وقف بورڈ اور اردو اکادمی،شان ضرور ہیں لیکن جان نہیں

مسلمانوں میں جب بھی حق مانگنے کی بات کی جاتی ہے تو ان کے ذہنوں میں ایک ہی با ت آتی ہے کہ وہ وقف بورڈکیلئے بجٹ کا مطالبہ کریں،اردواکادمی کیلئے بجٹ کا مطالبہ کریں اور قبرستانوں،مزاروں و مشاعروں کیلئے دل کھول کر،سیاستدانوں کے آگے پیچھے گھوم پھیر کر ان ضروریات کے مطالبات کو پورا کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔وقف بورڈ ہو یا اردو اکادمی ،یہ دونوں ایسے ادارے ہیں جوحکومت کے ماتحت ونگرانی میں کا م کرتے ہیں،ان دونوں اداروں کیلئے فنڈس یا تعاؤن جاری کرنا حکومت پر منحصر ہے۔ویسے دیکھا جائے تو وقف بورڈ خودایک پھل دینا والاادارہ ہے۔جس میں سالانہ کروڑوں روپیوں کی آمدنی بورڈتک پہنچتی ہے۔اسی بورڈ سے ہزاروں مساجد کو امدادبھی دی جاتی ہے،لیکن یہ بات سمجھ سے باہرہے کہ کس لئے مسلمان اور مسلم سیاستدان وقف بورڈکیلئے فنڈس منظو رکرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔کسی بھی ریاست کے وقف بورڈکے پاس اتنی مالی استطاعت ہے کہ اگر یہ لوگ صحیح سے اوقافی املاک سے آمدنی کے وسائل بناتے ہیں تو حکومت سے اسکالرشپ کیلئے فنڈس کی درخواست کا موقع آئیگا اور نہ ہی قبرستانوں کے کمپاؤنڈ بنانے،قبرستان کیلئے جگہ خریدنے،مزاروں کے عرسوں وتقاریبات کیلئے رقم مانگنے کی نوبت آئیگی۔مگر کیا کریں ہماری قوم اس قدر جاہل،کاہل ہوچکی ہے کہ وہ اب کچھ کرنے سے قاصرہے،اور اگر کچھ کرتی بھی ہے تو وہ مانگنے کا کام کررہی ہے۔ہماری مسجدوں،قبرستانوں اور مزاروں کو سامنے رکھ کر آزادی کے بعد سے اب تک سیاست کی جاتی رہی ہے،حکومتوں نے زندوں کیلئے کم سہولت دی ہے،مردوں کیلئے زیادہ سہولت فراہم کررہی ہے،جس کی وجہ سیمسلمانوں کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ وہ زندہ رہ کر بھی مردوں کی طرح زندگیاں گذار رہے ہیں۔بات صرف اتنی نہیں کہ مسلمان اپنی مسجدوں و مذہبی مقامات کیلئے ہی ہاتھ پھسارنے کے عادی ہوچکے ہیں،بلکہ مسلمانوں نے اپنی مادر ی زبان کی ترقی وبقاء کیلئے ہاتھ پھیلانے کے رسم کو مضبوطی سے تھامے رکھاہے۔اردواکادمی ہرریاست میں کم وبیش موجودہے،اب مسلمانوں کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ وہ اپنی زبان کیلئے ہر طرح کے خرچ کیلئے اکادمی پر منحصرہیں۔جس زبان کے وہ بولنے والے ہیں،لکھنے والے،استعمال کرنے والے ہیں وہ اپنی جیب سے چند روپئے نکال کر خرچ کرنے کیلئے تیارنہیں ہوتے۔مشاعرہ کرناہے تو اکادمی پر منحصرہیں،سمینار کرناہے تو ادکامی سے پیسے مانگے جاتے ہیں،ثقافتی پروگرام منعقدکرناہے تو اکادمی سے پیسے مانگے جاتیہیں،یہاں تک کہ معمولی جلسوں کیلئے اکادمی سے اْمید لگائے بیٹھے رہتے ہیں،اگر اکادمی پیسے دینے سے انکارکرتی ہے یا پھر اکادمی کے پاس وسائل کی کمی ہوتو نہ مشاعرے ہوتے ہیں اور نہ ہی سمینار منعقدکئے جاتے ہیں،نہ بچوں کے جلسے ہوتے ہیں نہ بوڑھوں کے نخرے دکھائی دیتے ہیں۔زمین پوری طرح سے بنجر ہوجاتی ہے۔جو قوم 800سال تک اپنے بل بوتے پر اس ملک میں راج کرتی رہی،بیربل،پورنیا پنڈت جیسے برہمنوں کو اپنے یہاں غلام بنا کررکھا تھا وہ قوم آزادی کے محض70 سال بعد حکومتوں کی غلام بن چکی ہے۔