مہوش کرن، اسلام آباد
ہر سال کی طرح اس بار بھی مارچ کا مہینہ اور 8 تاریخ کو عالمی یومِ خواتین
قریب ہے۔ یقینا اس بار بھی عورت مارچ میں بے ہودہ نعروں و پلے کارڈز کی
تشہیر ہوگی۔ اس سال میں آپ کے سامنے ایک موازنہ پیش کروں گی۔ آگے آپ خود
سمجھدار ہیں۔۔۔۔’’میرا جسم، میری مرضی‘‘نہ جسم میرا اور نہ ہی مرضی میری
اپنی ہوسکتی ہے۔ تمام تر جسمانی نظام اﷲ کے حکم اور بناوٹ کے حساب سے چل
رہا ہے۔ بگ بینگ تھیوری پر یقین ان کی اپنی مرضی ہے، کوئی زبردستی نہیں۔
زندگی کے لیے چاہے کسی بھی تھیوری پر یقین رکھیں مگر کیا موت پر بھی یقین
نہیں رہا ؟ روز سب کی نظروں کے سامنے کتنے لوگ مرتے ہیں تو کہاں جاتے ہیں؟
’’دوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پر باندھ لو‘‘اب آنکھوں پر باندھ کر بھی
کیا کریں گے، وہ تو سب کی عقلوں پر پڑ گیا۔ ’’اپنا موزہ خود ڈھونڈ لو‘‘سب
کی اماں آج تک ابا کو موزے، گھڑی، والٹ، ٹوپی، فائلز ہر چیز ڈھونڈ کر دیتی
آئی ہیں۔ اگر وہ نہ دیں تو تمام تر بیچارے ابا ہر کام کے لیے لیٹ ہو جائیں۔
یہ تو سچ میں ان کا بہت بڑا احسان ہے، بھلا اس میں کیا برائی ہوگئی؟ ’’میں
بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں‘‘
ہمارے آس پاس تو اب کسی کے اتنے بچے نہیں کہ یہ بات کہی جا سکے۔ پرانے
زمانے میں ہوا کرتے تھے۔ اب تو دوسرے سے تیسرے آپریشن کے بعد شوہر و ڈاکٹر
خود ہی کہہ دیتے ہیں کہ اپنی صحت پر توجہ دو ورنہ بچوں کو کون سنبھالے گا۔
ظاہر ہے وہ توجہ اور پیار باپ لٹا ہی نہیں سکتا جو ماں کر سکتی ہے۔
’’تم ایک ریپیسٹ ہو‘‘
کچھ بے چاری عورتوں کے شوہر راتوں کو اپنا حق استعمال کرتے ہیں، پروا کیے
بغیر کہ وہ تھکی ہوئی ہیں یا بیمار ہیں۔ میوچل انڈرسٹینڈنگ ہو یا نہ ہو۔
عورت مارچ والے اسے میریٹل ریپ کہتے ہیں اور اسے نہیں مانتے کہ ہمارا جسم
ہے، ہماری مرضی چلے گی، استعمال کرنے دیں یا نہیں اور چاہیں تو کسی اور کو
استعمال کرنے دیں۔
جو مرد یہ کرتے ہیں، غلط تو وہ ہوئے نا۔ پانچوں انگلیاں کبھی برابر ہوئی
ہیں؟ آخر کو یہ شوہر بیوی کا رشتہ، نکاح کا تعلق، خاندانی نظام، یہ سب اﷲ
نے ہی بنایا ہے جو کہ ایک فطری اور صحت بخش تعلق ہے ورنہ انسان اور جانور
میں بھلا کیا فرق رہ جائے گا؟ آخر کو اﷲ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا
ہے۔
انہیں مردوں سے اتنا بیر ہے تو جنازہ کون پڑھائے گا؟ نکاح کون پڑھائے گا؟
مسجدوں میں امام کون بنے گا؟
کتنا بڑا فتنہ کھڑا کرنے کی تیاری ہے؟ ایجنڈا یہی ہے نا کہ پاکستان سے دین
کو خارج کر کے اسے سیکولر اسٹیٹ بنا دیا جائے۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکے گا،
