصرے کے لیے
آئی۔جب میں نے کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی چلاگیا ۔جب میں نے کتاب
کو پڑھا لیا تو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے میں لاہور میں بیٹھے بٹھائے بغیر
کچھ خرچ کیے، مصر کی سیر کرآیا ہوں ۔اس کتاب بر تبصرہ تو میں نے کردیا لیکن
دل کے ایک گوشے میں یہ خواہش ضرور پیدا ہوئی کہ کاش جناب سعید جاویداور ہم
دوست ہوتے ۔بزرگ فرماتے ہیں کہ کوئی وقت ایسا بھی ہوتا ہے جسے قبولیت کا
وقت کہاجاتا ہے چنانچہ جس لمحے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ،وہ لمحہ
قبولیت کا ہی تھا۔ پھر مجھے نہیں علم کہ کب اور کیسے میں سعید صاحب تک
پہنچا ،کچھ یاد نہیں۔اﷲ بہتر جانتا ہے۔
ان کی ایک اور مایہ ناز کتاب "ایسا تھا میرا کراچی"بھی ہے ،یہ کتاب ان کی
ان یاد داشتوں کا مجموعہ ہے جو انہوں نے اوائل عمری میں کراچی میں گزارے
تھے۔جن دنوں کا ذکراس کتاب میں شامل ہے ان دنوں میں کراچی واقعی دنیا کا
ایک خوبصور ت شہر کہلاتا تھااور دنیا بھر سے لوگ کراچی آنے اور دیکھنے کی
خواہش رکھتے تھے ،بہرکیف جناب سعید جاوید کی یہ کتاب بھی اپنی مقبولیت کے
تمام ریکارڈ توڑ چکی ہے بلکہ اچھے دنوں والے کراچی کا بہترین تعارف بن چکی
ہے ۔یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی سوانح عمری جو "اچھی گزر گئی"
کے نام سب سے پہلے شائع ہوچکی تھی اس میں جناب سعید جاوید کی زندگی کے ایسے
گوشے بھی شامل ہیں جن کا موجودہ سعید جاوید کو دیکھ کر تصور بھی نہیں کیا
جاسکتا لیکن وہ واقعات روح پذیر ہوئے ہیں اور "اچھی گزر گئی" کتاب میں ان
کا ذکر بھی موجود ہے ۔میں یہاں ان کی زندگی کا صرف ایک واقعہ بیان کرنا
چاہتا ہوں جو ان کے بچپن کی بہترین تصویر ثابت ہوگا۔ان کا سکول میں پہلا دن
کیسا تھا ؟۔لیجیئے آپ بھی اس سے لطف اٹھائیے-:
"ایک روز میری غیر موجودگی میں ہمارے گھر میں سارے ماموں سرجوڑ کر بیٹھے
انہوں نے ایک ساتھ محسوس کیا کہ میں اب بڑا ہوگیا ہوں چونکہ سارا دن گاؤں
کے بچوں کے ساتھ آوارہ گردی کرتارہتا تھا اس لیے مجھے سکول میں داخلِ کروا
دیا جائے۔ماں نے کہا ابھی بچہ ہے، چار پانچ سال بھی کوئی عمر ہوتی ہے اسکول
جانے کی،لیکن ماں کی بات کو مردانہ برتری کے بل بوتے پر دبا دیا گیا کہ
اگلے دن میں بھی سکول جاؤں گا۔دوپہرکو ماں نے مجھے یہ بریکنگ نیوز سنائی کہ
میرا بیٹا کل سکول جائے گا۔سکول کے بارے میں میرے اپنے ہی کچھ شکوک و شبہات
اور خدشات تھے ۔شیشم کے درختوں میں گھرا ہوا ایک کچے کمرے پر مشتمل یہ
اسکول دور سے بڑا بھلا لگتا تھا لیکن قریب سے گزرتے ہوئے وہاں سے بڑی
دردناک فریادیں اور بچوں کے رونے کی آوازیں آتی تھیں۔یہ سب کچھ ایک دم میرے
ذہن میں آگیا تو اسکول جانے سے میں منکر ہوگیا ۔ماں پہلے تو چپ رہی پھر