حالت اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ مسلمان اپنوں کی بیماری کے علاج کیلئے امداد کم مشورہ زیادہ دیتاہے اور یہ امداد لیتے لیتے مریض مردار ہوجاتاہے۔یقیناً وقف بورڈ اور اردو اکادمی کا واسطہ مسلمانوں سے ہی ہے اور یہ ادارے زیادہ تر مسلمانوں کیلئے ہی کام کرتے رہے ہیں،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان اس پر پوری طرح سے منحصر ہوجائیں،بلکہ اپنے آپ کو بھی حرکت میں لائیں۔آج مسلمان اس بات کو دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح سے مسلمانوں کے قبرستانوں پر غیر قانونی قبصے کئے جارہے ہیں اور کس طرح سے قبرستانوں میں گندگیاں پھیلائی جارہی ہیں،کس طرح سے مسلم مدرسوں کو نشانہ بنایاجارہاہے،لیکن اس کے تحفظ کی بات آتی ہے تو سب کی نگاہیں وقف بورڈ،وقف چیرمین،وقف کارکنوں کی طرف جاتی ہیں۔ہم آپ کو یہ بتادیں کہ اکثر ان عہدوں پر وہی لوگ براجمان ہوتے ہیں جو سب سے بڑے چور ہوتے ہیں،جن کا تعلق سیاست سے ہو،جن کا تعلق بے ایمانوں سے ہو،جن کا تعلق لوٹیروں سے ہو،وہی ان عہدوں پر عام طور پر جاتے ہیں۔اب آپ پوچھیں گے کہ ان سے کام نہیں لیاجائیگا تو کس سے اْمید کی جائے؟۔جب ہمارے گھر کی دہلیز پر کوئی موٹر بائک کھڑا کر چلا جائے تو کیا اْس موٹر بائک کو ہٹانے کیلئے ہم پولیس کو ہی بلانا ضروری سمجھتے ہیں یا پھر میونسپل کے اہلکاروں کو اطلاع دیتیہیں؟نہیں نا،پہلے ہم اْس گاڑی کے مالک کو کہیں گے کہ گاڑی ہٹاؤ،اگر وہ نہیں ہٹاتاہے تو ہم خودآگے بڑھ کر گاڑی کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں،اگر اس پر بھی وہ طاقت کا زور دکھائے تو محلے کے لوگ اکٹھا ہوکر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔جب ہنگامہ بڑھتا دیکھ کرپولیس آتی ہے تو تب خود پولیس قانونی اعتبار سے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔بالکل اسی طرح سے ہمارے اوقافی ادارے ہمارے گھر ہیں،ہماری ملکیت ہے۔جب تحفظ کیلئے پہل ہم کرنے لگیں گے تو بعدمیں خود لوگ بھی جڑنے لگیں گے،سرکاری اہلکاربھی ساتھ دینے کیلئے مجبور ہوجائینگے اور پولیس کو بھی ساتھ دیناپڑیگا۔اسی طرح سے اردو اکادمی پر پوری طرح سیمنحصر نہیں ہوناچاہیے،جب ہم اپنے بچوں کی شادیوں کیلئے لاکھوں روپئے خرچ کرتے ہیں،ختنے،چھلے،چھٹی کیلئے ہزاروں لاکھوں روپیوں خرچ کرنے کیلئے تیارہیں تو کیا اردو کیلئے چند ہزار روپئے اپنی جیب سے نہیں خرچ کرسکتے؟۔ایسانہیں کہ یہ جلسے و تقاریبات فرض ہیں بلکہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ہماری روایت ہے اور ہماری پہچان ہے،اردو کی سرگرمیوں کوبحال رکھنے کا ذریعہ ہے۔تو کیونکر ان سرگرمیوں کیلئے اپنی طرف سے پیش رفت کرنا ہی نہیں چاہتے؟۔حق اْسی وقت اداہوگاجب ہم حقیقت کے ساتھ بڑھنے لگیں گے اور خدمت اْسی وقت پوری ہوگی جب خدمت کرنے کیلئے اپنے آپ کو پیش کرینگے۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197706 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.