زندہ قومیں اپنی زبانوں کو نہیں چھوڑتیں لیکن آج کل
ہمارے معاشرہ میں سکول،کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم کی غرض سے اپنی قومی
زبان اردو کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے، دیکھا جائے تو یہودیوں کے زوال کے
بعداسرائیل میں دوبارہ عروج کا سب سے بڑا کردار اور کارنامہ یہی تھا کہ
انہوں نے اپنی زبان کو نہیں چھوڑا اپنی تعلیم و تربیت،علاج معالجہ اور
سرکاری و پرائیویٹ زبان کے طور پر صرف اور صرف اپنی زبان کو اپنایا،لیکن
ہماری ستر سالہ ناکامی کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہم نے اپنی زبان کو الوداع کہہ
دیا تھا اور آج تک اسے اپنانے سے انکاری ہیں،سیکولرز کی بات الگ ہے لیکن
ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے دین دار طبقے نے بھی انگریزی کو اپنا رکھا ہے اس
کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھا رکھی ہیں۔یاد رکھیں اپنی زبان ہی شریعت و
تہذیب ہوتی ہے اور جو لوگ اپنی زبان کو چھوڑ دیتے ہیں وہ اپنی شریعت و
تہذیب سے دور چلے جاتے ہیں۔کامیاب لوگوں کی ترقی کا زینہ بے اندازہ جدوجہد،
شب و روز کی محنت اور عملِ پیہم سے مل کر بنا ہے۔ کم ہمتی اور بے عملی
انسان کی ناکامی کا سبب بنتی ہے۔ وہ تدبیر کو چھوڑ کر تقدیر کے سرہانے بیٹھ
کر روتے ہیں اور نتیجاً آنسو اور آہیں ان کا مقدر بن جاتے ہیں۔
کسی بھی قوم وملک کی ترقی اور اس کی تہذیب اس وقت تک پروان نہیں چڑھ سکتی
جب تک وہ اپنی قومی زبان کو عام نہ کریں،اپنا نظام تعلیم،سرکاری و پرائیویٹ
دفاتر میں قومی زبان کو نافذ نہ کریں،دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا اہم راز
بھی یہی ہے کہ انہوں نے اپنی زبان کو فروغ دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ترقی
کی منزلیں طے کرتے گئے۔صرف چین ہی کی مثال لے لیں انہوں نے ثابت کر دیا کہ
ترقی کی راہ میں انگریزی زبان رکاوٹ نہیں اور نہ ہی بن سکتی ہے بلکہ اپنی
زبان کو ہی فروغ دینے کے بعد ترقی ممکن ہے۔چینی صدر کے سامنے جب سپاس نامہ
انگریزی میں پیش کیا گیا تو اس نے جو جملہ کہا اس کی نظیر ملنا مشکل ہے اور
یہی جملہ آج تک ضرب المثل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔چینی صدر کے الفاظ تھے
ابھی چین گونگا نہیں ہوا۔
گویا کہ آج کی تجارتی دنیا کا بادشاہ، چین کسی غیر کی زبان اپنا کر ترقی کی
منازل طے نہیں کر سکا بلکہ اپنی زبان، اپنے تمدن اور اپنی تہذیب کو لے کر
ساری دنیا کی تجارت کو قابو کر رہا ہے۔ خود برطانیہ میں ترقی کی ابتدا اس
وقت سے ہوئی جس وقت انجیل کا انگریزی زبان میں ترجمہ شائع ہوا۔اگراس ایک
چھوٹی سے الہامی کتاب کے ترجمہ سے اتنی روشنی پھیل سکتی ہے تو سوچیں! قرآن
پاک جیسی ہمیشگی والی ضخیم کتاب اپنے اندر کیا جواہر رکھتی ہو گی؟
ہمارا حال یہ ہے کہ انگریزی کے بغیر زندہ رہنے کو ایسے سمجھتے ہیں جیسے
پانی کے بغیر مچھلی کا زندہ رہنا محال ہے،جس دور میں ہم سانس لے رہے ہیں
وہاں ہمیں ہر طرف انگریزی ہی انگریزی نظر آتی ہے سکول،کالج، یونیورسٹی اور
سرکاری و پرائیویٹ دفاتر میں بھی اردو عنقاء کی مثل ہوگئی ہے اور انگریزی
کو سیکھنا،بولنا اور سمجھنا ہمارے لیے ضرورت کے ساتھ ساتھ مجبوری بن گیا
ہے۔ہم انگریزی زبان کے خلاف نہیں، انگریزی ضرور سیکھیں مگر سرکاری اور عام
رابطہ کی زبان صرف اردو ہونی چاہیے، کیونکہ پاکستان میں بسنے والے بلوچی،
سندھی، پنجابی، پختون، کشمیری اورگلگت بلتستانی سب کی رابطہ کی زبان صرف