سمجھانے لگیں کہ "پڑھو گے نہیں تو گڈیوں کے بابو کیسے بنو گے "۔میری ماں نے
بہت قریب سے اگر کسی سرکاری افسر کو دیکھا تھا تو وہ کوئی آٹھ کلومیٹر دور
چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن کا اسٹیشن ماسٹر تھا ۔یا پھر دود ھ کی دھلی ہوئی
سفید وردی میں ملبوس ریلوے کا گارڈ تھا جس کے اشارے پر اتنی بڑی گاڑی چلنا
شروع ہو جاتی تھی ۔اس وقت کی خواتین اپنے بچوں کو ڈاکٹر اور انجنیئر بنانے
کی بجائے ریلوے کا بابو بنانے کی خواہش دل میں رکھتی تھیں ۔مجھے بتایا گیا
جب میں چھوٹا سا تھا تو ماں کے رشتے کی ایک بہن کو بطور مددگار بلایا گیا
تھا،وہ اس وقت کوئی پندرہ سال کی ہوگی۔ ریل گاڑی میں تازہ تازہ سفر کرکے
خانپور سے یہاں آئی تھی ۔وہ بھی میری ماں کی طرح ریلوے کے بابو سے متاثر
تھی۔وہ سارا دن مجھے اٹھائے پھرتی اور جب میں منہ پھاڑ کر روتا تو وہ مجھے
جھولے دیتی ہوئی کہتی "میرا گڈیاں دا بابو ، میرا ٹیشن بابو "۔گویا سب کی
ایک ہی خواہش تھی کہ مجھے اس عظیم محکمے میں نوکری مل جائے۔اگر ایسا ہوگیا
تو سب کی عاقبت سنور جائے گی۔
اگلی صبح نہلا دھلا کر ماں نے مجھے آسمانی رنگ کی نئی دھوتی بندہوائی اور
حفظ ماتقدم کے طورپر پیچھے گرہ بھی لگا دی تاکہ کہیں راستے میں یا اسکول
میں کھل کر بچے کو شرمندہ نہ کردے ۔حالانکہ ہم ان دنوں اس تکلف کے بغیر ہی
نہروں ،کھالوں اور ٹوبے میں نہاتے پھرتے تھے ۔سفید کرتا پہنا کر ماں نے
ڈھیر سارا سرسوں کا تیل سرپر لگایا جو سفر کرتا ہوا کنپٹیوں تک آ پہنچا۔سر
کے عین وسط میں مانگ نکال دی اور آنکھوں میں لمبی دم والا سرمہ لگا دیا جو
اس زمانے کا چلن تھا ۔پھر اندر سے میرا بستہ اٹھا لائی۔کھول کر مجھے دکھایا
، عام سے ملیشئے کے کپڑے کو بچھا کر اس پر ایک سلیٹ ،ایک کاپی اور ایک
قاعدہ ترتیب سے رکھا ہوا تھا ،اس پر شیشے کی کالی سیاہی سے بھری ہوئی ایک
چوکور دوات رکھی ہوئی تھی ۔سیاہی کو گرنے سے بچانے کے لیے دوات میں پرانے
کپڑوں کی چھوٹی چھوٹی ٹاکیاں ڈال دی گئی تھیں ۔دو تازے سرکنڈے کے قلم اور
ایک منی سی تختی کے علاوہ ملتانی مٹی کا ایک ٹکڑا بھی جیب میں ڈال دیا
گیاتاکہ تختی دھونے کے بعد اس پر مل کے اسے ملائم کرسکوں ۔چار برتوں والا
ایک پراٹھا اور اچار بھی چھوٹے سے رومال میں باندھ کر بطورزاد راہ ساتھ
کردیا۔
اسی دن اماں نے ابا کو خط لکھاہوگا کہ آپ کا بیٹا ماشا ء اﷲ اسکول جانا
شروع ہوگیا ہے او ر ابا جان نے بھی پردیس میں یہ خبر فخریہ انداز میں اپنے
دوستوں کو ضرور سنائی ہوگی ۔بہرکیف مجھے ماسٹر جسے اس وقت منشی جی کہہ کر
پکارتے تھے اور وہ اسکول کے اکلوتے ماسٹر تھے۔منشی جی جواس وقت مسواک کرنے
میں مشغول تھے ،مجھے دیکھ کر معنی خیز انداز میں مسکرائے اور سر کے اشارے