ان شاء اﷲ. کیونکہ کتنی ہی عورتیں ہیں جو تعلیم یافتہ و باشعور ہیں، اونچی
پوسٹس پر کام بھی کرتی ہیں اور شریف باپردہ بھی رہتی ہیں۔
ان کے نزدیک جب مرد و عورت برابر تو پھر بس میں کون کس کے لیے سیٹ چھوڑے
گا؟ بِل اور بینکوں کی لائنوں میں پیچھے دھوپ میں کون کھڑا ہوگا؟ اتنی دیر
میں ہی کس کا میک اپ بہہ جائے گا؟ بس کنڈکٹر کی طرح دروازے کا ڈنڈا پکڑ کر
لٹکتی عورتیں کیسی لگیں گی؟ سڑک پر ٹائر پنکچر ہوگیا تو آرام سے بدل پائیں
گی؟ کہیں کلائی میں موچ ہی نہ آجائے۔ گھر میں ٹینک کا ڈھکن کھول کر پانی
چیک کرنا، باتھ روم میں چھپکلی کو مارنا؟ یہ سب کام بھلا کیسے ہوں گے؟
چلو مان لیا کہ سودا سلف لانے میں خواتین ایکسپرٹ ہوتی ہیں۔ کیڑے مار اسپرے
خرید کر لے آئیں گی لیکن کیا اس کا رخ چھپکلی کی طرف کر کے اس کی آنکھوں
میں آنکھیں ڈال کر اس پر اسپرے کر پائیں گی۔ مکان کی شفٹنگ کرنی پڑی تو
سارا فرنیچراٹھا کر ٹرک میں لوڈ کرلیں گی؟
’’لو بیٹھ گئی ٹھیک سے‘‘مرد عورت سے چاہتا ہے کہ وہ کسی چھوئی موئی کے پودے
کی طرح رہے جبکہ وہ خود چوڑا چکلا ہوکر چلے اور بیٹھے۔ یہ کوئی برابری ہے۔؟
ہاں یہ بالکل برابری نہیں ہے کیونکہ اﷲ نے ہر جگہ برابری نہیں رکھی۔ ہمارے
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے عورتوں کو مسجد جانے کی اجازت تو دی لیکن ساتھ ہی
سڑک پر ایک طرف ہوکر چلنے کا حکم بھی دیا۔ کیونکہ یوں مردوں کی طرح کام
کرتے ہوئے عورت اپنے عورت ہونے کا حسن کھو دیتی ہے پھر وہ ’’مرد مار عورت‘‘
کہلاتی ہے، صنفِ نازک نہیں۔
خود سوچیں، چیزوں کے کچھ فطری تقاضے ہوتے ہیں وہ ان کے حساب سے ہی جچتی
ہیں۔ ذرا بتائیں کہ ہم ہر انسٹیٹیوٹ، ہوٹل، ٹریفک، عدالت، غرض ہر شعبے کے
قوانین پر عمل کریں لیکن جب بات بحیثیت ایک مسلمان کے زندگی گزارنے کی آئے
تو قرآن و سنت کا ہر حکم ماننے سے انکاری ہوجائیں۔
کیا یہ انصاف ہے؟ یا تو یہ نام نہاد فیمینسٹ کھلم کھلا اعلان کردیں کہ وہ
دائرہِ دین سے خارج ہو گئے ہیں اور اس ملک سے چلے جائیں تاکہ اْن پر کوئی
حدود نافذ ہی نہ ہوں. لیکن یہاں جو لوگ سکون سے رہ رہے ہیں اور رہنا چاہتے
ہیں انہیں تو بخش دیں۔
ایسے لوگوں کی یہ حرکتیں، باتیں، بینر کسی ایسڈ کی طرح ہیں۔ جو فوری طور پر
کسی چیز پر گر کر اسے جلا اور گلا دیتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے اسے ڈائلیوٹ
کرنے کے لیے خوبصورت بہانے بنائے ہیں اور مظلوم عورتوں کا ساتھ دینے کے
بہانے اپنے چہرے پر دجل و مکر کا خول چڑھایا ہے۔ مگر فکر نہ کریں پچھلے
سالوں کے مقابلے میں اب ان کا کردار بہت واضح دکھائی دے رہا ہے اور در پردہ
عزائم بھی ظاہر ہورہے ہیں۔