اردو ہے اوراس زبان کی بدولت ہی سارا ملک ایک لڑی میں پرویا ہوا ہے۔ہمیں
قطعاً گوارا نہیں کہ اپنے نوجوان طلبا کو اعلیٰ مدارج تعلیم میں اردو زبان
سے بیگانہ کر کے اپنے بہترین دینی، سیاسی، علمی، فکری اور تاریخی ورثے سے
محروم کر دیا جائے اور اگر ہماری کم ہمتی اور بے عملی کے نتیجے میں ایسا ہو
جاتا ہے تو یہ ایک المناک حادثہ گردانا جائے گا اور اس پر آئندہ کی نسلیں
اور مورخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ کیونکہ اگر پاکستان سے اُردو نکال
دیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوگا کہ قوم کو کس زبان پہ یکجا کریں، اُردو کو
سرکاری زبان کا درجہ انگریزوں نے نہیں دیا بلکہ اردو کو مسلمانوں نے رائج
کیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل پنجاب انسٹی ٹیوٹ لینگویج آرٹ اینڈ کلچر لاہور میں تقریب کے
دوران ترکی کے’’ پروفیسر حلیل طوکار صاحب ‘‘کی گفتگو سنی۔ کہنے لگے کہ وہ
اردو زبان سے بہت پیار کرتے ہیں۔ انہوں نے اس پر کام بھی بہت کیا ہے مگر
انہیں حیرت تب ہوتی ہے جب وہ پاکستان آتے ہیں، اردو میں بات کرتے ہیں تو
اگلا بندہ انگریزی میں جواب دیتا ہے۔ حالانکہ ایسا ترکی میں نہیں۔ اُن کے
مطابق ترکی میں اگر کوئی ترک باشندہ آپس میں غیرزبان میں بات کرے تو اسے
عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو دوسری
زبانیں آتی نہیں، یا وہ کم علم ہیں۔ بات صرف اپنی مادری زبان کو ترجیح دینے
کی ہے۔ہم نے کئی بار پنجابی اور اردو زبان کے فروغ کیلیے تقریبات ہوتی
دیکھیں۔ ریلیاں نکالی جاتی ہیں، کالم لکھے جاتے ہیں۔ مگر ایسے میں حیرت تب
ہوتی ہے جب زبان کی ترویج کے نعرے لگانے والے خود ہی اپنے مطالبے پر عمل
نہیں کرتے۔
الغرض کچھ گزارشات پیش کی جاتی ہیں اگر ہم ان پر عمل پیرا ہو جائیں تو
ہمارا شمار بھی ترقی یافتہ ممالک میں ہوگا۔
1: سب سے پہلے اپنا تعلیمی نصاب اردو زبان میں منتقل کریں،انگریزی نصاب
تعلیم کا بائیکاٹ کیا جائے۔
2: دفاتر میں اردو زبان کو لازم قرار دیا جائے اور انگریزی پر مکمل پابندی
عائید کر دی جائے۔
3: سرکاری و پرائیویٹ دستاویزات بھی اردو میں لکھی جائیں۔
4: عدالتوں کے فیصلے بھی اردو زبان میں محفوظ کیے جائیں۔
5:اردو زبان کی سرکاری طور پر سرپرستی بھی کی جائے۔
6:پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو سمیت مختلف علاقوں میں بولی جانے والی
زبانیں ان علاقوں کی پہچان ہیں۔ انہیں زندہ رکھنے کیلیے یہاں کے رہائشیوں
نے سب سے پہلی ذمے داری ادا کرنی ہے۔ اگر وہی اپنی مادری زبانوں کو بھلا
دیں گے اور ان زبانوں کو اپنی اگلی نسلوں تک نہیں پہنچائیں گے تو یہ خدشہ
ہے کہ ہم رفتہ رفتہ کہیں قومی زبان اردو سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔
ہمارے ملک پاکستان میں ہر کام،مسئلہ اور چیز کے لیے الٹی گنگا بہتی ہے یہی
وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک اردو زبان سرکاری درجہ حاصل نہ کر
سکی اور لا وارثوں کی طرح اسے چھوڑ دیا گیا،دوسری طرف فرنگیوں نے ہمیں ایسا
نظام تعلیم دیا جس کو پڑھنے کے بعد ہمارے معاشرے میں کلرکس تو پیدا ہو سکتے
ہیں۔لیکن قومی ہیرو،عقل و بصیرت،فہم و فراست والے رہنما پیدا ہونے کی امید
فضول ہے،فرنگیوں نے ہماری زبان پر قبضہ نہیں کیا بلکہ ہمارے رہنے
سہنے،تہذیب و معاشرت کو بھی ہم سے چھین لیا ہے۔کسی دانا کا قول ہے اگر کسی
قوم کی شناخت ختم کرنی ہو تو اس کی زبان سلب کر لی جائے ۔
|