سے ہمیں قبول کیااوربوری بچھا کر بچوں کے ساتھ زمین پر بیٹھنے کو کہا ۔اس
دوران منشی جی نے کچھ اچھی باتیں بھی کیں ،کچھ برے وقت سے ڈرایا اور اپنی
بات پر زور دینے کے لیے انہوں نے نہ صرف اپنے اسلحے کی نمائش کی، بلکہ ایک
بچے ،جو بہت شور مچا رہا تھا ، پراس کا عملی مظاہرہ بھی کیا ۔ان کے تشدد
کایہ ہتھیار ایک تازہ چھلی ہوئی شہتوت کی چھڑی تھی ۔بعد میں پتہ چلا کہ وہ
روزانہ اپنے مزاج کی مناسبت سے شجر کا انتخاب کرتے تھے ۔کبھی شہتوت،کبھی
شیشم اور کبھی نیم ان کے استعمال ہوتی ہے ۔ہاں سردیوں میں ان کا یہ ہتھیار
پتلے دیسی گنے کی شکل میں نمودار ہوجاتا، جسے وہ چوستے بھی تھے اور تشدد کے
لیے بھی استعمال کرتے تھے۔
پہلے دن صبح کچھ وقت تو اسکول میں صحیح گزرا ،میں اور میرا ساتھی اپنی نئی
چیزوں سے کھیلتے رہے ،تھوڑی دیر بعد ہم نے کلاس کے دوران ہی اپنی پوٹلی
کھولی۔ پراٹھے نکال کر اچار کے ساتھ کھانے لگے،حالانکہ کھانے کا وقت تھا
اور نہ ہی اس کی ضرورت ۔منشی جی نے دیکھا اور انجان بن گئے شاید پہلا دن
سمجھ کر معاف کردیا۔اس کے بعد میرا ساتھی اشرف مٹو نے اپنی دوات کا ڈھکن
کھولا اور کوئی تجربہ کرنے کے چکر میں ،اس نے دوات کے منہ پر اپنی چونی رکھ
کر اسے بند کردیا۔تھوڑی دیر بعد چونی کی موجودگی کا یقین کرنے کے لیے ڈھکن
دوبارہ کھولا تو چونی غائب تھی ۔پتہ چلا کہ منی سی چونی دوات کے اندر گرگئی
ہے۔پہلے تو اس نے اپنے طور پر انگلیاں اندر گھسیڑ کر نکالنے کی کوشش کی ،جب
چونی نہ نکلی تو اس نے مدد کے لیے مجھے پکارا ،مجھ سے بھی کچھ نہ بن پڑا تو
اس نے اپنا بڑا سا منہ کھول کر بھاں بھاں رونا شروع کردیا۔جس سے سوئے ہوئے
منشی جی کی آنکھ کھل گئی لیکن پہلا دن سمجھ کرانہوں نے ہمیں کچھ نہ کہا
۔پہلے ہی دن اتنے بڑے مالی خسارے کا تو اشرف مٹو نے سوچا بھی نہیں تھا۔آخر
فیصلہ یہ ہوا کہ دوات کو توڑ دیا جائے جو اس وقت شاید ایک آنے کی آتی تھی
اور اتنے ہی پیسوں کی سیاہی دوات کے اندر موجود تھی ۔گو یا خسارہ کم
ہوکردوآنے رہ گیا تھا ۔غرض کہ دوات ٹوٹنے پر پھنسی ہوئی چونی برآمد ہوئی
جسے اس نے اپنی قمیض کے دامن سے صاف کرکے سیاہی وہاں منتقل کردی پھر بلاوجہ
ادھر ادھر دیکھ کر دانت نکالنے لگا۔
پہلے دن منشی جی نے ہاتھ ہلکا رکھا اور جب ہمیں اپنی منشا کے مطابق اچھل
کود کرنے پر کچھ نہ کہا تو اسکول ہمیں بالکل بھی برا نہ لگا۔اس دوران ہم
اپنے مستقل ساتھیوں کی کمی محسوس کرتے رہے ۔چشم تصور سے انہیں اپنے روزمرہ
کی سرگرمیوں میں مشغول دیکھا تو دل کو صدمہ سا ہو ا ،اسکول کے پاس سے گزرنے
والوں سے سوالیہ نظروں سے پوچھتے تھے کہ "کس حال میں ہیں یاران وطن ۔"
گھر واپسی پر ماں نے تو پیار کیا مگر میرا ساتھی اشرف مٹو اپنی نئی دوات
توڑنے کے جرم میں گھر سے ہلکا پھلکا پٹا بھی تھا۔اگلی صبح ہم دونوں اپنے