ان لوگوں کو کیا لگا تھا کہ صرف وہ طاقتور ہیں، صرف وہ باشعور و پڑھے لکھے
ہیں۔ صرف وہ شور مچا سکتے ہیں۔ تو وہ دیکھ لیں کہ میرے باپ نے، میرے بھائی
نے، میرے شوہر نے مجھے اس مقام پر پہنچایا ہے کہ آج میں اﷲ کی دی ہوئی قوتِ
علم و دانش استعمال کر کے انہیں گھر بیٹھے ہی ہر پلیٹ فارم پر جواب دے رہی
ہوں۔ اپنی آواز بلند کر رہی ہوں۔ مجھے اْن جیسوں کو جواب دینے کے لیے سڑکوں
پر نکلنے کی ضرورت نہیں۔
کون کہتا ہے کہ عورت پر ظلم نہیں ہوتا رہا یا ہو رہا ہے؟
بے شک اس پر تیزاب پھینکا جاتا ہے، وراثت میں حق بھی نہیں ملتا، اسے زیادتی
و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تعلیم سے بھی محروم رکھا جاتا ہے، ونی کر
دیا جاتا ہے، قرآن سے شادی کر دی جاتی ہے لیکن کیا وہ لوگ اس پر آواز اٹھا
رہے ہیں؟ اور یہ ظلم کرنا میرے بہترین دین کی تعلیم نہیں بلکہ آج کے مرد و
عورت کے دین سے دور ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔ اگر وہ تربیت کرنا چاہتے ہیں تو
تربیت کرنے کا یہ طریقہ کہاں سے مناسب ہے؟
وہ لوگ تو بس جسمانی آزادی کے سوا کچھ مانگتے ہی نہیں۔ اس بہانے دین کو
بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ اتنا غم ہے عورت کے استحصال کا تو آ جائیں، اپنے
بیٹوں کی تربیت کریں انہیں بتائیں، سکھائیں، سمجھائیں کہ عورت کا اصل مقام
کیا ہے۔ تاکہ کل کو کوئی بیٹا کسی کا شوہر و باپ بن کر اسے عزت، مرتبہ و
تحفظ دے۔ اپنے ہی گھر میں اپنے زیرِ ماتحت عورتوں کو عزت و مقام دیں، اپنی
زندگی میں شامل ہر ایک عورت کے حقوق ادا کریں۔
زندگی کے اس سفر میں ہمیں خود کو بھی سنبھالنا ہے اور دوسروں کو بھی سہارا
دینا ہے۔ یقیناََ کہیں نہ کہیں ظلم آپ کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور میرے ساتھ
بھی لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں جو وہ سمجھانا چاہ رہے ہیں۔
آئیں ہم اپنی آنکھیں کھولیں، شعور کی نظر سے حالات کو دیکھتے ہوئے، نسوانیت
کو زندہ درگور کرنے کی بجائے اپنے ایمان کو زندہ کریں۔ ہر طرف عذاب کی اتنی
شکلیں ہیں لیکن دیکھنے کے لیے آنکھیں نہیں۔ اپنے لیے اْسی رب سے قوتِ بصیرت
مانگیں جس نے آپ کو بصارت دی ہے۔ خود کو انسانیت کے معیار سے گرانے کے
بجائے اپنے انسان ہونے کو یاد رکھیں۔ اور اس سب سے بڑھ کر اپنے عورت ہونے
کو، دین میں اپنے مقام کو یاد رکھیں۔
آپ اور میں،، بہترین انسان حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی نظر میں نازک
آبگینے اور نسلوں کی معمار ہیں۔ آپ اور میں کوئی اور نہیں، بلکہ ہم اﷲ کی
بہت پیاری، بہت خاص مخلوق، ایک عورت ہیں۔
|