طور پر اسکول چلے گئے ،اس دن منشی جی اپنی آئی پر آگئے اور سارے تعلقات کو
پس پشت ڈال کر تھپڑوں کی بارش کردی اور دوپہر تک باقاعدہ چھڑی کا استعمال
شروع کردیا ۔ہم دونوں آپس میں مسلسل مستیا ں کررہے تھے اور ہمارا شور ان کے
آرام میں خلل ڈال رہا تھا ،پہلے تو انہوں نے ہمیں پیار سے روکا جب ہم باز
نہ آئے تو دونوں کو لائن حاضر کرکے شہتوت کی چھمک سے ہاتھوں اور کمرکی ٹکور
شروع کردی ۔اس مار سے اتنی تکلیف ہوئی کہ ہمارے آنسو نکل آئے۔آج بھی جب اس
مار کی یاد آتی ہے تو استاد امانت علی خاں کا گایا ہوا پیرفریدکا کلام یاد
آجا تا ہے کہ "ننگے پنڈے مینوں چھمکاں مارے تے میرے روندے نیں نین نمانے۔"
ہمار ا پپنڈا ننگانہیں تھا لیکن اثرات کم وبیش ویسے ہی تھے، جو پیر فرید
صدیوں پہلے بیان کرگئے تھے ۔یہی وہ موقع تھا جب پہلی بار دل و دماغ میں
اسکول اور خاص طورپر منشی جی کے خلاف بغاوت کے جذبات ابھرے۔
.......................
قدرت کا کمال دیکھیں وہی بچہ جو اسکول جانے سے گبھراتا تھا ،جس کے دل میں
استاد کے بارے بغاوت کے جذبات ابھرے تھے،وہ آج ہمارے درمیان میں ایک
مہذب،تعلیم یافتہ اور ممتاز ادیب کی شکل میں موجود ہے جس نے دو اور دو چار
کرنے کا ہنر بھی کچھ اس طرح سیکھا کہ ملکی اور غیر ملکی بڑے اداروں میں
اکاؤنٹس اور فنانس ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ بنے۔قدرت نے انہیں لکھنے کا فن سیکھایا
تو ان کی یکے بعد دیگرے تین کتابوں نے ادبی اور صحافتی حلقوں سے اپنا خراج
کچھ اس طرح وصول کیا کہ ان کا ہرچاہنے والا اور ہر شخص اپنی انگلیوں کو
دانتوں میں دابے بیٹھا ہے ،ان کی تینوں کتابوں میں سے جس کو بھی پڑھنا شروع
کیا جائے تو ان کتابوں میں تاریخ کے صفحات پر درج ہونے والے واقعات ذہنوں
کی سکرین پر مسلسل اترتے چلے جاتے ہیں ۔ جناب سعید جاوید اتنے خوش قسمت ہیں
کہ انہیں دو مرتبہ نبی کریم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی ۔جناب سعید جاوید کے ادبی
خدمات کا اعتراف کرنے والوں میں اردو ادب کے ممتا ز لکھاری جناب الطاف حسن
قریشی،پروفیسر امجد اسلام امجداور پروفیسر ڈاکٹر محمد حنیف شاہد بھی شامل
ہیں۔ یہ وہ عظیم ادبی شخصیات ہیں جن پر ان کی مہر تصدیق ثبت ہوتی ہے وہ کچھ
نہ ہونے کے باوجود بہت کچھ ہوجاتا ہے ۔جبکہ ہمارا شمار بھی ان کے نیاز
مندوں میں ہوتا ہے۔
قصہ مختصر جناب سعید جاوید کو تو اﷲ تعالی نے بے شمار خوبیوں سے نوازرکھا
ہے، وہ اتنے ہی میٹھے ہیں جتنے ان کے باغ کے کینو میٹھے ہیں ۔جن کا ذائقہ
ایک بار چکھنے کے بعد بازاری کینو اچھے نہیں لگتے۔اﷲ تعالی جناب سعید جاوید
کوصحت اور ایمان والی لمبی زندگی دے اور وہ مزید اچھی اچھی کتابیں پڑھنے
والوں کو اسی طرح دیتے رہیں ۔آمین
|